اشفاق سعید
انٹر نیٹ پر انحصار ہماری مجبوری بن چکی ہے اور اس سے ڈیجیٹل دنیا سے سائبر کرائم کے خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔جموں وکشمیر کے لوگ بھی اس کرائم میں پھنستے چلے جارہے ہیں۔کئی زبان کھول رہے ہیں تو کئی سماج میں عزت بچانے کے چکر میں لٹتے چلے جا رہے ہیں۔سائبر پولیس کے مطابق سائبر کرائم کی شکایات میں ماضی کی نسبت اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے ۔سائبر کرائم کی روکتھام کیلئے اس وقت زیادہ سے زیادہ بیداری پیدا کی جا رہی ہے اور یہ وقت کی ضرورت بھی ہے کیونکہ اس بحران پر قابو پانے کا سب سے موثر طریقہ یہی ہے ۔
جب بھی کبھی ہم سائبر کرائم کا نام سنتے ہیں تو ہمارے ذہن میں اکاؤنٹ کا ہیک ہونا، ذاتی معلومات لیک ہونا، کمپنیوں کے قیمتی ڈیٹا کی چوری جیسے خیالات ابھرتے ہیں کیونکہ جب بھی ہم آن لائن جاتے ہیں توہمیں ان سب خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ان دنوں جموں وکشمیر میں جس طرح کے جرائم کالوگوںکو سامنا ہے،ان میں کئی ایک سماجی طور پر بھی ایک متاثرہ شخص کو الگ تھلگ کر سکتے ہیں حالانکہ سائبر پولیس پہلے سے ہی یہ کہتی آئی ہے کہ جو ٹھگوں کے جھانسے میں آگیا وہ گناہ گار نہیں بلکہ متاثر ہوتا ہے، اس لئے اس کی مدد کی جائے نہ کے اس کو حقارت کی نظر سے دیکھا جائے ۔
پچھلے کچھ وقت سے یہ دیکھا جا رہا ہے کہ بیرون ریاستوں سے کچھ ایک گروپ لڑکیوں کا کا استعمال کرکے وٹس ایپ کے ذریعے ویڈیو کال کر کے عام شہریوں کو بلیک میل کرتے ہیں۔ایسی لڑکیوں سے ہوشیار رہنے کی اپیل کی گئی ہے ۔ہوتا کیا ہے ۔آج کل کچھ ٹھگ لڑکیاں اچانک آپ کو ایک مسیج بھیجتی ہیں جس میں لکھا ہوتا ہے ’’ہمارے پاس آپ کیلئے اچھی خبر ہے ،اگر آپ کے پاس وقت ہے تو بات کر سکتے ہیں ‘‘۔اگر اس دوران کسی نے حامی بھر لی اور بات کرنی شروع کی تو فوراً بعد وہ ایسے شخص کو وٹس ایپ پر کال کرنے کیلئے مجبور کرتی ہے اور ایسی صورتحال میں اگر کوئی شہری کال اٹھا لیتا ہے تو سمجھ لیں اُس کی نہ صرف عزت کا جنازہ نکل جاتا ہے بلکہ وہ لٹ بھی جاتا ہے کیونکہ جب بھی آپ ایسی کسی غیر محرم لڑکی کو وٹس ایپ کال کریں گے ،تو فون اٹھاتے ہی آپ کو وہ قابل اعتراض حالت میں ملتی ہے، جو آپ کا ویڈیو بنا لیتی ہے ۔سائبر پولیس کا کہنا ہے کہ ایسے متاثرہ شخص کو کچھ وقت بعد فون پر یہ دھمکی دی جاتی ہے کہ’’ میں آپ کا یہ ویڈیو وائرل کر کے آپ کے گھر والوں ، رشتہ داروں اور دوستوں تک پہنچائوں گی۔ساتھ ہی پولیس تک بھی یہ ویڈیو پہنچائی جائے گی ورنہ آپ کو اس جرم کے بدلے پیسے دینے پڑیں گے‘‘۔ایسی لڑکیاں آپ سے پیسے کی ڈیمانڈ کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں اگر آپ نے کچھ وقت تک پیسے نہ ڈالے، تو پھر آپ کو دوسرا فون آجاتا ہے جس میں آپ سے کہا جاتا ہے کہ ہم فلاں پولیس سٹیشن سے بات کر رہے ہیں،آپ کا ایک ویڈیو ہمارے پاس پہنچا ہے، اپنی جان بچائیں ۔ یہ فون سن کر متاثرہ شخص اگر جانکار نہیں ہے تو پیسے ڈالنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔مجھے کئی ایک ایسے لوگوں کے فون بھی اس تعلق سے موصول ہوئے ہیں جن کے ساتھ ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن میں سے کچھ ایک نے پیسے بھی ادا کئے ہیں۔سائبر پولیس کا کہنا ہے کہ اگر خدا نخواستہ کبھی آپ اس جھمیلے میں پھنس جائیں تو برائے مہربانی پہلے اپنی فیملی ، نزدیکی پولیس سٹیشن اور دوستوں کو آگاہ کریں، اگر اس صورتحال میں آپ ڈر گئے اور پیسہ دینا شروع کیا، تو پھر آپ ان کے چنگل میں پھنستے ہی جائیں گے ۔
سائبر کرائم میں اب ایک ایسا کرائم بھی عام ہوا ہے جس میں ٹھگ آپ کو آپ کی شکل دکھا کر لوٹ سکتے ہیں۔جیسے ٹھگ آپ کے کسی اپنے قریبی جیسے بیوی ، والد ، والدہ ، چاچا کے فون پر ویڈیو کال کر یں گے، جہاں ہو بہو آپ کی شکل آئے گی اورآپ کے لہجے میں بات کرتے ہوئے بولیں گے’’ آپ کو ایک نمبر شیئر کر رہاں ہوں،میں ہسپتال میں ہوں، جلدی 50ہزار یا پھر 1لاکھ روپے ٹرانسفر کرو، تو ایسے میں اگر آپ نے بنا کسی کنفرمیشن کے یہ پیسہ اکائونٹ میں ڈال دیا، تو سمجھ لیں آپ بھی لٹ گئے‘‘ ۔سائبر کرائم کے مطابق اگر آپ کسی کو بھی پیسہ ٹرانسفر کرتے ہیںتو اس سے قبل پہلے مکمل جانکاری حاصل کر لیں کہیں ایسا نہ ہو آپ بھی اس فراڈ کا شکار ہو جائیں ، شکل پر اعتبار کرنے کی بجائے فون نمبر پر اعتبار کرنا ضروری ہے اور یہ دیکھنا ہے کہ آپ کو کس فون نمبر سے کال آئی ہے ۔
تیسرا فراڈ مصنوعی ذہانت پر مبنی وائس کالنگ ہے جس کے ذریعہ جرائم پیشہ افراد کمپیوٹر سے تیار کردہ آوازوں کا استعمال بھی کر رہے ہیں جو حقیقی افراد کی آواز کی نقل کر کے لوگوں کو دھوکہ دے سکتے ہیں۔سائبر کرائم پر کام کرنے والے پولیس اہلکاروں کے مطابق فراڈ کرنے والے افرادآپ کی ریکارڈنگ ، مختلف عناصر جیسے کہ تقریر کے انداز، لہجے، آواز کا موڑنا اور یہاں تک کہ سانس لینے سے اکٹھا کرتے ہیںاور اس کو کمپیوٹر اور دیگر ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئے اس ریکارڈنگ کا تجزیہ کیا جاتا ہے تاکہ نہ صرف الفاظ کا تلفظ بلکہ آواز کے لہجے اور جذباتی باریکیوں کو بھی سیکھا جا سکے۔اس طرح ایسی آواز تیار کی جاتی ہے جو آپ کی آواز سے بالکل ملتی ہے، پھر اس کے بعد فراڈ کرنے والے افراد(ہیکر) متعلقہ انسان کے دوستوں یا رشتہ داروں سے رابطہ کرنے کیلئے کمپیوٹر سے تیار کردہ ان کالز کا استعمال کرتے ہیںاور پھر ان سے پیسہ یا پھر دیگر چیزوں کی مانک کرتے ہیں۔ایسے میں آپ کو پتہ بھی نہیں چلتا ہے کہ یہ آواز کس کی ہے اور کون آپ سے بات کر رہا ہے۔
سائبر پولیس کے مطابق ہر ایک کو کسی ایسے انسان کی کال جو کسی دوست یا رشتہ دار سے ملتی ہو، کو باریک بینی سے سننا چاہئے اور یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ کہیں کوئی دھوکہ تو نہیں کررہاہے۔ اپنی آواز کے نمونے یا ریکارڈنگ کبھی بھی نامعلوم افراد یا غیر بھروسہ مند ذرائع کے ساتھ شیئر نہ کریں۔اگر آپ کو شک ہے کہ آپ مصنوعی ذہانت پر مبنی وائس کلوننگ، سائبر کرائم یا کسی مالی فراڈ کا شکار ہوئے ہیںتو اس صورتحال میں سائبر کرائم رپورٹنگ پورٹل (www.cybercrime.gov.in) پر شکایت درج کریں۔فراڈ کی شکایات کیلئے1930 پربھی متعلقہ حکام سے رابطہ کرسکتے ہیں۔
اسی طرح بیروزگار نوجوانوں سے بھی ایک ایسا فراڈ کیا جاتا ہے ۔اس میں سب سے پہلے آپ کو ایک وٹس ایپ مسیج آئے گی جس میں آپ کو ایک یو ٹیوب چینل سبسکرائب اور لائیک کرنے کیلئے کہا جائے گا اور ساتھ میں یہ بھی کہا جائے گا کہ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ کو اس کے پیسے ملیں گے۔اگر آپ ایسا کریں گے، تو ا ٓپ’ پارٹ ٹائم جاب بیس جرم‘ کے شکار ہو جائیں گے۔ پہلے آپ کو ٹاسک منیجر کے طور پر ٹیلی گرام میں ایڈ کیا جائے گا۔جب آپ اس میں ایڈ ہو جائیں گے تو آپ کو بہت سارا کام ملے گا اور اس کے بدلے آپ کو کچھ ایک مسیج بھی ملیں گی کہ آپ کا پیسہ جمع ہو رہا ہے۔ یہ پیسہ نہیں بلکہ بہت بڑا فراڈ ہوتا ہے ۔
اسی طرح ٹیکنالوجی کے بڑھے رجحانات کے بیچ مزید ایسے نئے جرائم آئے ہیںجن کا پتہ ہی لوگوں کو نہیں چلتا ہے او ر نہ جانے کتنے لوگ ان جرائم کے شکار ہورہے ہیں اور یہ لوگ زبان تک نہیں کھولتے ۔ کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو سماج کے ڈر سے اپنے لاکھوں روپے گما چکے ہیں ۔سائبر کرائم پولیس سیل کی طرف سے لگاتار سوشل میڈیا پر اشتہار جاری کئے جاتے ہیں۔ لوگوں کو نئے نئے فراڈوں سے متعلق وقت وقت پر جانکاری بھی دی جاتی ہے لیکن پولیس کو مزید لوگوں تک پہنچنے کی ضرورت ہے ۔حال ہی میں ملک کے وزیر عظم نریندر مودی نے بھی سائبر کرائم کو موجودہ دور کا سب سے بڑا چیلنج قرار دیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس کی روکتھام کیلئے سب سے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ عوامی بیداری پیدا کی جائے اور اس کے ذریعے ہی اس چیلنج سے موثر طریقے سے نپٹا جا سکتا ہے ۔
سائبر پولیس کا کہنا ہے کہ اگر آپ کو ایسی کوئی مشکوک ای میل، میسج یا ویب پیج نظر آئے جہاں آپ کی ذاتی یا مالی معلومات طلب کی جاتی ہیں تو جواب نہ دیں بلکہ فوراً ڈیلیٹ کر دیں۔کسی مشکوک ای میل یا پوسٹ پر موجود لنکس پر کلک کرنے سے ممکنہ حد تک گریز کریں۔ ایسے لنکس آپ کے اکاؤنٹ یا ڈیوائس کو مفلوج کر کے اس کا کنٹرول ہیکر کو دے دیتے ہیں۔ اپنی پرائیویسی سیٹنگز کو باقاعدگی سے چیک کریں اور اپنی مرضی کے مطابق اس بات کا تعین کریں کہ آپ دوسروں کے ساتھ کس حد تک اپنی معلومات اور شائع شدہ مواد شیئر کرنا چاہتے ہیں۔ اپنی سوشل میڈیا پر موجودگی کو محتاط بنائیں۔اپنے اکاؤنٹ سے کسی بھی قسم کا حساس یا مضر مواد شائع کرنے سے پہلے دو بار سوچیں، کسی بھی سافٹ ویئر یا ایپلی کیشن کو انسٹال کرتے وقت یقینی بنائیں کہ آپ اسے قابل اعتماد ذریعہ سے حاصل کر رہے ہیں۔اسی طرح آپ اس بات کا یقین کر سکتے ہیں کہ آیا مذکورہ ایپلی کیشن گوگل پلے سے تصدیق شدہ ہے یا نہیں۔ غیرتصدیق شدہ ایپلی کیشنز کو انسٹال کرنے سے گریز کریں۔ایسے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے آپ کافی حد تک سائبر جرائم کی زد میں آنے سے بچ سکتے ہیں لیکن اگر اس کے باوجود آپ اس کا شکار ہوئے تو فوری طور پولیس کو مطلع کریں اور پولیس کو قانون کے مطابق اپنا کام کرنے دیں ورنہ آپ لٹتے اور پٹتے رہیں گے اور اندر ہی اندر سسکتے رہیں گے۔
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)