جیسے ہی کشمیر میں سردیوں کا اختتام ہوتا ہے اور سورج ماحول کو گرما دیتا ہے توبجلی کی فراہمی میں بہتری آتی ہے۔یہ وہ چیز ہے جسے کشمیر کے لوگوں نے حتمی مان لیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ سردیوں میں دریاؤں میں پانی کی سطح کم ہوتی ہے جس کے نتیجے میں بجلی کی پیداوار کم ہوتی ہے جبکہ دوسری طرف بجلی کی طلب بڑھ جاتی ہے۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سپلائی اور ڈیمانڈ کے درمیان بہت زیادہ فرق پیداہوتا ہے اور اس خلیج کو پاٹنے کیلئے بجلی کی طویل کٹوتی ناگزیربن جاتی ہے لیکن درجہ حرارت بڑھنے اور دریاؤں میں پانی کی سطح بڑھنے کے ساتھ ہی بجلی سپلائی کے منظر نامے میں بہتری آتی ہے اور بجلی کی فراہمی میں کافی حد تک معقولیت آتی ہے۔اس سال بھی بالکل ایسا ہی ہوا۔سردیاں ختم ہوتے ہی مارچ کے بعد سے بجلی کی فراہمی میں بہتری لائی گئی تھی اور کافی حد تک اعلانیہ اور غیر اعلانیہ کٹوتی سے لوگوں کو راحت بھی ملی تھی لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اپریل کے تیسرے ہفتہ میں ہونے کے باوجود بھی گزشتہ کچھ دنوں سے بجلی کٹوتی کے تمام ریکارٹ مات کئے جارہے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ محکمہ کی جانب سے بیشتر معاملات میں سحری اور افطار کے اوقات کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور انہی اوقات میں بجلی گل رہتی ہے حالانکہ محکمہ خود بھی جانتا ہے کہ لوگوں کو سب سے زیادہ ضرورت بجلی کی انہی اوقات میں ہوتی ہے ۔پچھلے کچھ دنوں سے بجلی کی سپلائی میں پیدا ہوا خلل ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیںکہ ایسے وقت جب متعلقہ محکمے کو بجلی کی بلا خلل فراہمی کیلئے خصوصی انتظامات کرنے چاہئے تھے، ہمیں بار بار بجلی کٹوتی کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے۔ایک وقت تھا جب 2002میں مرحوم مفتی محمد سعید نے اقتدار سنبھالتے ہی ماہ رمضان میں بلاخلل بجلی کی فراہمی کا اعلان کیاتھا اور جب تک اس سال تک رمضان کے مہینہ میں صارفین کو وافر مقدار میں بجلی فراہم کی جاتی رہی ہے ۔محکمہ کی جانب سے اس بات کو یقینی بنایا جاتا تھا کہ کم ازکم سحری اور افطار کے وقت بجلی کی کٹوتی نہ ہواور اس کیلئے محکمہ کی جانب سے پیشگی انتظامات بھی کئے جاتے تھے لیکن اس سال رمضان میں ہم جو بجلی سپلائی کا حال دیکھ رہے ہیں،تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کم 30سال پیچھے چلے گئے ہیں جب ایسے ہی بجلی خال خال ہی دیدار دیتی تھی۔یہ صورتحال یقینی طور پر پریشان کن ہے اور لوگوں کیلئے پریشانی کا باعث بھی بنی ہوئی ہے۔ متعلقہ محکمے کو بجلی کی اس قدر کٹوتی پر سنجیدگی سے غور کرکے فوری طور اصلاح احوال سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اس مہینے میں حکومتیں معمول سے ہٹ کر کام کرتی ہیں اور حکام کی جانب سے اس مقدس مہینے میں لوگوں کی زندگیوں کو آسان بنانے کیلئے اضافی کوششیں کی جاتی ہیں۔ مختلف محکمے مختلف خدمات فراہم کرنے کے لئے خصوصی اقدامات کرتے ہیں۔چونکہ یہ دن اور رات کے بدلے ہوئے نظام الاوقات کے لحاظ سے لوگوں کیلئے خاص وقت ہے، اس لیے اس کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔ اس مہینہ میں لوگوں کو بلاخلل بجلی کی فراہمی کی ضرورت ہے، خاص طور پر افطار اور سحری کے اوقات میں۔شمالی ہند وستان کے علاقوں میںدرجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے کو دیکھتے ہوئے بجلی کی مانگ میں اضافہ کے پیش نظرا ن علاقوں میں بجلی کی فراہمی میں اضا فہ کرنا ناگزیر بن جاتا ہے۔ کوئی نہیں چاہے گا کہ کہیں بھی لوگوں کو کسی بھی طرح کی تکلیف ہو، لیکن ایک آبادی کیلئے دوسری آبادی کو کیوں تکلیف دی جائے؟۔تمام لوگوں کے لیے کافی بجلی ہونی چاہئے اور اس ضمن میں کسی کو بھی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا چاہئے۔اب یہ کہاجارہا ہے کہ تھرمل بجلی پروجیکٹوں میں ایندھن کی کی قلت اور گرمی کی لہر میں اضافہ کی وجہ سے بجلی بحران پیدا ہوچکا ہے ۔اگر محکمہ کی یہ دلیل مان بھی لی جائے تو بھی یہ بے تُکی سی لگتی ہے کیونکہ اگر کوئلہ کا سٹاک ختم ہونے کو ہے تو اس کیلئے حکومت کی جانب سے پیشگی اقدامات کیوں نہیں کئے گئے اور جہاں تک گرمی کی لہر میں اضافہ کی بات ہے تو یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہورہا ہے بلکہ اس سیزن میں پورے ملک میں گرمی میںاضافہ معمول کی بات ہے اور اس کیلئے قبل از وقت انتظامات کرنا سرکار کی ذمہ داری ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکام بے تُکے عذرات پیش کرنے کی بجائے صارفین کو معیاری بجلی کی فراہمی یقینی بنائیں اور فوری طور ماہ رمضان کے مقدس مہینہ کو دیکھتے ہوئے بجلی سپلائی میں معقولیت لانے کا بندو بست کیاجائے۔کچھ بھی ہو ،سرکار اس بات کو یقینی بنائی کہ کم از کم سحری اور افطار کے اوقات میں بجلی گل نہ ہو۔معیاری بجلی صارفین کا حق ہے اور اس کیلئے پیسہ ادا کرتے ہیں اور سرکاری صارفین کو معیاری بجلی فراہم کرکے اُن پر کوئی احسان نہیں کرے گی ۔