مفتی منیب الرحمٰن
اگر کسی شخص کے رمضان کے روزے قضا ہوگئے ہوں تو ان کی قضا کب تک رکھ سکتا ہے؟اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :ترجمہ:’’سوجو شخص تم میں سے بیمار ہو یا مسافر ہو (اور وہ روزے نہ رکھ سکے) تو دوسرے دنوں میں عدد (پوراکرنالازم ہے)،(سورۃ البقرہ:184)‘‘۔صحیح بخاری میں امام بخاریؒ نے ایک باب باندھا: مَتٰی یُقضیٰ قَضَاء رَمَضَانَ (رمضان کے روزوں کی قضا کب کی جائے )؟اس باب کے تحت انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے حوالے سے درج ذیل روایات بیان فرمائی ہیں :
ترجمہ: ’’ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اگر یہ روزے مُتفرق رکھے جائیں توکوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تو دوسرے دنوں میں عدد (پوراکرنالازم ہے)،(سورۃ البقرہ:184)‘‘۔قضا روزے رکھنے سے مراد یہ ہے کہ بلاناغہ تسلسل کے ساتھ رکھنا ضروری نہیں ہے،بلکہ اپنی سہولت کے مطابق بیچ میں وقفہ بھی کرسکتے ہیں۔نیز قضائے رمضان کا روزہ غیر رمضان میں اگر رکھنے کے بعدکسی وجہ سے ٹوٹ جائے یاتوڑ دیاجائے تو اس کا کفارہ نہیں ہے ،صرف قضا ہے ۔
ترجمہ:’’ ابوسلمہ ؓبیان کرتے ہیں : میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو فرماتے سنا: میرے ذمے ماہِ رمضان کے روزوں کی قضا ہوتی تھی اور میں انہیں صرف شعبان کے مہینے میں قضا کرسکتی تھی ۔یحیٰ نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مشغولیت کی وجہ سے یا آپ کے سبب سے مشغولیت کی وجہ سے ،(صحیح بخاری :1950)‘‘۔ حضرت عائشہؓ کاتاخیر سے قضا کرنا ایک عذرپر مبنی تھا اوروہ یہ کہ کسی بھی وقت انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کا شرف حاصل ہوسکتاتھا ،شعبان میں چونکہ آپ بکثرت روزے رکھتے تھے ، اس لیے حضرت عائشہ بھی شعبان میں روزے قضا کرتی تھیں۔ اس حدیث سے معلوم ہواکہ رمضان کے روزوں کی قضا علی الفور واجب نہیں ہوتی،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے ذمے عائد ماہِ رمضان کے روزوں کی قضا اگلے رمضان کے آغاز سے قبل ماہِ شعبان میں کرتی تھیں ۔تمام فقہائِ کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ماہِ رمضان کے روزوں کی قضا علی الفور واجب نہیں ہے ،لیکن بلا عذر اتنی تاخیر کرنا گناہ ہے کہ اگلا ماہِ رمضان شروع ہوجائے ۔
ترجمہ:’’ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اس پر گزشتہ رمضان کے روزوں کی قضا باقی ہے ،اس کے اس رمضان کے روزے قبول نہیں ہوں گے اورجس نے نفلی روزے رکھے، جبکہ اس پر رمضان کے روزوں کی قضاباقی تھی ،اس کے نفلی روزے قبول نہیں ہوں گے حتّٰی کہ وہ قضا روزے رکھ لے ،(مسند امام احمدبن حنبل :8621)‘‘۔
تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے : ترجمہ:’’جن ایام میں وہ (روزہ رکھنے پر) قادر ہو،وہ فدیہ کے بغیر ان کی قضا رکھے اوران کو پے درپے رکھنا بھی لازم نہیں ہے ،کیونکہ روزے کی قضا کاحکم (فوری نہیں بلکہ) تراخی پر مبنی ہے ،اسی وجہ سے قضا سے پہلے نفلی روزہ رکھنا جائز ہے ،نماز کی قضا کا معاملہ مختلف ہے اور اگر دوسرا رمضان آجائے تو ادا کو قضا پر مقدم کرے گا اور اس پر کوئی فدیہ نہیں ہوگا ‘‘۔اس کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’علامہ حصکفی کا یہ قول: اگر (گزشتہ رمضان کے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرنے سے پہلے اگلا رمضان آجائے تو) ادا کو قضا پر مقدم کرے گا یعنی اسے یہی کرنا چاہیے، ورنہ اگر اس نے اگلے رمضان کے روزے (پچھلے رمضان کی ) قضا کی نیت سے رکھے ،توپھر اسی رمضان کے ادا روزے شمار ہوں گے ۔