عازم جان
بانڈی پورہ //سملراورکوٹاستھری بانڈی پورہ کے لوگوں نے ہلہ شری کرکے علاقہ سے گزرنے والے نالے پرفٹ برج تعمیر کیاجس سے علاقہ کی آبادی کوراحت نصیب ہوئی۔ سملر کے مکینوں نے بتایا کہ جب سرکار سے رجوع کرتے کرتے اور انتظار کرتے کرتے تھک گئے ، توباہمی مشاورت سے پیسے اکٹھے کرنے کے بعد پیدل چلنے والے پل کو تعمیر کیا۔ سملر کے ایک دیہاتی گلزار احمد خان نے کہاپل کو شکل اختیار کرتے ہوئے دیکھنے کیلئے بچے اِدھر اْدھر جمع ہوئے ،جب روایتی لباس پہنے گاؤں کے بزرگ فٹ برج کے مخالف سمتوں پر بیٹھے تھے۔دوسری طرف گاؤں میں ہمارے رشتہ دار ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق کوٹا ساتھری تقریباً 150 گھرانوں پر مشتمل ہے۔ سملر نسبتاً بڑا گاؤں ہے۔انہوں نے مزید کہا، کبھی کبھی ہم آخری رسومات کے لیے نہیں پہنچ پاتے تھے اگر گاؤں سے کوئی مر جاتا ہے۔ان خدشات کے علاوہ، دیہاتیوں کی دونوں طرف زرعی زمینیں ہیں، اور اسکول کے بچوں کو بھی لمبی دوری کا سفر کرنے پر مجبور تھے، یہاں تک کہ کچھ دیہاتیوں نے الزام لگایا کہ کچھ ’مفادات‘ کی وجہ سے پل کے لیے جان بوجھ کر فنڈز ضائع کیے گئے تھے۔پھر’عطیات کی مدد‘ سے پل کی تعمیر کا خیال اس وقت تیز ہوا جب چار گاؤں والوں نے ریٹائرڈ پولیس اہلکار، شمس الدین خان کی سربراہی میں نوجوانوں کی ایک انجمن بنائی۔ اس میں اب 150 افراد کی طاقت ہے۔فٹ برج کے ساتھ، گاؤں والوں کا ’دس سال کا انتظار‘ ختم ہو گیا۔ ایک اور دیہاتی محمد یوسف میلو نے کہا کہ جب گاؤں کے دوسری طرف سے خواتین فٹ برج کو عبور کر رہی تھیں، وہ خوف کھا رہی تھیں۔گاؤں والوں نے بتایا کہ لکڑی سے بنا اسی جگہ پر پہلے کا فٹ برج 2014 کے سیلاب میں بہہ گیا تھا ،جسے اب تک دوبارہ تعمیر نہیں کیا گیا۔ایک دیہاتی نے کہا،’’ہمارے بزرگ اور سربراہی کے حکام کچھ نامعلوم وجوہات کی وجہ سے کبھی اتفاق رائے پر نہیں پہنچ سکے۔‘‘ ایک دیہاتی نے کہا،’’ہمیں اپنے روزمرہ کے مسائل کو کم کرنے کے لیے ایک سادہ فٹ برج کی ضرورت تھی، لیکن انہوں نے اسے ایک بڑی بات کی طرح ظاہر کر دیا۔‘‘شمس الدین نے کہا کہ ایسوسی ایشن نے گاؤں والوں سے 200 سے 300 روپے اکٹھے کئے۔خان ترک نے کہا، ’’ٹرانسپورٹ سے لے کر مزدوری اور ویلڈنگ تک، اس پر ہمیں 70000 روپے کا خرچہ آیا ہے۔‘‘گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ یہ پل ہمیں جوڑے گا، جو ہمارے لیے اہم ہے۔ایک اور نوجوان رضوان خان نے مزید کہا کہ یہاں فٹ برج کا ہونا ضروری تھا کیونکہ یہ ایک مرکزی جگہ ہے۔ مزید برآں، دیہاتیوں نے کہا کہ انہیں کچھ راحت ملے گی کیونکہ ہمیں دونوں طرف سے زیادہ پیدل چلنا پڑرہا ہے۔