طارق اعظم۔ ٹنگمرگ
دنیا ئےجہاں میں مختلف رنگت ، حسب ، نسب ،خاندان اور مذاہب کے بے شمار لوگ سانس لے رہے ہیں اور اپنے اپنے عقیدوں کو دِل کے خانوں میں پال رہے ہیں۔ ان کا احساس اوروں پر آشکار کرتے رہتے ہیں، تاکہ میرا ہی مذہب غالب آجائیں۔ ایک مخصوص مذہب کا انسان دوسرے مذہب کے مانے والے کی دلائل کو توڑنے کیلئے جوابِ طشت میں تحریروں کا انبار اور کتابوں کا پہاڑ تو پیش کرسکتا ہے۔لیکن دنیا میں کوئی بھی ایسا انسان نہیں آیا، جس نے موت کی حقیقت کو جھٹلایا ہو۔یہ ایک ایسی طاقت ہے جس کو کمزور کرنے کی ہمت کسی میں بھی نہیں ہے۔ بلکہ جس سے بھی اسکا سامنا ہوجاتا ہے، توڑ کے رکھ دیتی ہے۔ رکانہ اور رستم جیسے پہلوانوں کو اس خاموش سمندر نے اپنے اندر نگل لیا ہے۔ تختوں پر ہوا میں اُڑنے والے کے پروں کو کاٹ دیا۔ سروں پر ناز و نخروں کے شاہی تاج رکھنے والوں کے سر بدن سے جدا کردئےہیں۔ سڑکوں پر ہاتھ میں لیے بھیک کا کشکول حاجت مند کو مٹی کے شکم میں پہنچایا۔ ماں کی آغوشِ کرم ہر قدم کا محتاج شیر خوار بچے کو اور سفید ریش، جھکے ہوئے کمر ، عصا کے سہارے چلنے والے ضعیف انسان کو اپنے گلے لگا کر دوسرے عالم میں منتقل کر دیا۔ غرض موت کے نزدیک کسی کی امیری ، غریبی، خاندان، طاقت، بے کسی، عہدے، محتاجی ، جونپڑھی، محل، کاروبار اور تجارت تک کام نہیں آتے ہیں۔ کیوں یہ ان تمام چیزوں سے بے نیاز ہے۔یہ فنکار کا اپنے شہکار کے لیے صمیم اور لاریب فیصلہ ہے، جو نہ ایک لمحہ پہلے صادر ہوجاتا ہے اور نہ ایک لمحہ کی انتظار کرتا ہے۔بس اپنے مقرر وقت پر روح رکھنے والے کا ہم آہنگ بن جاتا ہے۔ پھر چاہیے کوئی ماں کی تھن سے دودھ کا پہلا قطرہ اپنے معصوم دہن میں لینے لگا ہو، کوئی صبح کا ناشتہ تیار کر رہا ہو ، کوئی دکان کی چیزین سجا رہاہو ، کوئی اپنے گھر کو مزیّن کرنے میں مصروف ہو رہا ہو اور کوئی منزل کی جستجو میں سفر کر رہا ہو۔ اچانک ان سارے نشاط بخش منظروں کی رخسار پر ماتم کے آثار عیاں ہوجاتے ہیں۔ آنکھوں سے قلزم بہنے لگتا ہے۔ تبسم ، مسکراہٹ اور قہقہے نالہ زاروں، ہچکیوں اور سسکیوں کا لباس پہنتے ہیں۔ سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاتا ہے۔کتاب کے اورق منتشر ہوجاتے ہیں اور حرف حرف تتر بتر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ موت کے رعب نے قوی سے قوی دلوں کو خوف و حزن کے عالم میں گرفت کر کے رکھا ہے۔ کوئی بھی ذی جان مرنا نہیں چاہتا ہے۔ اپنے ماں باپ ، عزیز و اقارب اور اولاد سے کون جدا ہونا چاہتا ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ اپنے مقرر وقت پر واپس لوٹ کے جانا ہی ہے۔ اسی لیے رہبرِ کائنات، محسنِ انسانیت جس کی دہلیزِ اَقدس پر موت کے فرشتے نے اندر آنے کی اجازت مانگی، اس صادق المصدوق نے فرمایا ۔ کہ مرنے سے پہلے مرنے کی تیاری کرو۔ دنیا کی زندگی مختصر ہے، اسے غنیمت سمجھو۔ اب بات یہ ہے کہ موت کی کیا اور کیسی تیاری کرنی ہے۔ فرقانِ مجید میں ربِ کعبہ ہم سے مخاطب ہو کر فرما رہےہیں کہ تم یہ گمان نہ کرنا کہ تم کو بے کار بنایا گیا ہے، بلکہ تماری زندگی کا مقصد ہی میری رضاعت حاصل کرنی ہے اور تم تب تک مجھے راضی نہیں کرسکتے ہو، جب تک میرے محبوب کی مکمل اطاعت نہ کرو گے۔ بے ہودہ کاموں سے اور وقت کی رائیگانی سے اپنی یہ قیمتی زندگی محفوظ رکھنی لازمی ہے۔ شراب نوشی ، سود خوری، رشوت خوری، بد نگاہی، بد اخلاقی، فضول خرچی، رسم و بدعت اور طرح طرح کی نافرمانیوں کے کالے دھبوںسے دامنِ ایمان کو بچانا دینِ حق سکھاتا ہے۔اچھے بلے اور صالح اعمال کے سرسبز میدانوں میں خوب چرا کر عقبا کی پونجی کو آباد کردینا ہے۔ورنہ کل موت کے بعد انسان کو بہت افسوس ہوگا، اس قدر افسوس ہوگا کہ ناخن سے چبانا شروع کرے گا اور غم میں کھاتے کھاتے اپنی ساری بازو کو ختم کر دے گا۔ مولانا رومی ؒ فرماتے ہیں:
زندگی آمد برائے بندگی زندگی بے بندگی شرمندگی
کہ اگر اس مختصر سی زندگی میں ہم نے اللہ اور اللہ کے رسولؐ کے طرزِ مبارکہ پر زندگی گزار دی۔ تو موت ابدی اور دایمی سکون ، چین ، راحت اور خاص کر ملاقاتِ عظمیٰ کی دعوت ہے۔ اسی لیے اولیا ء اللہ موت کو پیاری چیز سمجھتے تھے اور سمجھتےہیں بھی ۔ ان کے لیے موت ، جیسے دشتِ صحرا میں گرمی کی حرارت میں ٹھنڈا پانی کا معنی رکھتی ہے۔ کیونکہ وہ لوگ اپنی ساری زندگی کو قرآن و سنت کے مطابق گزارتےہیں۔ فانی جہاںکے جاہ و جلال ، حسن و رنگت اور عہدے منصوبے ان کے یہاں آخرت کے نزدیک زیادہ اہمیت نہیں رکھتے ہیں ۔انہیں خبر ہوتی ہے کہ یہ ساری چیزیں عارضی ہے۔لہٰذا کیا فایدہ ہے کہ ان کو حاصل کر کر کے اپنی بے مول زندگی کا اصل مقصد گوا بیٹھیں۔ دوسرے مصرعہ میں فرماتے ہیںکہ جس نے اپنی زندگی کو فقط گنہگاری میں اور شرک و فسق کے سمندر میں ڈبو دی، اس کو روزِ جزا میں شرمندگی کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ اُس وقت کے احساس کا ہونا یا نا ہونا ایک ہی معنی رکھتا ہے۔ کیوں کہ وہ یومِ جزا ہوگا جو بویا ہوگا وہی کاٹنا بھی پڑے گا۔ اس جہاں کی دہلیز پر قدم رکھنے سے پہلے ہمیں ابھی جہاںِ دنیا میں رہ کر آخرت کی منزلوں کی بہت فکر کرنی لازمِ ملزوم ہے۔ یہی دنیا آخرت کی کھیتی ہے اور ہم بخوبی جانتےہیں کہ وہ کوئی دیوانہ یا بے حس انسان ہوگا، جو اپنی فصل دینی والی زمین کو ویران کر دیں۔ ایک دفعہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم بائیس لاکھ اکاوَن ہزار اور تیس مربع میل تک حکومت کرنے والے عادل بادشاہ کے دوشوں پر اپنے دستِ مبارک رکھ کر اسے نصیحت کرتے ہیں کہ اے عمرؓ اس دنیا میں ایک غریب کی طرح یا ایک مسافر کی طرح رہنا۔ جس طرح مسافر کو رات کے آرام کے لیے ایک چھوٹا سا خیمہ اور صبح و شام کے کھانے کا تھوڑا سا توشہ اپنے پاس رکھتا ہے، لیکن منزلِ مقصود کو پانے کی جستجو کو نہیں چھوڑتا ہے۔ اسی مثال کے مصداق مجھے اور آپ کو بھی بننا ہے۔ تمنا ، آرزو اور خواہشات کو مختصر کر کے موت کے بعد کی زندگی کے لمبے اور لازوال سفر کے لیے توشہ تیار کرنا ہوگا۔ کیونکہ ہم سب اپنی وقتِ قضا سے بالکل بے خبرہیں۔
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں
رابطہ۔6006362135