عرفان عابدی
یوں تو دکھانے کے لئے اس دنیا نے بہت ترقی کرلی ،انسان کی آسائش کی خاطر مختلف طور طریقوں کی مشینیں ایجاد کردی، ہتھیار سے لیکر قلم تک کی نوعیت کو تبدیل کردیا۔ ۱۰۰ برس پہلے انسان نے جو سوچا نہیں تھا، اُسے کرکے دکھایا۔ ہاتھ میں دنیا کا خاکہ دیدیا ،جہاں سے احوال جہاں با آسانی دریافت کئے جا سکتے ہیں، گھر بیٹھے بیٹھے دیدارِ یار کیا جا سکتا ہے تو اُسے پیغام دینے کی خاطر اب مجسّم نامہ رساں کی ضرورت نہ رہی، ہوا کے لئے اب ہاتھ کو تھکانا نہیں پڑتا، پانی کے لئے مشقت نہیں کرنی پڑتی ،سفر کی مسافت کو بہت حد تک کم کردیا، غائبانہ ہی صحیح شخصیات کی شناخت ہونے لگی ،کوئی کچھ کرکے صاحبِ ثروت ہو گیا تو کوئی کُچھ نہ کرکے بھی وائرل کی اعانت سے مالا مال ہوگیا ،گرمی میں ٹھنڈک تو ٹھنڈک میں گرمی کا سامان میسر ہوگیا، گویا ہر قسم کی سہولتیں دستیاب ہوگئیں مگر سوال ہے زمانہ کے بدلنے کے ساتھ ساتھ انسانوں کی عادات کا بدلنا کس حد تک دُرست ہے ،کیا مشینوں پر پوری طرح اعتبار کرکے خود کا اعتبار کھونا درست ہے؟ جواب ہوگا نہیں!.
دنیا میں جتنی بھی ترقّی کے وسائل ہیں سب میں دو طرح کے اثرات ہیں، ایک مثبت دوسرے منفی۔مثبت اثرات کو کسب کرنا ہمیں بہتر نتیجہ فراہم کرتا ہے مگر منفی اثرات کو اپنے اوپر حاوی کرنا زندگی کو مختلف طرح کی تگ و دو میں ڈال دیتا ہے اور المیہ ہے کہ ان وسائل کے خالق اکثر گوروں کی نسل کے ہیں، ہم نے فقط استعمال کیا ہے، ایجاد نہیں۔بہر حال ہمارے اختیارات کے ہاتھ ابھی بھی زمینی آقاؤں نے باندھ رکھے ہیں مگر استعمال کی حد کی کسوٹی کو پرکھ کر آگے بڑھنا ہمارے مکمل اختیار میں ہے۔ ہمیں دیکھنا ہے کی جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے کہیں ہم قدیمی یادوں کی قربانی تو نہیں دے رہے ہیں ، سہولتوں کے ملنے سے مشقت و جفا کشی سے بھاگ تو نہیں رہے ہیں ، گھر آ جا کر ملاقات نہ کرکے غائبانہ ملاقات کے عادی تو نہیں بن گئے ہیں ، موبائل پر لکھنے کے شوق نے کہیں قلم کو ہاتھ سے دور تو نہیں کر دیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو نئی ٹیکنا لوجی آپکی زندگی کے قالب میں زہر گھول رہی ہے ۔
آپ کو ایک پیمانہ تیار کرنا ہوگا، جس سے اس ایڈوانس زمانے کے وسائل اور اس کے استعمال کی حد معیّن ہو ،جس سے زندگی کا پیمانہ چھلکے نہیں اور پیمانہ کے ظاہری حصے پر غیر ٹیکنا لوجی کے وسائل و عادات کے استعمال کا رنگ چڑھا ہو، تاکہ پیمانہ اپنے میں دونوں طرح کی زندگی کو شامل کئے رہے کہ یہ دِکھنے میں بھی بھلا معلوم پڑےگا اور یہ ہماری زندگی پر اثر انداز نہیں ہوگی۔یقیناً بہت سے افراد ایسے ہیں جو ٹیکنا لوجی کے يا تو مکمل حامی ہیں يا سخت مخالف ہیں مگر کُچھ ایسے با شعور افراد بھی ہیں جو اسکے اثرات کے دونوں پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ مواقع پر اسکی مخالفت کرتے ہیں تو کُچھ مواقع پر اسکی حمایت۔
آج سے کُچھ سال پہلے بہت سی چیزیں دستیاب نہیں تھی مگر اب موجود ہیں ، کُچھ چیزیں پہلے بھی موجود تھیں مگر اب اس میں کچھ ترمیم کردی گئی ، بعض وسائل پہلے بھی تھے اور اب بھی اسی طرح باقی ہیں اور اُنکے استعمال پر اعتبار بھی قائم ہے۔ بعض چیزیں پہلے بھی تھیں مگر اب اُنکی جگہ اُن کا بدل تیار کردیا گیا جب کہ دونوں کا کام ایک ہی ہے ۔ ان ساری صورتوں میں یا تو ہمیں کہیں فائدہ ہوا یا کہیں نقصان ،جس کا رونا ہم بھی روتے ہیں۔
اس ٹیکنالوجی نے ہماری زندگی کو کہیں مشکل بنا دیا ہے تو کہیں آسان ، کبھی ہمارے لئے فائدہ لے کے آتی ہے تو کبھی ہمیں نقصان دے جاتی ہے، ایسے ماحول میں ہماری ذمّہ داری ہے کہ قدم پھونک پھونک کر رکھیں ،تھوڑا لڑکھڑانا بھی گرنے سے اچھا ہوتا ہے یعنی کبھی ہم کو جدید ٹیکنالوجی پریشان کرے تو ہم قدیم ٹیکنالوجی کی مدد لے سکتے ہیں۔ تھوڑی تکلیف ہوگی مگر زندگی کی نیّا پار تو کرا ہی دیگی ، اگر قدیم ٹیکنالوجی ہماری معاون نہیں بن سکتی تو جدید ٹیکنالوجی سے مدد مانگ سکتے ہیں۔ ان باتوں کا لب لباب یہ ہے کو ہم اپنی زندگی میں دونوں option رکھیں ،جسکی جب ضرورت ہو اس کا سہارا لے لیں نہ تو پوری طرح سے جدید ٹکنالوجی پر بھروسہ کرلیں نہ قدیم ٹیکنا لوجی آپ کی زندگی میں خلل پیدا کرے۔
لیکن یاد رہے پرانی روایتوں کی بقا اکثر و بیشتر ہماری شناخت ہوا کرتی ہے ،ایسا نہ ہو کہ ہم اس ایڈوانس زمانے کے اتنے عادی ہوجائیں کہ اپنی پرانی روایتوں کو خیر آباد کر دیں ۔ اس ٹیکنا لوجی کی تعلیمات کے چکر میں اسلامی تعلیمات کو ہاتھ سے جانے نہ دیں کیونکہ زندگی کے ہر موڑ پر اسلامی تعلیمات کی ضرورت پڑتی ہی ہے۔ جیسے انگریزی زبان کے کویل ہوجائیں اور اردو، عربی زبان کے خاموش کبوتر بن جائیں ۔یہ کچھ دیر تک ہماری شایان شان زندگی کو برقرار رکھے مگر زندگی کے نشیب و فراز اور اسکے اُتار چڑھاؤ کے وقت سنبھال نہیں سکتی۔ اس کے لیے آپ کا انگریزی کے ساتھ ساتھ اپنی مادری زبان اور قومی زبان پر عبور ہونا بہت ضروری ہے۔
اس ٹیکنا لوجی کے زمانے میں جہاں خود کو درست کرتے رہنا آسان ہے وہیں غلطی کے امکانات بھی بہت ہیں ۔ اس دور میں آپ کی غلطی کی رسائی کی حد لا محدود ہے ،اس لیے اس راہ پر اپنے قدم پھونک پھونک کر رکھیں ورنہ آپ بہتر جانتے ہیں کہ وائرل کی آگ کتنی تیز پھیلتی ہے۔
یاد رہے کہ ٹیکنا لوجی کا استعمال آپ کو مضبوط بنائے کمزور یا سست نہیں، آپ کے لئے مفید ہو مضر نہیں، آپ کا حامی ہو مخالف نہیں، آپکا دوست ہو دشمن نہیں۔
اس ترقی یافتہ دور کی التجا کبھی کبھی ہمیں اپنے اصل ہدف سے دور کر دیتی ہے۔ آپسی میل ملاپ کو برقرار رکھنے میں خلل پیدا کردیتی ہے اور عزیز و اقارب کی ملاقات کی خواہش کو مار دیتی ہیں کیونکہ ہم اپنی اس ایڈوانس زندگی میں اتنے مست ہوگئے ہیں کہ ہمیں دوسروں کی تو چھوڑیئے، اپنی بھی خبر نہیں رہتی ۔ موبائل نے جہاں ہمارا کام آسان کیا وہاں استعمال کے الگ الگ طریقوں نے ہمارے بہت سے کام بگاڑ دیئے۔ ہم اب conversation کو ہی ملاقات سمجھتے ہیں، تو اصلی ملاقات کو وقت کی بربادی گردانتے ہیں ، نفرت کی ترویج بھی اسی موبائل کے بلبوتے ہورہی ہے تو محبت کو عروج بھی اسی سے مل جاتا ہے، مگر نفرت کا چرچا زیادہ ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ اس ٹیکنا لوجی کا استعمال اگر ہمیں فائدہ نہیں دے تو دوسروں کا نقصان بھی نہ کرے اور کسی بھی طرح سے ہمیں اپنوں سے دور نہ کردے ۔
میں تو نہیں چاہتا تھا کہ ٹکنالوجی کے کسی وسائل کا نام اُس کے غلط استعمال کے ساتھ لیا جائے چونکہ موبائل ایک ایسا سامان ہے جو ہر ایک کے ہاتھ میں اور یہ انسان کی زندگی پر اپنا اثر چھوڑ رہا ہے، اس لئے اس کا تذکرہ ضروری ہے ۔
بہر حال ہماری ذاتی زندگی کے ہم خود محافظ ہوں اورٹیکنالوجی پر اعتبار سے زیادہ خود پر اعتبار ہو، تاکہ جہاں ٹیکنا لوجی ساتھ چھوڑ دے، وہاں ہم پریشان نہ ہوں اور پریشانی میں اگر ٹیکنا لوجی کی مدد لینی پڑی تو بیشک لیں ۔
یہ بات عیاں ہے کہ ٹیکنا لوجی کے وسائل کی اپنی ایک قیمت ہے ،جس کا استعمال غریب انسان نہیں کر سکتے تو ایسا نہ ہو کہ ہم انہیں اپنے سے الگ سمجھیں بلکہ انہیں اپنا ہی حصہ سمجھیں اور اپنے سے بہتر سمجھیں کہ اس دور میں وہ پیسوں کی وجہ سے ٹیکنا لوجی سے دور ہیں، مگر وہ اپنی مقصد کی حصول سے دور نہیں ۔۔ ضروری نہیں ہے کی واشنگ مشین نہ ہو تو کپڑا نہیں دھویا جا سکتا ، ضروری نہیں ہے کہ موٹر سائیکل نہ ہو تو سفر نہیں کیا جا سکتا ، ضروری نہیں ہے کہ موبائل نہ ہو تو ہمارا کوئی کام نہیں ہو سکتا ،اگر چہ یہ اور ان جیسے دوسرے وسائل ہماری آسانی کے لئے ہیں مگر یہ ہماری زندگی گزارنے کا واحد راستہ نہیں ہیں۔
بعض ایسے افراد ہیں کہ اگر اُن سے جدید ٹیکنا لوجی کے وسائل کو دور کر دیا جائے تو وہ ناکارہ ہوجائینگے ۔اگر ٹکنالوجی کا استعمال ہمیں اس حالت میں لے آئے تو ہمیں اپنے ہاتھوں اور پیروں کاعلاج کرانا چاہئے کہ ہم لولے یا اپاہج تو نہیں ہوگئے ۔کیونکہ مشین ہماری زندگی کی راہ ہموار کر سکتی ہیں مگر ہمارے ہاتھ پیر مستقل طور پر نہیں بن سکتے۔ اس لیے اس بات کا خیال رہے کہ “ٹیکنا لوجی آپ کی دوا بنے مرض نہیں “۔
(رابطہ۔7303199683)
<[email protected]