سابق صدر ہند ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کا مشہور قول ہے کہ ” The best brain of the nation may be found on the last bench of the classroom “۔ یعنی جن بچوں کو ہم غبی اور کمزور سمجھ کر نظر انداز کرتے ہیں اگر ان کی طرف توجہ دی جائے تو وہ مستقبل میں قوم کے لئے ذہین ثابت ہوسکتے ہیں ۔ یہ بات مشاہدے میں آچکی ہے کہ ہمارے سکولوں میں اکثر و بیشتر ان ہی بچوں کی طرف دھیان دیا جاتا ہے جو یا تو پیدائشی طور ذہین ہوتے ہیں یا جن بچوں کو گھر پر والدین کے ذریعے تعلیم و تربیت کی خاطر بھر پور توجہ دی جاتی ہے ۔اس کے برعکس اوسط درجہ کے بچے جن کا بیک گراونڈ پسماندہ ہوتا ہے انہیں نظر انداز کیاجاتا ہے ۔ حالانکہ ہر ایک انسان میں اللہ تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی خوبی اور صلاحیت و دیعت کر رکھی ہے ۔ اگر کوئی بچہ سائنسی مضمون میں کمزور دکھائی دیتا ہے تو ممکن ہے کہ وہ دوسرے مضمون میں بہتر ہو۔ کسی بچے کو ریاضی کے مضمون سے ڈرلگتا ہے لیکن وہ سپورٹس کے میدان میں دوسروں سے آگے ہو۔ اسی طرح کوئی بچہ تحریری صلاحیت میں کم تر ہوتا ہم وہ تقریری شعبے میں سر فہرست ہوسکتا ہے ۔ اسی طرح کسی بچے کو سوشل سائنس کے مضامین تاریخ ، شہریت ، اقتصادیات وغیرہ فضول اور خشک محسوس ہورہے ہوں مگر وہ بچہ سائنسی مزاج اور تنقیدی سوچ رکھتا ہوں ۔ ایسے ہی کئی ایسے بچے ہیں جنہیں کھیل کود سے زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی لیکن ان میں قائیدانہ اور انتظامی صلاحیت کمال کی ہوتی ہے ۔مختصراً ہر ایک میں کوئی نہ کوئی صلاحیت و فن موجود ہوتا ہے ۔ بقول علامہ اقبالؔ
نہیں ہے چیز نکّمی کوئی ز مانے میں کوئی بُرا نہیں قدرت کے کار خانے میں
اس مسلمہ حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر ہمارے سکول بچوں میں چھپی ہوئی صلاحیتوں کو نکھارنے کی طرف دھیان دیں تو اس کے خاطر خواہ اور مثبت نتائج بر آمد ہوسکتے ہیں ۔سکول کا اُستاد بچے کیلئے ایکEvaluatorاورFacilitatorکی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے چاہئے کہ بچے کے رجحان ، جھکاؤ، پسند اور دلچسپی پر گہری نظر رکھیں اور اسے وہی لائین اور اسی فیلڈ کی طرف لے جانے کی کوشش کریں جسکی طرف بچہ جانا چاہتا ہو ۔ اگر کشمیر میں بچے کے مستقبل اور کیرئر کی بات کی جائے تو یہاں پر میڈیکل شعبے کے بغیر کوئی دوسرا شعبہ دکھایا نہیں دیتا ۔ بچے کو ابتدائی کلا سوں سے ہی یہ منطق پڑھائی جاتی ہے کہ اسے NEETپاس کرکے ڈاکٹر بننا ہے اگرچہ اس کی دلچسپی کسی دوسرے شعبے کی طرف ہو۔ حالانکہ موجودہ دور میں بہت ایسے شعبہ جات اور فیلڈس ہیں جن میں بچے اپنا من پسند کیرئر بناسکتے ہیں ۔ اس صورت حال کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر اسکول کلب( School Club)کا تصور عملی صورت میں رائج کیا جائے تاکہ کافی حد تک بچوں کو اپنے من پسند چیزیں سیکھنے کا موقعہ مل سکے ۔ کلب بچوں پر مشتمل ایک گروپ یا ہاوس ہوتا ہے جس میں شامل سبھی بچے ایک ہی قسم کے مضمون کو پسند کرتے ہیں۔کلب میں شامل بچوں کو کلب کا ممبر کہا جاتاہے اور کلب کی کاروائیوں اور سرگرمیوں کو منظم انداز میں چلانے کیلئے چند بچوں کو ذمہ داری سونپی جاتی ہے ۔ تاہم کلب کا سربراہ متعلقہ سبجیکٹ ٹیچر ہی ہوسکتا ہے ، جس کی نگرانی میں کلب کے ممبران ہر ایک کام انجام دیتے ہیں ۔ سیکنڈری سطح تک تعلیمی اداروں میں جو مختلف کلبس(Clubs)تشکیل دیئے جاسکتے ہیں وہ اس طرح کے ہوسکتے ہیں
۱۔ سائنس کلب( Science Club) :سائنس کا مضمون آج کل ابتدائی کلاسوں سے ہی شروع ہوتا ہے ۔ جن بچوں کو اس مضمون سے دلچسپی ہو اور جن میں سائنسی سوچ اور رویہ پایا جاتا ہو دہ بچے اس کلب کے ممبر بن سکتے ہیں ۔ سائنسی کلب کے زیر سایہ وہ ایسی بہت ساری سائنسی سرگرمیاں انجام دے سکتے ہیں جو کلاس روم میں ممکن نہ ہوں ۔ جیسے سائنسی پروجیکٹس /ماڈلز پرگروپ کی شکل میں کام کرنا ۔ سکول میں اور سکولوںکے درمیان سائنسی کوئز منعقد کرنا ۔ اختراعی نوعیت کی چیزوں کو ڈیولپ کرنا ۔ سکول میں سائنسی نمائش اور سائنسی میلے کا اہتمام کرنا ۔ سائنسی لیباٹری کا بھر پوراستعمال کرنا ، بڑے تعلیمی ادروں میں Labsلیب کا مشاہدہ کرنا ، سائنسی میوزیم کی سیر کرنا ، اگر کلاس ٹیچر سے کسی Topicسے مطمئن نہیں ہوں تو اس صورت میں باہر سے کسی تجربہ کار ماہر سائنسی ٹیچر کو بلاکر اس کا لیکچر سننا ۔مختلف مواقع پر سیمنار اور کانفرنسوں کا اہتمام کرنا ۔ کلب میں بچے اپنی سطح پر گروپ مباحثے( Group Discusion)کرسکتے ہیں اور ایک دوسرے سے سیکھ سکتے ہیں ۔
۲۔ ریاضی کلب( Mathematics Club): اکثر بچے بالخصوص لڑکیاں ریاضی سے ڈر محسوس کرتے ہیں ۔ ریاضی کالمبا چوڑا نصاب دیکھ کر انہیں یہ مضمون خشک دکھا یا دیتا ہے ۔ اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے ریاضی کلب ایسی کاروائیاں اور سرگرمیاں انجام دے سکتا ہے ، جن سے ریاضی کی طرف بچوں کی دلچسپی میں اضافہ ۔ کلب میں وہ بچے گروپ کے ممبران سے وہ چیز یں سکھ سکتے ہیں اور ایک دوسرے سے بلا جھجک ظاہر کرتے ہیں جو وہ کلاس میں اپنے اساتذہ کے سامنے ظاہر نہیں کرسکتے ۔ ریاضی کو پُر مسرت بنانے کیلئے بہت ساری تدابیرکو استعمال کرسکتے ہیں ۔ جیسےMath Quiz،Math Quiz،Squares،Puzzales،Riddles،Number Games،Math Exibition،Majic Squares،Math Tables،Chartsوغیرہ ۔ ریاضی کوعملی زندگی میں استعمال کرنے کیلئے بچے ریاضی کے اصولوں کو عملا سکتے ہیں ۔ جیسے کسی چیز کا رقبہ (Area)معلوم کرنے کیلئے کلاس روم کا ایریا نکال سکتے ہیں ۔ اسکول گراونڈ کا Peremeter (احاطہ) معلوم کرسکتے ہیں ۔ اسی طرح جیومٹری کے مختلف اصولوں کو عملی زندگی میں لاگو کرسکتے ہیں ۔ریاضی میں کیرئر بنانے کیلئے کلب کے ممبران( Math Olympiods)اور دیگر مسابقتی امتحانات میں حصہ لے سکتے ہیں ۔
۳۔ سوشل سائنس کلب( Social Science Club) :سماجی سائنس میں تاریخ ، جغرافیہ ، شہریت ، پولٹیکل سائنس ، اقتصادیات وغیرہ کے مضامین بچے پڑھتے ہیں ۔ دسویں جماعت تک یہ مضامین لازمی ہوتے ہیں ۔ کلاس میں زیادہ وقت نہ ملنے کی وجہ سے بچے سوشل سائنس کے مضامین سے پوری طرح مطمئین نہیں ہوتے وہ اس صورت میں کلب کے ذریعے کسی ماہر ٹیچر کو بلا سکتے ہیں اور متعلقہ نقطے کے بارے میں گہرائی سے واقف ہوسکتے ہیں ۔ سوشل سائنس کلب تاریخ سے واقف ہونے کیلئے تواریخی مقامات اور عجائب گھروں کی سیر کرسکتے ہیں اور ساتھ ہی مقامی سطح پر دریافت شدہ پرانی چیزوں کے عجائب گھر قائم کرسکتے ہیں ۔ پولٹیکل سسٹم کو سمجھنے کیلئے جمہوری اداروں کا مشاہدہ کرسکتے ہیں ۔ صنعتی سیکٹر سے واقف ہونے کیلئے صنعتی مراکز میں قائم صنعتی ادروں اور یونٹوں کا مشاہدہ کرسکتے ہیں ۔ سماجی موضوع پرر ورکشاب اور سیمنارس کا انعقاد کیا جاسکتا ہے ۔
۴۔ ایکوکلب (Eco Club) :صنعتی انقلاب اور دیگر وجوہات کی وجہ سے ماحولیات بری طرح متاثر ہوچکا ہے ۔ مختلف قسم کی آلودگی سے انسانی صحت بگڑ چکی ہے ۔ کرہ ارضی پر بہت ساری مخلومات ناپید ہورہی ہیں ۔ موسمیاتی اورآب و ہوا کی تبدیلی اب عالمی سطح پر بڑا مسلہ بن چکا ہے ۔ ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے کیلئے سکولی سطح پر ’’ ایکوکلب ‘‘ اہم رول ادا کرسکتا ہے۔ کلب سے جڑے ہوئے بچے سوسائٹی میں اس حوالے سے آگاہی اور بیداری کی مہم منظم انداز میں چلاسکتے ہیں ۔ مختلف مواقع پر جیسے ماحولیاتی دن ، ارتھ ڈے وغیرہ پر سیمنارس ، ریلیاں منعقد کرسکتے ہیں ۔ماحولیاتی موضوع پر پینٹنگ اور ڈرائینگ کے مقابلوں کا انعقاد کیا جاسکتا ہے۔ سکول اور اسے باہر شجر کاری ، آبی ذخائر کا تحفظ ، آس پاس کی صفائی کی مہم میں بچے بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکتے ہیں جن کے اچھے اثرات سماج پرپڑتے ہیںSave our Planet ،Reduce , Reuse & Recycle،Go Green ،Save Electricity،Save Energyوغیرہ جیسے نعرے ایکو کلب کی پہچان ہیں ۔
۵۔ سپورٹس کلب( Sports Club): ناقص غذاماحولیاتی آلودگی اور مشینی دور نے انسانی صحت کو بگاڑ کر کے رکھ دیا ہے ۔ بچوں کی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے موجودہ دور میں کھیلوں کی اہمیت بالکل عیاں ہے ۔ اسپورٹس کلب کے ذریعے بچے اپنی خواہش کے مطابق کھیل کود میں حصہ لیتے ہیں ۔ اس کلب کے زیر اہتمام سکول میں اسپورٹس کا ڈھانچہ قائم ہوتا ہے۔ اور سکولی سطح پر بہت سارے مقابلوں کا اہتمام کیا جاسکتا ہے ۔ مقابلوں میں شرکاء کی کارکردگی کو تسلیم کرتے ہوئے انعامات ، اسناد اور ایوارڈس سے ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
۶۔ سوشل سروس کلب(Social Service Club): اس کلب کو ریڈکراس(Red Cross)کلب بھی کہا جاتا ہے۔اس کے ذریعے سماجی خدمات کا تصور بچوں میں پیدا کیا جاتاہے ۔ اُساتذہ کی نگرانی میں بچے اپنی جیب خرچی( Pocket Money)میں سے کچھ رقم نکال کر سوشل سروس کلب میں جمع کرتے ہیں ۔ اور بعد میں اس کے ذریعے حاجت مند اور ضرورت مند افراد کی مدد کی جاتی ہے۔اسی طرح آرٹ اینڈ ڈرائنگ کلب (Art & Drawing Club)کے ذریعے بچوں میں چھپے ہوئے آرٹ اور فن کو نکھارا جاسکتا ہے جبکہ لنگو یج کلب(Language Club)کے ذریعے بچے بہت ساری زبانیں سیکھ سکتے ہیں ۔
اگر سکول کلب منظم انداز میں قائم کئے جائیں تو یہ کثیر المقاصد پروجیکٹ ثابت ہوسکتے ہیں ۔ بچوں کو اپنے من پسند مضامین کی طرف بڑھنے کا موقعہ فراہم ہوتاہے ۔ ابتداء ہی سے بچے کو اپنے پسند کی چیز جب مہیا ہوتی ہے تو آگے چل کر اسے اپنا کیرئر بنانے میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔ وہ کلب میں ایک دوسرے کی رائے اور مشوروں سے آگا ہوتے ہیں ۔ ان میں سماجی بیداری پیدا ہوتی ہے ۔ آئے دن نئی چیزوں کو دیکھتے کا موقعہ ملتا ہے۔ ان کی مشاہداتی ، اختراعی اور تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے ۔ وہ اجتماعیت اتحاد و اتفاق کی طاقت سے آگاہ ہوتے ہیں ۔ ان میں خود اعتمادی کا جذبہ پروان چڑھتا ہے ۔ ( ایک اورتعلیمی سرگرمی آئندہ منگل کو انشاء اللہ )
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاًاپنی ہیں اور انہیںکسی بھی طورکشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)