بلال احمد پرے
ماہِ صیام جہاں شہرہ القرآن ہے ۔ وہی یہ سخاوت، ہمدردی، مواسات اور خیر خواہی کا بھی مہینہ ہے ۔ یہ غریبوں، محتاجوں، بیوائوں، مسکینوں و دیگر ضرورت مندوں کی امید کا مہینہ ہے ۔ یہ سماج میں غربت و افلاس کی زندگی گزارنے والے بے سہاروں کے لیے امید کا مہینہ ہے ۔ یہ مقدس ماہ اب اپنے تیسرے عشرے میں داخل ہوچکا ہے ۔ اس ماہ میں ایک فرض عبادت کو ستّر فرضوں اور ایک نفل عبادت کو غیر رمضان میں فرض کے برابر فضیلت آئی ہے ۔
قرآن و سنت کی روشنی میں انفاق فی سبیل اللہ کی بڑی ترغیب دی گئی ہے تاکہ اخلاقی اور روحانی بیماری کو دور کرنے کے علاوہ معاشی توازن کو بھی برقرار رکھا جائے ۔ رمضان کے اس مقدس مہینے میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے انفاق کا معمول تیز آندھی کے مانند ہوا کرتا تھا ۔ حالانکہ بدنی عبادت کے مقابلے میں مالی عبادت بہت ہی زیادہ گراں گزرتی ہے وہ بھی جب ہر طرف مادیت پرستی نے اپنا جال بچھا رکھا ہو، حرص اور لالچ نے اپنے سایہ تلے دبا دیا ہو، سود خوری نے مکڑی کے جالے کی طرح باندھ رکھا ہو، دنیا کے رنگین اور عالیشان گاڑیوں و محلوں نے اپنی طرف راغب کیا ہو ۔ اسی لیے اللہ رب العزت کا فرمان ہے کہ ” جو اپنے دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں ۔” (الحشر :9) سورۃ الھمزہ کے اندر واضع طور پر بیان فرمایا گیا ہے کہ مال کو گن گن کر رکھنے والوں کے لیے حطمة کی آگ ہے جس میں انہیں ڈال دیا جائے گا ۔
جس قدر خلوص کے ساتھ اللہ کی راہ میں مال خرچ کیا جائے اتنا ہی اللہ کی طرف سے اس کا اجر و ثواب زیادہ (البقرہ ؛ 265) ہوگا۔ اور جو شخص ریاکاری یا نام نہاد ہونے کی نیت سے اللہ کی راہ میں مال کو خرچ کرے تو اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ۔ رب العالمین نے اللہ کی راہ میں رضائے الٰہی سے مال خرچ کرنے والے شخص کو ایک ایسی تجارت کے ساتھ تشبیہ دی ہے جس میں کبھی بھی کوئی نقصان واقع ہونے کا اندیشہ نہ ہو ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ” اور جو کچھ ہم نے انہیں رزق دیا ہے اس میں سے کُھلے و چھپے خرچ کرتے ہیں، یقیناً وہ ایک ایسی تجارت کے متوقع ہیں جس میں ہرگز خسارہ نہ ہوگا۔” (الفاطر؛ 29) اس طرح موت سے قبل ہمارے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی نوعیت کی ایک خاص غیر معمولی اسکیم کو متعارف کر دیا ہے جس کی معیاد قبل از موت تک ہے، لیکن موت کب آئے یہ اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں ۔ لہٰذا اس منافع بخش تجارت میں ہم سب کو اپنا اکاؤنٹ جلد از جلد کھول دینا چاہیے۔ تاکہ اس دنیا سے ریٹائرمنٹ ہونے کے بعد ہمارا یہ اکاؤنٹ صدقہ جاریہ کے طور پر چلتا رہے ۔
اللہ پاک کا ارشاد ہے کہ “تم نیکی کے بلند مقام تک نہیں پہنچ سکتے جب تک وہ چیزیں خرچ نہ کرو جو تمہیں زیادہ محبوب ہے۔” (آل عمران)
اسی آیت مبارکہ پہ عمل پیرا ہو کر حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہا نے اپنی ساری چیزوں میں سب سے زیادہ محبوب باغ ‘تبیرحاء کو اللہ کی راہ میں صدقہ کیا۔قیامت کے روز ہم سے ہمارے مال کے متعلق ضرور بالضرور پوچھا جائے گا ۔ کہ مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا ؟ الترمذی کی یہ حدیث جہاں تمام لوگوں کے لیے عموماًوہی اصحاب خیر کے لئے خصوصاً لمحہء فکریہ ہے ۔ انہیں اپنے مال کے بارے میں سوچنا چاہیے کہ ہمارے کمانے کے ذرائع کیا ہے؟ اور خرچ کہاں ہو رہا ہے؟ یہ مال مسلمان کو جنت میں بھی پہنچا سکتا ہے اور اللہ بچائے جہنم کی گہری کھائی میں بھی لے جا سکتا ہے ۔ فقراء کے ساتھ ہمدردی و خیر خواہی کرنا، ضرورت مندوں سے حسن سلوک سے پیش آنا، محتاجوں اور مسکینوں سے سخاوت برتنا اور انہیں اپنے حلال مال سے تعاون دینا سب سے بڑی نیکی ہے ۔اس مبارک مہینے میں غریب، نادار، لاچار، بےکس، ضعیف، کمزور، ناتوان، بیمار، مفلوک الحال، فقیر، خیراتی و فلاحی ادارے، اسلامی مدارس، یتیم خانے، قدرتی و ناگہانی آفات سے دوچار ہونے والے یہی امید لے کر مسلمانوں کے دروں پہ آتے ہیں کہ یہاں ان کی مراد بھر دی جائے گی ۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو دل کھول کر مالی تعاون کریں ۔ اس مقدس مہینے میں فیاضی، غرباء کی دل جوئی اور کشادہ قلبی کا اظہار کر کے اللہ کی راہ میں اعلانیہ و خفیہ طریقے سے خرچ کیا کریں ۔ لیکن اس بات کا خیال ضرور رکھے کہ کہیں اپنے رشتہ داروں میں، اپنی بستی یا محلے میں ایسا کوئی تنگ دست، مقروض یا مسکین تو نہیں جو اپنا ہاتھ پھیلانے سے شرم محسوس کر رہا ہو اور زندگی کی سفید پوش حالت پر ہو ۔ تو اس صورت میں ان کا خاص خیال رکھ کر اپنے صدقات، عطیات، خیرات و زکوٰۃ سے انہیں مالی امداد کریں۔ اس میں دوہرا اجر ہے اور رمضان المبارک میں ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے ۔
آج امت مسلمہ کا المیہ یہ ہے کہ صدقات، خیرات، عطیات و زکوٰۃ کے منظم طریقے کا فقدان ہے، جس سے مستحقین زکوٰۃ و صدقات کو لینے سے قبل اور لینے کے بعد کوئی نمایاں معاشی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے ۔ اس کا بہترین مصرف اسی وقت ممکن ہے جب ہم دین کو صحیح طور سے سمجھ کر اس سے اپنی زندگی میں نافذالعمل بنائے ۔الغرض اللہ کے بندوں کی ضروریات بلا تفریق مسلک و ملت پوری کرنا ضروری ہے اور یہ نہ صرف ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے بلکہ دین کا ایک حصہ اور احکام شریعت بھی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین اسلام کی گہرائی کو سمجھنے اور اسکے احکامات پر عمل کرنے کا پاسدار بنائے۔ آمین
(رابطہ : ہاری پاری گام ترال ،فون نمبر 9858109109)