سید مصطفی احمد
میں ایک عام شہری ہونے کے ناطے یہ مضمون لکھ رہا ہوں۔ ایک متوسط گھرانے سے میرا تعلق ہے۔ بچپن سے یا تو خود مزدوری کرکے تعلیم حاصل کی ہے یا پھر ماں باپ کے پیسوں سے ہی گزارا کیا ہے۔ ماں باپ نے آج تک اس امید سے پڑھایا ہے کہ مستقبل میں ان کی زندگیوں میں کسی حد تک آسانی میسر ہو۔ اَن پڑھ ہونے کے ناطے، وہ بیچارے دنیا کی چالوں سے قدرے ناواقف ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ آج بھی محنت کرکے سرکاری نوکریاں ملتی ہیں۔ حیران ہونے کی اس میں کوئی بات نہیں ہے، وہ بھی بیشتر والدین کی طرح اپنی ہی دنیا میں مگن ہیں جہاں جھوٹ اور دھوکہ جیسے الفاظ کے لئے کوئی جگہ نہیں ہیں۔ کچھ دنوں پہلے محترم چیف سیکرٹری صاحب نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ماضی میں کشمیر میں لگ بھگ ڈھائی لاکھ غیر قانونی نوکریاں لوگوں کو فراہم کی گئی ہیں۔ یہ سن کر ان امیدواروں کی زندگیوں میں ایک بھونچال آگیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ حکومت کے ناک کے نیچے اتنے بڑے پیمانے پر دھاندلیاں ممکن ہوسکیں۔ کون تھے ،یا کون ہیں وہ لوگ، جنہوں نے حقداروں کا حق چھین کر غیر مستحق لوگوںمیں پیسے، زمین یا پھر کسی کو اورچیز کے عوض بیچ کھایا ہے۔ کہاں ہے وہ ضمیر فروش درندے جنہوں نے اس فانی دنیا کی محبت میں اندھا ہوکر آخرت کی رْسوائی کو سستے داموں خریدا ہے؟ میں تو بس اپنی بات کررہا ہوں۔ میں یہ بھی دیکھ رہا ہوںکہ جب سے یہ خبر دوسرے لوگوں تک پہنچی، تب سے اْن کا بھی پڑھائی سے بھروسہ اْٹھ گیا ہے،اور محنت کرنے سے کوفت ہورہی ہورہی ہے۔ ایسی محنت کا کیافائدہ ، جہاں آخرکار چوروں کی ہی جیت ہوتی ہوں۔ طویل عرصے کی پڑھائی کے بعد جب یہ بات سننے کو آئی کہ آج تک جتنی بھی بھرتیاں ہوئیں، وہ جعلسازی پر مبنی تھی، تو پھیروں تلے جیسے زمین کھسک گئی اور یہ سوال اْبھر کر سامنے آگیا ،کیا اب آنے والے کل میں ایسا ممکن نہیں ہوگا۔کہیں اس سے بہتر تو یہی نہیںہے یا تو انسان مرجائے یا پھر مزدور بننے کو ہی ترجیح دے۔ اگر ایسی بات ہے، تو پھر ایسے کونسے وجوہات ہیں جو اس قسم کی دھاندلیوں کو پروان چڑھنے دیتے ہیں۔ وجوہات تو بہت سارے ہیں مگر کچھ کا ذکر آنے والی سطروں میں کیا جارہا ہے۔
پہلا ہے مادیت۔ ہم نے جو چشمہ آنکھوں پر چڑھایا ہے وہ ہمیں مادیت سے اوپر اٹھنے ہی نہیں دیتا ہے۔ ہمیں محض یہی بات دامن گیر ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ دنیاوی چیزوں کو جمع کریں۔ گاڑیاں، زمینیں، اونچے مکان، لذیذ کھانے، شاندار ملبوسات، وغیرہ کے لئے ہم حلال اور حرام کو یکسر بھول جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ حلا ل اور جائز طریقوں سے محنت و مشقت سیان ساری سہولیات کا میسر ہونا لگ بھگ محال ہے۔ اسی طرح محنت کرکے سرکاری نوکریاں ملناتو بھی واضح نہیں ہے۔ اس لئے جعلسازی سے کام لیا جاتا ہے اور دوسروں کا گلا کاٹ کر اپنا مستقبل خوبصورت سے خوبصورت تر بنایا جاتا ہے۔
دوسرا ہ ہے غیر یقینی صورت حال۔ کشمیر میں لگ بھگ تیس پنتیس سال سے افراتفری کا جو ماحول چلا آرہا ہے، اْس نے کشمیر میں دھاندلیوں اور بد عنوانیوں کی راہیں برے پیمانے پر ہموار کردیں۔ لوگوں کی مجبوریوں اور معصومیت کا ناجائز فائدہ اٹھا کر ایسے ایسے کالے کارنامے انجام دیئے گئے کہ انسان لرز جاتا ہے۔طاقت کا سہارا لے کر اَن پڑھ جاہلوںکو ایسے ایسے مناصب پر بٹھایا گیا کہ انسان دھنگ رہ جاتا ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستہ ہونے اور اْس سیاسی جماعت کے لئے کچھ کر گذرنے کا مطلب،پیسے کی بھرمار اور پکی نوکری مل جانا رہا۔اور جس نے سیاست سے دور رہنے کی جتنی کوشش کئی، وہ اتنا ہی خسارے میں چلا گیا۔ بیشتر لوگوں نے سیاست میں آکر نہ صرف خود کا بھَلاکیابلکہ ہر جائز و ناجائز طریقے سے اپنی اولاد اور رشتہ داروں کابھی دنیاوی لحاظ سے خوب سنوارا،جو آج عیش و عشرت کی زندگی گذار رہے ہیں۔
تیسرا ہے کچھ مخصوص خاندانوں کا اثر و رسوخ۔ کشمیر میں کچھ خاندانوں کا ایسا طوطی بولتا ہے کہ ان کی بات اعلیٰ حکمران تک پہنچنے میں دیر نہیں لگتی۔ وہ چاہے تو اپنے گھروں سے ہی کسی کا بھی مستقبل سنوار دے۔ اپنی پہنچ سے کسی بھی اَن پڑھ کا آنے والا کل روشنیوں سے جگمگا سکتے ہیں۔ چوتھا ہے ہمارا اپنا رویہ۔ ہم خود ہی قاتل، مقتول اور منصفی ہیں۔ ہم نے ہر وقت جھوٹ کا ساتھ دیا ہے اور جب سچ کی باری آتی ہے، تو ہم اس سے آنکھ چراتے ہیں یا پھر ہاتھ اْٹھا کر سرنڈر کرتے ہیں۔ اپنے مال اور اولاد کی فکر نے ہمیں کھبی بھی سچ کے ساتھ چلنے نہیں دیا۔ہر سطح پر اور ہر معاملے میں تو ہماری حیثیت جھاگ کی بھی نہ رہی۔ ہم ہی رشوت لیتے اور دیتے ہیں۔ ہم نے ہی ہنستے مسکراتے چہروں کو دکھوں کے حوالے کر دیا۔ ہم نے دھاندلیاں کر کے سرکاری نوکریوں کو بازار میں تقسیم کر دیا۔ ہم نے ہی منافرت کے تحت بہتوں کے گھر توڑ کر اپنے گھروں کو آہنی دیواروں سے محفوظ کر لیا۔
وقت کی اہم ضرورت ہے کہ مستقبل میں ایسی دھاندلیاں پھر سے نہ ہو۔ اگر حکومت کے پاس سارا ڈیٹا موجود ہے تو وہ اْن افراد کو نوکریوں سے نکال سکتی ہے جنہوں نے غیر قانونی طریقوں سے یہ سب حاصل کی ہیں۔ مگر ایسا ہونے والا نہیں،کیونکہ اس میں بہت ساری بڑی مچھلیوں کا ہاتھ بھی تو ہے۔ وہ اس کام میں خلل ڈالنے سے دور نہیں رہیں گے۔ وہ ہر طاقت کا استعمال کرکے اس کو جانچ کے سخت مراحل سے روکنے کی بھرپور کوششیں کریں گے۔ میں ایک طالب علم ہونے کے ناطے حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ مستقبل میں اس قسم کی جعلسازی نہ ہو۔ جس کے لئے حکومتی اعلیٰ افسران کو ایسا نظام ترتیب دیا جانا چاہئے جس میں دھاندلیوں کا نام بھی نہ ہو۔ مزید برآں روزگار کے اور مواقع تلاش کرنے میں زیادہ سے زیادہ وسائل کا استعمال کیا جائے۔ سیاست کا مقصد ہی جوانوں اور سماج کی ترقی ہونا چاہیے۔ جو بھی غیرقانونی طریقے سے سرکاری نوکری حاصل کرتے ہوئے پکڑا جائے، اس کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔ کسی بھی قسم کی لاپرواہی نہیں ہونی چاہئے۔ نہ ہی اقرباء پروری اور نہ ہی اور کوئی اثر ورسوخ ،بدعنوانی یا قربت و رشتہ داری اس کار خیر میں رکاوٹ بننی چاہئے۔
رابطہ۔حاجی باغ، ایچ۔ایم۔ٹی، سرینگرکشمیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔