سینٹرل جیل میں متوازی انتظامی ڈھانچہ اور مجلس شوریٰ

سرینگر//ریاستی پولیس کے سی آئی ڈی شعبے نے گزشتہ برس مرتب کی گئی ایک خفیہ رپورٹ میں اس بات کا سنسنی خیزانکشاف کیا ہے کہ سینٹرل جیل سرینگر جنگجوئوں کی بھرتی کا سب سے بڑا مرکز بن گیا ہے جہاں قیدیوں نے’’متوازی انتظامی ڈھانچہ‘‘ اور ’’امیرزندان‘‘ کی قیادت میں ایک’’خود ساختہ مجلس شوریٰ‘‘ بھی تشکیل دے رکھی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر نئے جنگجو کو تبھی بھرتی کیا جاتا ہے جب جیل کے اندر سے اس کی منظوری دی جاتی ہے۔ رواں ماہ کی6تاریخ کو لشکر طیبہ سے وابستہ ایک پاکستانی جنگجو ابو حنظلہ اُس وقت فرار ہوگیا جب اسے طبی معائینہ کیلئے سرینگر کی سینٹرل جیل سے صدر اسپتال منتقل کیا گیا۔ سینٹرل جیل کے اندر قیدیوں کی سرگرمیوں کے بارے میں سال 2017 میں مرتب کی گئی ایک خفیہ رپورٹ افشاء ہوئی ہے۔یہ رپورٹ ریاستی پولیس کے کرمنل انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ یعنی سی آئی ڈی کے انسپکٹر جنرل اے جی میر کی سربراہی اور نگرانی میں تیار کی گئی تھی ۔رپورٹ میں با اعتبار ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ سینٹرل جیل سرینگرنہ صرف نئے جنگجوئوں کی بھرتی کاسب سے بڑا مرکز بن چکا ہے بلکہ یہاں نظر بندوں نے ایک ’’متوازی انتظامی ڈھانچہ‘‘ بھی تشکیل دیا ہے جسے مقامی پولیس نے جیل حکام کی کئی بار وارننگ کے باوجود مبینہ طور نظر انداز کردیا۔رپورٹ میں بتایا گیا’’فی الوقت سینٹرل جیل کا رول اس قدر اہم ہے کہ نئے جنگجو کو صرف اُسی وقت بھرتی کیا جاتا ہے ، جب جیل کے اندر سے اس کی منظوری دی جاتی ہے، البتہ کون اس طرح کی منظوری دیتا ہے، اس کا پتہ لگایا جارہا ہے‘‘۔رپورٹ میں انکشاف کرتے ہوئے کہا گیا کہ قیدیوں کی خود ساختہ مجلس شوریٰ چھ ماہ کیلئے اپنے سربراہ(امیر زندان) کا انتخاب عمل میں لاتی ہے‘‘۔ ریاستی پولیس کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ایس پی وید نے یہ خفیہ رپورٹ پرنسپل سیکریٹری ہوم راج کمار گوئل کو بھیجی تھی اور جیل کے اندر کڑی نگرانی پر زور دیا تھا۔سابق ڈائریکٹر جنرل جیل خانہ جات ایس کے مشرا، جنہیں ابو حنظلہ کے فرار ہونے کے بعد تبدیل کردیا گیا ، نے رپورٹ کے تفصیلی اور طویل جواب میں کہا تھا کہ وہ ایک طویل عرصے سے اس مسئلے کو اُجاگر کررہے تھے۔انہوں نے کہا کہ انہوں نے اُس وقت ریاستی محکمہ داخلہ کو سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس کشمیر زون منیر احمد خان اور ڈی آئی جی وسطی کشمیر کے ساتھ کی گئی اُس خط و کتابت کے بارے میں آگاہ کیا تھا جس کے ذریعے انہوں نے جیل کی باریک بینی سے تلاشی لینے کی استدعا کی تھی لیکن ایسا بقول ان کے نہیں کیا گیا۔ایس کے مشرا کے مطابق انہوں نے پرنسپل سیکریٹری ہوم کو بھیجے گئے جواب میں جیل کے اندر ناقص بنیادی ڈھانچے سے جڑے مسائل بھی اٹھائے تھے جس کی وجہ سے قیدیوں کو مناسب طریقے سے الگ الگ رکھنا ممکن نہیں ہوپاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے جیل میں نظر بند سخت گیر جنگجوئوں اور ان کے ہمدردوں کو بیرون وادی منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تھا ، تاہم مختلف عدالتوں کے احکامات کے باعث ایسا نہیں کیا جاسکا۔ایس کے مشرا نے جیل کے اندر حفاظتی انتظامات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا’’ایک وقت پر300کے قریب قیدیوں کی حفاظت کیلئے5سے20اہلکار تعینات رہتے ہیں اور اس طرح کی معمولی فورس سے قیدیوں کو آہنی ہاتھوں سے نظم و ضبط کا پابند بنانے کی امید نہیں کی جاسکتی ، سینٹرل جیل اور دیگر جیلوںکی سیکورٹی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے150اضافی اہلکاروں کی تعیناتی کی درخواست پر حکومت کی طرف سے کوئی غور نہیں کیا گیا ‘‘۔ ایس کے مشرا نے ریاستی محکمہ قانون کے رول کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا’’امتناعی احکامات کو کالعدم قرار دئے جانے ، قیدیوں کی منتقلی اور پیرول پر رہا ہونے کے بعد روپوش ملزمان کے سرینڈرسمیت محکمہ جیل خانہ جات کے معاملات کی پیروی کے حوالے سے ایڈوکیٹ جنرل اور ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل کوضروری ہدایات دی جانی چاہئے‘‘۔انہوںنے انکشاف کرتے ہوئے مزید کہا کہ سینٹرل جیل ڈائون ٹائون سرینگر کے وسط میں واقع ہے اور وہاں مقید ’’ہائی پروفائیل‘‘ جنگجوئوں کے علاقے کے مقامی لوگوں کے ساتھ روابط ہیں۔ان کا کہنا تھا’’یہ(جنگجو) بلواسطہ یا بلا واسطہ اسٹاف کو دھمکی دیتے ہیںلیکن یہ معاملہ سینئر جیل حکام کی نوٹس میں نہیں لایا گیا‘‘۔