اسلام نے ویسے تو ہمیشہ ہی اپنے بھائیوں،پڑوسیوں اور جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں وہاں کے لوگوں کے ساتھ بلاتفریق مذہب و ملت احسان اور اچھے برتاؤ،خیرخواہی و ہمدردی کا حکم دیاہے مگر بعض خاص موقعوں اور ناگہانی حالات میں ہماری یہ ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔قدرت کی جانب سے بعض دفعہ ہماری آزمائش کے لئے اور کبھی کبھی ہماری بداعمالیوں کی وجہ سے بھی مصیبت و آفت کا سامنا کرنا پڑتاہے ،ایسے حالات میں سب سے پہلے توہمیں اپنے روزمرہ کے اعمال اور اپنے کردار و اخلاق کا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم بطورمسلمان اپنے دین اور دینی احکام کی کس حد تک پیروی کررہے ہیں اورہم سے کہاں کہاں چوک ہورہی ہے،مگر اس کے ساتھ بطورانسان ہماری ذمہ داری یہ بھی ہے کہ ایسے ناگہانی آفتوں کے موقعوں پرایک دوسرے کے لئے خیر، بھلائی و ہمدردی کاہاتھ بڑھائیں اورایک دوسرے کے د کھ دردکو بانٹنے کی کوشش کریں۔اللہ کے نبیﷺنے ایک مصیبت زدہ انسان کی مددکرنے اور اس کے تئیں ہمدردی و خیر خواہی کا اظہار کرنے پر بڑی فضیلتیں بیان فرمائی ہیں،ہمارے تومذہب میں ہی انسانیت نوازی اور باہمی خیر خواہی کا عنصرابتداسے شامل ہے، لہذا ہمیں اس روح کو اپنے اندر محسوس کرنا چاہئے اور جب ایسا موقع ہوتو اپنی طرف سے ہر ممکن تعاون پیش کرنا چاہئے۔حضور اکرم ﷺکی ایک حدیث ہے،جس میں آپؐ فرماتے ہیں’’جس نے کسی مسلمان کے دنیوی دکھ تکلیف کو دورکردیا تواللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن کی تکلیف کو دورفرمادیں گے،جس نے کسی تنگ دست کو آسانی فراہم کی،تواللہ تعالیٰ اسے دنیا و آخرت میں آسانیاں فراہم کریں گے،جس نے کسی مسلمان کی ستر پوشی کی تواللہ تعالیٰ اس شخص کی دنیا و آخرت میں ستر پوشی کریں گے اوراللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی اعانت میں لگارہتاہے جب تک کہ وہ اپنے بھائی کی مددمیں مصروف رہے‘‘۔ (سنن ابوداؤد)اس قسم کی بے شمار حدیثیں ہیں جن میں آپؐ نے مسلمانوں کوہدایت فرمائی ہے کہ مصیبت زدہ افراد کی مدد کرو،جن کے پاس کھانے پینے کی چیزیں نہیں ہیں،انہیں کھانا کھلاؤ،جن کے پاس پہننے کے کپڑے نہیں ہیں انہیں کپڑا پہناؤ اورجو ضرورت مندہیں ان کی ضرورت پوری کرو۔یہ ہدایتیں اور فرمانِ نبویﷺعام حالات میں توہمیں محتاجوں اور ضرورت مندوں کی امداد و اعانت کی تلقین کرتے ہی ہیں،لیکن اگر کوئی ناگہانی آفت آجائے اور اس کی لپیٹ میں بڑی تعداد میں لوگ آجائیں تب اس کی اہمیت اوربھی زیادہ بڑھ جاتی ہے اوراس مناسبت سے ہماری ذمہ داریاں بھی دوچند ہوجاتی ہیں۔
اس وقت ملک کے ایک بڑے حصے میں مسلسل بارش اور سیلاب کی وجہ سے قیامت کی کیفیت برپاہے،پہلے گجرات کے مختلف علاقوں میں سیلاب نے تباہی مچائی اور اب بہار،یوپی،آسام اور مغربی بنگال میں سخت بارش اور سیلاب کی وجہ سے لاکھوں لوگ عجیب کشمکش سے دوچارہیں۔صورتِ حال اتنی سنگین ہے کہ دیکھ کرانسان کاکلیجہ منہ کوآجائے،نیپال میں موسلادھاربارش کی وجہ سے وہاں سے جوپانی چھوڑاگیاہے،اس کی بناء پر ہندوستان کی متعددندیاں خطرے کے نشان کے اوپر بہہ رہی ہیں۔ملک کی بہت بڑی آبادی سیلاب کی زد میں ہے،بہار میں اب تک 56 سے زیادہ لوگوں کی موت ہو گئی ہے،جبکہ گجرات میں 200 سے زیادہ لوگ اور آسام میں 100 سے زیادہ لوگوں کی جانیں گئی ہیںاورمرنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے،یوپی کے گونڈہ، بارہ بنکی اورگورکھپوراضلاع میں بہت سی ندیوںکی آبی سطح بڑھنے کی وجہ سے حالات لگاتارسنگین ہورہے ہیں۔بہار میں ارریہ،چمپارن،کشن گنج، کٹیہار اور بھاگلپور سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہیں،بہار کے کل 13 اضلاع کے 70 لاکھ لوگ سیلاب کی زد میں ہیں،جبکہ یوپی کے 15 اضلاع سیلاب سے متاثر ہیں،لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں ،اس وقت ان کے پاس رہنے اور سونے کے لئے جگہ تک میسر نہیں ہے،بہار کی طرف سے جانے اور آنے والی بہت سی ٹرینیں منسوخ کر دی گئی ہے،ریلوے کانظام بری طرح متاثر ہوا ہے،ان علاقوں میںموبائل سروس تک مکمل طور پر ٹھپ ہے۔سیمانچل کا علاقہ سب سے زیادہ خطرناک صورت حال سے دوچارہے،اس خطے کے تمام اضلاع میں سیلاب کی تباہی نے لوگوں کی زندگیاں دوبھرکردی ہیں۔حکومت کی طرف سے امداد اور ریلیف کاکام نہایت سست رفتاری کے ساتھ کیاجارہاہے،بہت سے گاؤں توایسے ہیں جہاں اب تک حکومت کی جانب سے کوئی امداد نہیں پہنچائی گئی ہے،لوگ دانہ دانہ کومحتاج ہیں۔ہمارے لئے یہ صورت حال تکلیف دہ بھی ہے اورموقعِ عبرت بھی کہ کتنے ہی کھاتے پیتے اور خوشحال لوگ کیسے آنافانا بالکل لاچاراور بے بس ہوگئے اور وہ جوکل تک دوسروں کی ضرورتیں پوری کیاکرتے تھے،آج خود دوسروں کی امداد کے محتاج ہیں۔
اس طرح کے عظیم قومی حادثے اور ہمہ گیرآفت کے موقع پر ہماری ذمہ داری سب سے زیادہ ہے کہ ہم اپنے انسانی،مذہبی و اخلاقی فریضہ کو محسوس کریں اور ان لوگوں کی اعانت کی ہر ممکن کوشش کریں جوآج سخت مصیبت میں پھنسے ہوئے ہیں۔ملک بھرکے مختلف شہروں اور علاقوں میں رہنے والے وہ لوگ جنہیں اللہ نے اس تباہ کن مصیبت سے محفوظ رکھاہے انہیں اپنے ان بھائیوں کادرد محسوس کرنا چاہئے جواس وقت سیلاب کی ہولناکی کاشکارہیں اور ان کے لئے جس قدربھی اور جہاں تک ممکن ہو اپنی ہمدردی و اعانت کا ہاتھ بڑھانا چاہئے۔یہ بھی اللہ کا نظام ہے کہ وہ ایک وقت میں کچھ لوگوں کوکسی مصیبت کے ذریعہ آزمائش میں مبتلاکرتاہے جبکہ کچھ لوگوں کواس سے محفوظ رکھتاہے،یہ دراصل صرف انہی لوگوں کے لئے مقامِ آزمائش نہیں ہوتاجواس مصیبت میں پھنسے ہوئے ہیں،بلکہ یہ ان لوگوں کے لئے بھی آزمائش ہوتی ہے جواس سے محفوظ ہیں اور ان پر کوئی ناگہانی آفت نازل نہیں ہوئی ہے۔قرآن کریم میںپچھلی امتوں پر نازل ہونے والی مصیبتوں اورنافرمانوںپربھیجے جانے والے عذاب کا ذکرکرکے اللہ تعالیٰ نے ہمیں باربارتلقین کی ہے کہ تم ان واقعات سے عبرت حاصل کرواور اپنے اعمال کودرست کرو۔ہمارے نبیﷺ نے مصائب میں مبتلاہونے والے انسانوںسے عبرت حاصل کرنے اور اپنی حفاظت کی دعاء کرنے کے ساتھ ساتھ یہ ہدایت بھی دی کہ اگر کہیں کوئی مسلمان بلکہ کوئی بھی انسان کسی مصیبت میں مبتلاہے تواس کی فوری مددکوپہنچواور تم سے جہاں تک ہوسکے اس کی اعانت کرو،اس کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کرواوراس کی ضروریات کوپوراکرنے کی کوشش کرو۔بہت سے لوگ ہیںجواس وقت سیلاب میں پھنسے ہوئے لاکھوں لوگوں تک خودپہنچ کران کے لئے راحت رسانی کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں،ملکی سطح پر بہت سے رفاہی ادارے ہیں جنہیں جلد از جلد اس عظیم انسانی حادثے میں مبتلا انسانوں کی مددکے لئے آگے آنا چاہئے۔اور اس سب سے پہلے صوبائی و مرکزی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے لئے مثبت اور مؤثراقدامات اٹھائے،اس وقت کی جو زمینی حقیقت ہے وہ یہ ہے کہ سیمانچل کے بیشتر سیلاب زدہ گاؤں میں جہاں جہاں میں پہنچاہوںوہاں حکومت کی طرف سے یاتواب تک کسی قسم کی امداد بھیجی ہی نہیں گئی ہے یابھیجی گئی ہے تووہ بالکل ناکافی ہے،ذاتی طورپرمیں نے بہارکے وزیر اعلیٰ نتیش کمارسمیت وزیر اعظم نریندر مودی خطوط لکھ کراور ان سے رابطہ کرکے اس اندوہناک صورت حال سے واقف کرایا ہے، اس کے علاوہ خودوزیر اعلیٰ فضائی جائزہ لے چکے ہیں،تاہم سیلاب زدہ بستیوںمیں پھنسے ہوئے لوگوں کو محفوظ مقامات تک منتقل کرنے،ان کے لئے کھانے پینے کی چیزوں کا بندوبست کرنے اور لوگوں کی جانیں بچانے کے لئے جس پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے وہ اب تک نہیں کیاگیاہے۔خطرہ ہے کہ اگر صورت حال یہی رہی تواوربھی نہ جانے کتنے لوگ اس تباہ کن سیلاب کی زدمیں آکراپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھیں گے۔اس موقع پرہمارافریضہ ہے کہ انفرادی و اجتماعی سطح پر ہم سے جہاں تک ہوسکے اس قدرتی آفت میں پھنسے ہوئے لوگوںکے لئے مدد،ریلیف اور راحت رسانی کا انتظام کریں،اصحاب استطاعت لوگوں کواس طرف توجہ دلائیںاوررب تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کی عافیت و سلامتی کے لئے دعائیں کریں۔فی الوقت راقم الحروف اپنے طورپرمتاثرہ علاقوں کا جائزہ لے کر آل انڈیاتعلیمی وملی فاؤنڈیشن کی ٹیم کے ساتھ سیلاب زدہ لوگوں کی امدادوراحت رسانی میں مصروف ہے،اہل خیر حضرات فاؤنڈیشن کے ذریعہ متاثرین تک اپنی امدادپہنچاسکتے ہیں۔مستحقین تک اپنی امدادی رقوم براہ راست فاؤنڈیشن کے اکاؤنٹ پربھی بھیج سکتے ہیں،اکاؤنٹ کی تفصیلات درج ذیل ہیں:01760020000721 IFSC Code:KKBK0000176,Kotak Mahindra Bank,Br:NFC,New Delhi ۔ فاؤنڈیشن کو محکمۂ انکم ٹیکس کی جانب سے 80-Gاور12-Aکی سرٹیفکٹ حاصل ہے ،جس کے تحت امداد کرنے والوں کوانکم ٹیکس میں50فیصدتک کی رعایت ملے گی۔چیک یاڈرافٹ کے ذریعہ بھی اپنی امداد پہنچاسکتے ہیں۔چیک یا ڈرافٹ پرAll India Talimi Wa Milli Foundation تحریر کرکے اس پتہ پر ارسال فرمائیں:آل انڈیاتعلیمی و ملی فاؤنڈیشن(رجسٹرڈ)پوسٹ بکس:9724،B-1مقابل گلی نمبر:18،ذاکر نگر،اوکھلا،نئی دہلی۔25