بلال احمد پرے
یقینا ہر ایک انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے الگ الگ ذہانت موجود رکھی ہے جس سے ہر ایک انسان کی سوچ، سمجھ، فہم ادراک، یاداشت اور صلاحیتیں منفرد ہوتی ہے اور بعض اوقات دو ہم شکل انسانوں کی ذہانت بھی آپس میں نہیں مل پاتی ہے۔آج کے مضمون میں ہم اسی ذہانت پر مبنی سیول سروسز امتحان میں کامیاب امیدواروں کی بات کرتے ہیں۔ جن کے متعلق اکثر لوگ یہی رائے قائم کر بیٹھتے ہیں کہ یہ لوگ بے حد ذہین ہوتے ہیں اور ان کے مدمقابل ہم کھڑے نہیں ہو سکتے ہیں۔چونکہ اسی طرح کی سوچ اکثر پڑھے لکھے نوجوانوں کے اندر بھی پائی جاتی ہے جس سے انہیں اس طرح کے مسابقتی امتحانات میں شرکت کرنے سے پہلے ہی ناکام ہونے کا ڈر رہتا ہے اور وہ زندگی بھر ایسے اعلیٰ ترین امتحانات کے متعلق کبھی سنجیدگی سے سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔
تین مراحل پر مشتمل سیول سروسز امتحان وہ امتحان ہے جہاں کسی بھی امیدوار کو کسی قسم کے تعصب کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔ یہ امتحان خالص میرٹ پر مبنی ہے۔ جو کْل ملا کر مینز اور انٹرویو کو جوڑ کر تیار کیا جاتا ہے۔ ایسے مقابلہ جاتی امتحان میں شرکت کرنے اور اس کی تیاری کرنے والے طلبا کو تیاری کے دوران حوصلہ افزائی کی بہت ضرورت ہوتی ہے اور اکثر کامیابی اور ناکامی کے خوف کے درمیان شش و پنج کا شکار رہتے ہیں۔ اس امتحان میں خواہشمند امیدواروں کو تین اہم مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔
پہلا مرحلہ یعنی پریلِمز ہوتا ہے جس میں جنرل سٹیڈیز کے دو پرچے شامل ہوتے ہیں۔ ہر پیپر میں 2 نمبروں کے 100 معروضی سوالات ہوتے ہیں۔ ان میں سے 33 فیصد نمبرات لینے ضروری ہیں۔ یہ صرف پاس (Qualifying) نوعیت کا ہے۔
اس کے بعد دوسرا مرحلہ یعنی مینز ہوتا ہے۔ جس میں کل 8 پیپر ہوتے ہیں۔ ان میں سے انگریزی زبان کا ایک پیپر 300 نمبروں کا صرف پاس کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ اس پیپر کے حاصل شدہ نمبرات مینز کے دیگر پیپروں میں گنے نہیں جاتے۔ اس میں سے 25 فیصد نمبرات حاصل کرنے ضروری ہیں۔ نہیں تو مینز کے دیگر پیپر کو پاس نہیں مانا جائے گا۔ اور باقی سبھی پیپر 250 نمبرات کے ہوتے ہیں۔ جن میں سے 4 جنرل سٹیدیز اور 2 آپشنل (Optional) مضامین کے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک پیپر انگریزی زبان میں مضمون نویسی (Essay) کا ہوتا ہے۔ کل ملا کر مینز کے 7 پرچوں میں 1750 نمبرات ہوتے ہیں۔
اس کے بعد تیسرا مرحلہ یعنی 250 نمبرات کا انٹرویو یا شخصیتی جانچ ہوتا ہے جس میں اکثر امیدوار کو اپنی ابتدائی پڑھائی، جغرافیہ، آئین، پولیٹیکل سائنس، شوق اور انتظامیہ کی طرف آنے کے رجحان کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔ اس طرح سے کل ملا کر یہ امتحان 2000 نمبرات کا بنتا ہے۔
مشابہتی انٹرویو اور امیدواروں کی ذہانت: یقین مانئے کہ سیول سروسز امتحان کے خواہشمند امیدوار ہم سے قابل نہیں ہوتے ہیں بلکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ بھی ہماری طرح کے طلباء ہوتے ہیں اور ہماری معیار کی ہی ذہنی صلاحیت رکھتے ہیں۔
حال ہی میں ایک یہاں کے مشہور و معروف کوچنگ ادارے نے اپنے ان امیدواروں کا فرضی یا مشابہتی انٹرویو (Mock Interview) سوشل میڈیا پر اپلوڈ کیا ہے، جنہوں نے اس ادارے سے کوچنگ لینے کے بعد JKAS-2022 کے مسابقتی امتحان میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اگر آپ ان کے اس Interview Mock کو بڑی گہرائی اور سنجیدگی کے ساتھ سماعت فرمائیں گے تو ان میں سے اکثر امیدوار چھوٹے چھوٹے لیکن بنیادی سوالات کا جواب نہیں دے پاتے ہیں۔
مثلاً جنوبی کشمیر کے اضلاع کتنے ہیں، صوبہ کشمیر کے اضلاع کے نام، چناب ویلی کے اضلاع کون سے ہیں، پیر پنجال اضلاع کے نام، مدثر اور مزمل کا معنی، نیشنل زعفران مشن، بین الاقوامی زعفران ریسرچ مرکز، ڈورنڈ لائن ( Line Durand)، سی پیک (CPEC)، شاہراہِ قراقرم( Highway Karakoram) کانسٹیبل اور ہیڈ کانسٹیبل کی Heriarchy، آر ٹی آئی اور اس کے پہلی اپلیٹ اتھارٹی (PIO)، اپنے آبائی گاؤں کے نام کی وجہ تسمیہ، جموں و کشمیر ہائی کورٹ کا پورا نام، چیف جسٹس کا نام، ججوں کی تعداد، وکلاء میں سے ہائی کورٹ جج منتخب کرنے کا طریقہ، دفعہ 370، جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ 2019 کب بنا اور کب سے لاگو ہوا، اس ایکٹ کے تحت کون سے نئے قانون بارث وجود میں آئے اور کون سے تبدیل ہوگئے اور جی 20 میں انڈیا کی پریذیڈنسی سے پہلے کس ملک کو پریذیڈنسی حاصل تھی جیسے سوالات پوچھے گئے تھے۔
یہ وہ چند سوالات ہیں جن میں منتخب شدہ امیدوار Interview Mock کے دوران جواب دینے سے قاصر رہے ہیں اور انہیں Experts کی طرف سے یہی صلح دی گئی کہ وہ اپنی لوکل جغرافیہ پر زیادہ سے زیادہ زور دیں اور اس کے علاوہ ان کمزوریوں کو اپنے انٹرویو سے پہلے دور کیا کریں۔
اس طرح کے سوالات سے آپ کو بخوبی معلوم ہوا ہوگا کہ کے اے ایس امتحان میں انٹرویو تک جانے والے امیدوار ہم سے زیادہ جانکاری نہیں رکھتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ انہوں کئی ماہ مسلسل چھ سے دس گھنٹے کی پڑھائی کی ہوتی ہے اور اس امتحان کی ڈیمانڈ کے مطابق اپنے آپ کو تیار کر کے رکھا ہوتا ہے۔ ان کے اندر جوش و جذبہ، لگن و دلچسپی، ولولہ اور ایک قسم کا جنون ہوتا ہے۔ تب ہی وہ اس طرح کے تین مراحل والے سخت ترین امتحان میں سے پاس ہو کر گزرتے ہیں۔
کامیاب امیدواروں کے نمبرات: اس سال انمول راٹھور نے کل ملا کر 2000 نمبرات میں سے 1084.50 نمبرات حاصل کر کے ٹاپ کیا تھا جو 54.22 فیصدی ہے۔ جبکہ جنرل زمرے میں آخری امیدوار گوہر شمیم میر نے 994.50 نمبرات یعنی 49.72 فیصدی حاصل کئے ہیں۔ اسی طرح سیول سروسز امتحان 2021ء میں میگا گپتا نے 1177.50 نمبرات (58.87فیصد) لے کر ٹاپ کیا تھا۔
بعض اوقات کئی اْمیدواروں کو امتحان کے دوران جوابات لکھنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی ہے جب کہ انٹرویو کے دوران وہ بِلا خوف و خطر جواب نہیں دے پاتے ہیںاور عین وقت پر معلومات ہوتے ہوئے بھی اسے بھول جاتے ہیں۔ اس طرح سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ محنت اور لگن کے باوجود بھی خواہشمند امیدوار اس امتحان میں پوچھے گئے سبھی سوالات کے جوابات نہیں لکھ پاتے ہیں بلکہ صرف 50 سے 70 فیصد سوالات کے ہی جواب دیں پاتے ہیں۔
گریجویٹ طلباء اور ان کی عدمِ دلچسپی: جموں و کشمیر میں تقریباً 142 ڈگری کالج موجود ہیں جہاں سے ہر سال تقریباً تیس سے چالیس ہزار کے درمیان طلبا ء و طالبات اپنی گریجویشن مکمل کر کے نکلتے ہیں۔ لیکن اکثر طلبہ سیول سروسز امتحان کی طرف توجہ نہیں دیں دیتے ہیں۔ ایک مشہور قول ہے کہ آپ کھوئی ہوئی دولت کو دوبارہ پا سکتے ہیں، لیکن آپ کھویا ہوا وقت واپس نہیں لے سکتے۔ لہٰذا اس تعداد کے مطابق جموں و کشمیر پبلک سروس کمیشن کو سیول سروسز امتحان کی نوٹیفکیشن جاری کرنے پر کم سے کم 150000 درخواستیں موصول ہونی چاہئے تھیں۔ اس کے برعکس اس کی طرف توجہ بہت ہی کم دیتے ہیں اور قومی سیول سروسز امتحان جیسے IAS اور IPS کے لئے یہ تناسب ہمارے یہاں نہ کے برابر ہے۔
یہ امتحان یقینا صبر آزما اور محنت طلب ضرور ہے لیکن امیدواروں کو کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے اور مثبت ارادے سے ہمیشہ آگے بڑھنا چاہئے۔ یہ امتحان صاف و شفاف طریقے سے انجام دیا جاتا ہے لیکن پھر بھی اس میں امیدواروں کی ایک بڑی تعداد شریک ہونے سے گھبراتے ہیں۔ اور بدقسمتی سے یہ تعداد ہر سال قلیل ہی ہوتا رہتا ہے۔
بے روزگاری اور دیگر زمروں کا خاکہ:سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی (CMIE) جیسی نجی تنظیم کا اندازہ ہے کہ ہندوستان میں اس وقت بے روزگاری کی شرح تقریباً 7.95فیصد ہے۔ جس میں سے 7.93 فیصد شہروں میں ہے جبکہ دیہی علاقوں میں یہ تناسب صرف 7.44 فیصد ہے۔ اسی طرح ریاست ہریانہ کے اندر 26.8 فیصد بے روزگاری جو سب سے زیادہ شرح کے ساتھ اس میں سرفہرست ہے۔ اس کے بعد راجستھان 26.4 فیصد کے ساتھ اور جموں و کشمیر 23.1 فیصد کے ساتھ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔
جموں و کشمیر کمیشن برائے عوامی خدمات ( PSC J&K) کی گزشتہ نوٹیفکیشن جو 19 اپریل 2022ء کو مشتہر کی گئی تھی ،کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے تحت تقریباً 34121 امیدواروں نے درخواستیں دی تھیں جن میں سے صرف 23571 امیدوار پریلِمز (Prelims) میں شامل ہوئے تھے۔ پہلے ہی مرحلے پر اس حساس ترین امتحان کے لئے 10550 کا غیر حاضر رہنا بذات خود ایک اہم سوال ہے جس کے پیچھے ڈر کے سوا کوئی اور دوسری مجبوری نہیں ہو سکتی ہے۔
کمیشن کے طے کردہ معیار کے مطابق 4944 امیدواروں کو دوسرے مرحلے یعنی مینز (Mains) کیلئے کامیاب قرار دیا گیا تھا۔ ان میں سے صرف 3891 امیدوار تمام پرچوں میں حاضر ہوئے تھے اور 1053 امیدوار اس اہم اور بڑے مرحلے کے اندر تمام پرچوں میں حاضر ہونے سے قاصر رہے ہیںاور بعد میں سے 220 پوسٹس کے لئے صرف 787 امیدواروں کو فائنل ٹسٹ یعنی انٹرویو یا شخصیتی جانچ کے اہل قرار دیا گیا تھا۔
اسی طرح کمیشن کی 26 فروری 2021ء کی نوٹیفکیشن کے تحت صرف 20790 امیدوار پریلِمز (Prelims) میں شامل ہوئے تھے جن میں سے کمیشن کے طے کردہ معیار کے مطابق 4462 امیدواروں کو مینز (Mains) کیلئے کامیاب قرار دیا گیا تھا۔ ان میں سے صرف 3916 امیدوار تمام پرچوں میں حاضر ہوئے تھے اور بعد میں سے صرف 648 امیدواروں کو انٹرویو یا شخصیتی ٹیسٹ کیلئے اہل قرار دیا گیا تھا۔
حالانکہ سنہ 2022ء میں ہی جموں و کشمیر سروسز سلیکشن بورڈنے اکاؤنٹس اسٹنٹ کی 972 اسامیاں مشتہر کر دی تھی جس کے تحت تقریباً 1.36 لاکھ امیدواروں نے نہ صرف درخواستیں دی تھیں بلکہ باضابطہ طور پر اس کے لئے امتحان میں شرکت بھی کر گئے تھے۔ گزشتہ سال مارچ میں تقریباً 97793 امیدواروں نے جموں و کشمیر پولیس میں سب انسپکٹر امتحان میں شرکت کیں تھی جس کے لئے 113861 امیدواروں نے درخواستیں دی تھیں۔ اسی طرح سنہ 2020ء میں J&KSSB کے ذریعہ مشتہر کردہ مختلف زمروں کی 2814 اسامیوں کے لیے تقریباً 2.23 لاکھ سے زیادہ امیدواروں نے درخواستیں دی تھیں۔
لہٰذا طلبہ کو چاہئے کہ جموں و کشمیر یو ٹی سطح کے اس بڑے مسابقتی امتحان میں شرکت کرنے کے لئے اپنے آپ کو قبل از وقت تیار کریں اور اس امتحان سے متعلق تمام جانکاری حاصل کر کے محفوظ رکھیں۔ اپنے اندر اس امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کا شوق و زوق، محنت، لگن، دلچسپی، جوش و جذبہ اور جنون پیدا کریں۔ کامیاب امیدواروں سے صلح و مشورہ لیتے رہیں تو کامیابی آپ کے قدم ضرور چومے گی۔ سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ اس طرح کے امتحان میں بیٹھنے سے دیگر سبھی نان گزیٹیڈ زمروں کے لئے امتحانات کو بہ آسانی پاس کیا جا سکتا ہے۔ جس کسی بھی امیدوار نے اپنے اندر صلاحیت، ذہانت اور محنت کرنے کا جذبہ پیدا کیا، وہ بہ آسانی اپنے منزل مقصود کو پانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
رابطہ ۔ہاری پاری گام ترال کشمیر
فون۔ 9858109109
برقی پتہ۔ [email protected]
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاًاپنی ہیں اور انہیںکسی بھی طورکشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)