پرویز احمد
سرینگر //عالمی یوم دماغ کے موقع پر ماہرین صحت نے مشورہ دیا ہے کہ لوگوں کو کسی بھی کام کیلئے ڈیڈ لائن پورا کرنے کے لیے کبھی بھی نیند کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، اور یہ کبھی بھی مناسب نہیں ہے کہ انٹرنیٹ پر رات کی اچھی نیند کے لیے وقت ضائع کریں۔دماغ کو بہتر طریقے سے کام کرنے میں مدد کے لیے7 گھنٹے کی نیند کا مشورہ دیتے ہوئے، انہوں نے خبردار کیا کہ مناسب نیند کی کمی دماغ سے متعلق مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ پوری نیند نہ کرنے کی وجہ سے لوگ نفسیاتی بیماریوں کے شکار ہورہے ہیں۔ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ ملکی سطح پر 55فیصد لوگ نیند کی کمی کی وجہ سے مختلف نفسیاتی اور جسمانی بیماریوں کے شکار ہورہے ہیں۔بھارت میںنیند نہ آنے کی وجہ سے 21فیصد لوگ صرف 4گھنٹے سو پاتے ہیں۔وادی میں نفسیاتی بیماریوں کی بڑی وجہ لوگوں کا پوری نیند نہ کرنا ہے۔ وادی میں 45.6فیصد لوگ نیندنہ آنے کی وجہ سے بے قراری اوردوران نیندسانس لینے میں تکلیف محسوس کرتے ہیں،ان میں 34.4فیصد موٹاپے کے شکار ہیں۔وادی میں نیند نہ آنے کے شکار 45فیصد میں سے 32فیصد بے قراری، 54فیصد جسم میںدرد،7فیصد بخار اور 5فیصد موٹاپے کے شکار ہوتے ہیں۔ پوری دنیا کے ساتھ ساتھ پیر کو وادی میں بھی دماغ کا عالمی دن منایا گیا اور اس سلسلے میں تقریبات کا اہتمام بھی کیا گیا ۔اس موقع پر ماہرین نے کہا کہ مقررہ وقت پر کام ختم کرنے کے چکر میںنیند کو نہیں کھونا چاہئے اور ہر ایک شخص کو کم از کم 7گھنٹے کی نیند کرنی چاہئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 45فیصد لوگ نیند کی کمی کے شکار ہیں اور اس کی بڑی وجوہات میں الیکٹرانک آلات کا زیادہ استعمال ،جنک فوڈ، غربت، ناکام رشتے اور نشیلی ادویات کا استعمال شامل ہیں۔اسکے علاوہ نفسیاتی بیماری بھی نیند نہ آنے کی وجہ ہے۔میڈیکل سائنسز صورہ کی ایک تازہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کم نیند کرنے کے عادی مریض نفسیاتی بیماریوں کے علاوہ ہارٹ اٹیک،جسم میں شدید درد، تھائرایڈ اور دیگر بیماریوں کے شکار ہوتے ہیں۔تحقیق کے مطابق متاثرین میں 53فیصد مرد جبکہ 46فیصد خواتین ہوتی ہیں۔ 20سے 35سال کے 24.7فیصد، 36سے 51سال کے 12فیصد، 52سے 67سال کے 39فیصد اور 68سال سے زیادہ عمر کے 24فیصد مریض ہوتے ہیں۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ان مریضوں میں شادی شدہ لوگوں کی شرح 85فیصد جبکہ غیر شادی شدہ لوگوں کی شرح 15فیصد ہے۔ تحقیق میں روزگار کی بنیاد پر کی گئی تقسیم کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ بے روزگاری سے متاثر 39فیصد،برسرروزگار لوگوں کی شرح 27فیصد، زیر تعلیم طلبہ کی شرح 8فیصد جبکہ گھریلوکام کرنے والی خواتین میں سے 26فیصد نیند نہ آنے اور اس سے متعلق مختلف بیماریوں کے شکار ہوتے ہیں۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ نیند نہ آنے اور اس سے جڑی دیگر بیماریوں کی شکایت کرنے والے لوگوں میں 71فیصد سگریٹ نہیں پیتے جبکہ سگریٹ نوشی کرنے والے افراد میں صرف 29فیصد لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ نیند نہ آنے کی بیماری سے متاثر 45فیصد افراد میں 34فیصد موٹاپے کے شکار ہوتے ہیں۔ اس تحقیق کے مرکزی تحقیق کار اور سکمز میں شعبہ میڈیسن کے پروفیسر ڈاکٹر مدثر قادری نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’کشمیر میں نیند کی کمی اور اس سے جڑی بیماریوں میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد مبتلا ہے۔ انہوں نے کہا ’’ ان مریضوں کی شرح 45فیصد سے زائد ہے لیکن یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس کا علاج و معالجہ نہیں کرتے اور نہ ہی کسی سے اس بارے میں ذکر کرتے ہیں‘‘ ۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر بڑوںمیں گھریلوپریشانی، کام کا دبائو اور سیاسی صورتحال ، ذہنی دبائو کی وجہ بنتی ہے جو بعد میں لوگوں کی نیند کم ہونے کا باعث بنتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنک فوڈ ،الیکٹرانک آلات کا بے تحاشہ استعمال، موٹاپا اور بلڈ پریشر، شوگر اور دیگر بیماریاں نیند نہ آنے کا موجب بنتی ہیں۔