محمدشمیم احمدنوری
اللہ وحدہٗ لاشریک کی طرف سے ہمیشہ اپنے محبوب اور پسندیدہ بندوں کی طرف مہربانیاں اور عطائیں ہوتی رہتی ہیں، اور وہ اس وقت تک اپنے بندہ کو محروم نہیں رکھتا جب تک کہ بندہ احکامات خداوندی سے رخ نہ موڑ لے، نہیں تو رب کی طرف سے آفات وبلیّات وناگوارطبع چیزیں آنی شروع ہوجاتی ہیں، اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں اور ظاہر و باہر ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندہ کو سنگین سزا میں گرفتار کرنا چاہتا ہے تو پھر کسی کی مجال اور طاقت نہیں کہ وہ اپنی تدبیر سے سے بچ سکے، جب تک مسلمان اللّٰہ ورسول کی اطاعت کے ساتھ خدائی قانون و دستور کے مطابق چلتا رہا تو اس نے جدھر بھی رخ کیا، بڑے بڑے ممالک مسخر کر لیے، دنیا کی سپر پاور طاقتیں اس کے مقابلے میں ہیچ سمجھی جاتی تھیں،قیصر وکسریٰ کا ڈنکا چہار دانگ دانگ عالم میں گونجنے کے باوجود مسلمان کا نام سن کر لرز اٹھتے اور اس کے پاؤں ڈگمگانے لگتے، لیکن جب مسلمانوں نے اللّٰہ ورسول کی اطاعت وفرمانبرداری اور صراط مستقیم پر گامزن رہنے کے بجائے عیش پرستی اور خواہشات نفسانی [جوابازی، شراب نوشی، حرام خوری، فحش وبد کاری، ناچ گانوں کی محفلوں میں شرکت،ٹیلی ویزن، موبائل و انٹرنیٹ کے غلط استعمال] کا خوگر بنا اور اپنے خالق ومالک کے احکام اور سنت رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو پس پشت ڈالنے کا ارادہ کیا ،اسی وقت سے وہ قعر مذلّت میں بے وقعت ہو کر جاگرا، اور اسلامی تہذیب و تمدن اور علم و عمل سے بیزار ہوکر ہر طرح کے آلام و مصائب و حوادثات کے بھنور میں پھنس گیا، لیکن قدرت خداوندی کا یہ قانون ہے: ’’اللّٰہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت کواس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم اپنی حالت کو نہ بدلے‘‘ اور جب اللّٰہ تعالیٰ کسی قوم پر آفت نازل کرنا چاہتا ہے تو پھر وہ واپس نہیں لوٹتی،چنانچہ اس کی عادت کریمہ ہے کہ کسی قوم کی عادت و خصلت میں تغیر وتبدل پیدا نہیں کرتا جب تک کی وہ قوم اپنے احوال و کردار میں انقلاب پیدا نہ کرے، الغرض موجودہ دور میں ہم مسلمانوں کو چاہئے کہ ہم اپنی بے راہ روی اور غیر شرعی کاموں سے کلّی طور احتراز و اجتناب کرکے توبہ کا دروازہ کھٹکھٹائیں اور اپنے گناہوں پر اشک ندامت بہا کر اپنے خالق و مالک کو راضی کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر صراط مستقیم پر گامزن ہو کر اپنی حمیت اسلامی و غیرت ایمانی کا ثبوت دیں۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کے معاصی،فسق وفجور سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے
دنیا آج جن افسوس ناک حالات سے گزر رہی ہے، وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ عیسائیت و یہودیت جس ملک کو چاہتی ہے اپنی بربریت کا نشانہ بناتی ہے اور مسلم دنیا ہاتھ پر ہاتھ دھرے دیکھتی رہتی ہے۔ یورپ و امریکہ کے صلیب بردار مسلمانوں کو لقمہ تر سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔ فلسطین و لبنان اور افغانستان و عراق اس کی زندہ اور تازہ مثالیں ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مسلم قوم اس قدر لاچار و بے بس ہے جبکہ تعداد کے اعتبار سے مسلمان ہی دنیا کی دوسری بڑی قوم ہے۔ مفکّرین کےغور و فکر کے بعد کچھ اسباب سامنے آئے جو مختصراً پیش ہیں۔
پہلا سبب:دین و علم دین سے دوری ہے۔ مسلمان نہ ان کو چھوڑتے نہ انہیں یہ دن دیکھنے کو ملتے۔ قرآن عظیم میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے صاف صاف اعلان فرما دیا کہ
’’نہ سستی کرو اور نہ غم کھاؤ تمہی غالب آؤ گے اگر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ (آل عمران آیت139)
ایمان شرط اور اس کی جزاء برتری و سر بلندی ہے۔ شرط چھوڑ کر جزاء کا طالب ہونا انتہائی بھول اور نری نادانی ہے۔ صاحب نورالعرفان اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔’’اللہ تعالیٰ کا وعدہ بالکل سچا ہے ہم نا اہلوں نے شرط پوری نہ کی، جس کی وجہ سے پست ہوگئے اور صحابۂ کرام، خصوصاً خلفائے راشدین سچے اور مخلص مسلمان تھے کیونکہ ربّ نے ایمان کی شرط پر سر بلندی کا وعدہ فرمایا ہے اور انہیں سربلندی خلافت و حکومت سب کچھ بخشی، معلوم ہوا کہ ان میں وہ شرط موجود تھی۔‘‘مگر ہمارا حال یہ ہے کہ اپنی پہچان تک برقرار نہیں رکھ پاتے۔ آج کے مسلمان کو دیکھنے کے بعد یہ امتیاز کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ آیا یہ مسلمان ہے یا کوئی اور۔ اور جس قوم نے اپنا مذہبی شعار کھو دیا، زمانہ نے اس کو ایسی ٹھوکر ماری ہے کہ روئے زمین سے اس کا نام و نشان تک مٹا دیا۔
دوسرا سبب:آپسی اختلافات اور گروہ بندی ہے۔ آج مسلم دنیا کا جائزہ لیجئے تو کوئی آپ کو باہم متفق و متحد نظر نہیں آئے گا ۔ایک ملک دوسرے ملک کے درپے آزار تو ہے ہی، لیکن گھریلو زندگی میں اتحاد نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
تیسرا سبب:مسلمانوں کی بے حسی ہے۔کیونکہ جس قوم کا احساس مر جاتا ہے، دنیا اسے اپنے قدموں تلے روند دیتی ہے۔ آپ خود دیکھیں کہ دنیا کے کسی خطے میں اگر کسی نصرانی یا یہودی کا قتل ہو جاتا ہے تو پوری عیسائیت و یہودیت اس کی حمایت میں اُٹھ کھڑی ہوتی ہے لیکن دنیا کے اکثر خطوں میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے مگر مسلمانوں کی بے حسی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ ایک عرصہ سے فلسطین و افغانستان اور چیچنیا و عراق نیز لبنان میں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے اور مسلم حکمراں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
چوتھا سبب:اقتصادی زبوں حالی ہے۔مجموعی طور پر مسلم دنیا کی اقتصادی حالت نہایت کمزور ہے۔ جو ترقی کیلئے اہم رکاوٹ اور ذلت و خواری کا سبب بنی ہوئی ہے۔ حالت یہ ہے کہ دنیا کی آدھی سے زیادہ دولت تو یہودیوں کے قبضہ میں ہے اور اس میں سے آدھی سے زیادہ نصارٰی کے پاس ہے اور پھر بقیہ دولت میں قوم مسلم و دیگر قومیں مشترک ہیں۔
پانچواں سبب:سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ہماری پسماندگی ہے۔ مسلم دنیا میں سوائے چند کے نہ تو کوئی ماہر سائنس ہے اور نہ علمی دانشگاہیں۔ حالت یہ ہے کہ آج تنہا جاپان میں جتنی یونیورسٹیاں ہیں پوری مسلم دنیا میں اتنی نہیں۔ کیا یہ مسلمانوں کے علم سے بے توجہی نہیں ؟
چھٹا سبب:صنعت و حرفت میں مسلم دنیا کا پیچھے رہ جانا۔ آج جتنے بھی ممالک اپنی ترقی پر نازاں اور معاشیات پر خوش ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہ صنعت و حرفت میں پیش پیش ہیں۔ مگر مسلم ممالک اس میدان میں بھی بہت پیچھے ہیں۔
ساتواں سبب:مسلمانوں اور یہود و نصارٰی کا باہمی اختلاط ۔حضرت عمر فاروق اعظم ؓ کے مبارک عہد میں مسلمانوں نے یروشلم پر اپنا علم فتح بلند کیا۔ آپ نے وہاں کے لوگوں کیلئے ایک پالیسی مرتب فرمائی۔ جس میں دیگر امور کے علاوہ یہودیوں سے عدم اختلاط کا معمولی اظہار بھی تھا۔ لیکن زمانے نے کروٹیں بدلیں مسلمانوں نے حدیث رسول ’’اخرجوا لیھود والنصاری من جزیرۃ العرب‘‘ کو فراموش کردیا اور’’علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین‘‘ پر عمل پیرا نہ ہوئے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 1948ء میں یروشلم میں ایک ظالم ریاست اسرائیل کے نام سے وجود میں آئی۔ جس نے 1967ء میں مسلمانوں کے قبلۂ اول کو ان کے ہاتھوں سے چھین لیا اور مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہنے لگیں۔
جس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اس وقت ہم مسلمانوں کو چاہئے کہ ہم اپنے اپنے اعمال کا محاسبہ کریں، کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری کوتاہیوں اور بد اعمالیوں کی وجہ سے ہم پر یہ مصیبتیں آ رہی ہیں، کیا یہ سچ نہیں کہ ان کا اصل سبب ہم مسلمانوں کی بد اعمالیاں اور کوتاہیاں ہیں۔
یادرکھیے! اگر مسلمان احکام شریعت کے پابند ہو جائیں منہیات و منکرات سے اجتناب کریں اور مرضیات الٰہی پر عمل پیرا ہوجائیں تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت ان کو ختم نہیں کر سکتی، ہاں!زیادہ سے زیادہ کچھ نقصان ضرورپہنچا سکتی ہے، ایذا و تکلیف دے سکتی ہے، زندگی کے کچھ فوائد سے محروم کر سکتی ہے لیکن ان کو مٹا نہیں سکتی ہے۔
خلاصہ ٔ کلام یہ ہے کہ اپنے ملک میں پچھلے کچھ برسوں سے جو صورت حال چلی آرہی ہے،وہ انتہائی خوفناک و تشویش ناک ہے۔ اس لئے اس بحرانی صورتحال اور خوفناک مرحلے میں انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ غمزدہ انسانیت کی زحمت و غم کو بانٹ لیں، بھوکو کی خبرگیری کریں، فرقہ پرست طاقتوں سے اپنے آپ کودور رکھیں،اور ان کے ظلم وتشدد سے بچنے کی تدبیر اپنائیں، آپسی نفرتوں کو بالائے طاق رکھ کر پیار و محبت بانٹ لیں، رات کتنی ہی کالی کیوں نہ ہو صبح روشن ضرور ہونی ہے، اس لیے حالات کیسے بھی ہوں مسلمانوں کو بہت زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسےحالات میں صبر و استقامت کے ساتھ اپنا احتساب کریں اور اپنا جائزہ لیں اور ان پہلوؤں کو تلاش کریں جن میں خیر مخفی ہوں۔ انشاءاللہ العزیز فتح و کامیابی نصیب ہوگی اور دشمنان اسلام خود سرنگوں ہوکر تابعدار بن جائیں گے۔
اللّٰہ تعالیٰ ہم سبھی مسلمانوں کو حوادثات زمانہ سے محفوظ فرمائے۔آمین!
[email protected]>