معراج الدین مسکینؔ
خدا نے انسانوں کو اس لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ ہر وقت عبادت ہی کرتے رہیں بلکہ انسان کو انسانیت کی خدمت کرنے کے لئے پیدا کیا ہے۔ ہاں!عبادت بھی ضروری ہے، اس سے ڈسپلن پیدا ہوتا ہے اور انسان کا اخلاق بلند ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اگر کوئی انسان خدا کی مخلوق سے پیار کرتا ہے تو خدا ایسے بندوں کو زیادہ پیار دیتا ہے۔چنانچہ اس دنیا میںہر شخص جب ہوش سنبھالتا ہے تو وہ اپنے مستقبل کے بارے سوچنے لگتا ہے۔لیکن بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو امیر ہونے کی خواہش رکھنے کی بجائے یا اچھا گزارہ کرنے کے ساتھ ساتھ انسانیت کی خدمت کا جذبہ اپنے دل میں رکھتے ہیں۔ خدا کس شخص کو کس حال میں رکھتا ہے یہ تو خدا ہی جانتا ہے مگر ہر کوئی یہی چاہتا ہے کہ بڑا ہو کر زندگی میں کوئی ایسا پیشہ اختیار کروں، جس کی بدولت ساری عمر باعزت روٹی بھی کما سکوں اور انسانیت کی سیوا بھی کرسکوں۔حالانکہ انسان کی سرشت میں دانائی کی نسبت حماقت زیادہ بھری ہے،کے باوجود کسی بھی پیشے سے منسلک ہوکراگرانسان خدا کی حرام کردہ روزی سے بچتا رہے گا تو عابد ہوجائے گا،اگر خدا کی تقسیم کی ہوئی روزی پر قانع اور راضی رہےگا تو غنی ہوجائے گا ، اگر اپنے رشتہ داروں،احباب اور ہمسایوں سے نیکی اور احسان کرتا رہے تو پُر سکون وسلامت رہے گا اور اگر دوسرے لوگوں کے ساتھ بہتر سلوک کرے گا تو منصف ہوجائے گا۔ظاہر ہے کہ انسان مخلوط ہے،جو خیر بھی رکھتا ہے اور شَر بھی،جس پر خیر غالب ہو ،وہ فرشتوں سے جا لاحق ہوتا ہے اور جس پر شَر غالب ہو،وہ شیطان بن کر خلقت کی ناراضگی اور دنیا کی امارت کے عوض اپنی آخرت بُرباد کرتا ہے۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایک باہوش انسان ہر بَلا کو پیش بینی سے دیکھتا ہے اوراسے محفوط رہ کر اپنی جان کی نگہبانی کرتا ہے جبکہ نادان اس کے پاس سے گذرتا ہے اور سزا پاتا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دنیا میں نیکی اور بھلائی کرنے کے برابر اور کوئی کام نہیں ہے۔ نیکی اور خیر خواہی میں دنیا اور دین دونوں کی بھلائی ہے۔ روحانی اور جسمانی راحت کا سامان نیکی میں ہی پوشیدہ ہے۔ بغیر بدلہ کے دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنا احسان کہلاتا ہے اور اسی وجہ سے انسان کو اشرف المخلوقات سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ انسان میں احسان کا جذبہ قدرت نے پیدا کیا اور قدرت نے انسان کو احسان کرنے کی تعلیم دی ہے۔ زمین ہمارے لئے روزی پیدا کرتی ہے اور تارے، چاند اور سورج ہمیں روشنی اور گرمی عطا کرتے ہیں، سورج اور چاند سبزیوں اور پھلوں میں رَس پیدا کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ خدانے انسان کی بھلائی کے لئے پیدا کئے ہیں اور اس کا بدلہ وہ انسان سے کچھ نہیں چاہتا۔ اس لئے ہم لوگوں کے لئے مناسب ہے کہ ہر ایک کے ساتھ بھلائی کریں۔کیونکہ دنیا میں احسان کرنے سے اچھا اور کوئی کام نہیں۔ انسان اور بندے کو احسان کی وجہ سےفلاحی اور قربتِ خدائی حاصل ہوتی ہے اور خدا چاہتا ہے کہ ہم لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی ،نیکی اور احسان کریں۔ خدا کے بندوں سے نیکی کرنا خدا کو بہت پسند ہے۔ جس سے یہ بات ظاہرہوجاتی ہے کہ بندوں سے محبت کرنے والے دین اور دنیا میں فلاحی پاتے ہیں۔
اسی طرح سچ بولنا بھی انسان کی ایک صفت ہے جو انسان میں جرأت، ہمت، کردار، حوصلہ اور بہادری کے جذبات پیدا کرتا ہے۔جھوٹ بولنا نہ صرف گناہ ہے بلکہ ایک اخلاقی جرم بھی، یہ جرم قومی اور سماجی لحاظ سے بھی بہت بُرا ہے۔ جھوٹ بولنے والے کا اعتبار سماج اور قوم میں نہیں ہوتا۔ دیکھا گیا ہے کہ جھوٹ بولنے والے سماج اور معاشرے میں قابل اعتماد نہیں ہوتے، وہ کتنا ہی سچ کیوں نہ بولیں ، لوگ ان پر بھروسہ نہیں کرتے کیونکہ لوگوں نے ان کو آزما لیا ہوتا ہے۔ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ میرا جھوٹ کسی کو معلوم نہ ہو گا ، وہ سخت غلطی میں ہے۔ یاد رہے کہ سچائی زبان کا جوہر ہے۔ جو سچ بولتا ہے اس کا دل پاک و صاف ہوتا ہے۔ عاجزی، انکساری وغیرہ اچھے اوصاف کی وجہ سے وہ ایک معزز اور باعزت شخص تصور کیا جاتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اگر سچ بولنے والے کی خواہش بُرے کام کی طرف ہو تو اسے ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ اگر کہیں مجھ سے کوئی شخص پوچھ بیٹھے تو مجھے سچ ہی بولنا پڑے گا۔ اس لئےبُرا خیال آتے ہی وہ اس کام سے باز آجائے گا۔بہت سے لوگ تو ظاہراً سچے معلوم ہوتے ہیں مگر باطن میں وہ ویسے نہیں ہوتے۔ اس طرح سچ کے پردہ میں جھوٹ کو چھپانا بھی سخت گناہ ہے۔اس کے علاوہ جس بات کے کہنے سے کوئی فتنہ پیدا ہو، خواہ وہ بات سچ ہی ہو، اسے کہنا غیر مناسب ہے۔ اس لئےاگر ہم لوگ چاہتے ہیں کہ ہمیشہ سچ بولیں تو ہمیں چاہئے کہ خدا سے ڈرتے رہیں اور اُسے ہمیشہ حاضر اور اپنے اعمال کا ناظر سمجھیں کیونکہ وہ ہر جگہ موجود ہے ۔
دورِ حاضرمیں اب اگرعوامی خدمت کے لیے کچھ لوگ سیاست کو ترجیح دیتے ہیں،تو اس میں کوئی بُری بات نہیں،بشرطیکہ وہ سیاست گری کے دوران اپنے دِل میں خوفِ خدا رکھ کر ایمانداری سے کام کیا کریں۔جھوٹے وعدوںسے باز رہیں اوراتنی ہی باتیں کریںجتنا کام وہ کرسکیں۔شاید ایسا کام صرف وہ لوگ ہی کر سکتے ہیں ، جو امیر ہوں،جن کے پاس اپنی جائیداد ہو یا جن کا کوئی کاروبار چل رہا ہو کیونکہ ایماندارانہ سیاست میں آمدنی کی کوئی گنجائش نہیں۔عموماً یہی دیکھا گیا ہے کہ جب عام آدمی سیاست میں آجاتا ہے تو وہ اپنا گھر چلانے کے لیے لوگوں سے روپیہ بٹورنا شروع کردیتا ہے۔ روپیہ لے کرلوگوںکے کام کرواتا ہے اور غریب ضرورت مند وں کے کام نہیں آتا۔ اس طرح سیاست تجارت بن جاتی ہے اور اس کے ذریعے انسانیت کی خدمت نہیںکی جاتی۔اسی طرح ڈاکٹری پیشہ پر نظر ڈالیں تو یہ ایک مقدس پیشہ ہے ۔اگر ڈاکٹر لالچ کے بغیر عوامی خدمت کا جذبہ رکھے تو وہ انسانیت کے لیے بہت کچھ کرسکتا ہے۔ بعض ڈاکٹر ایسے ہیں جو امیروں سے تو پوری فیس وصول کرتے ہیں اور غریب ضرورت مندوں کو دوائی بھی مفت دے دیتے ہیں ،ایسے لوگ واقعی انسانیت کی خدمت کرتے ہیں۔اب اگر تجارت کی بات کریں توتجارت کے پیشے میں عزت بھی ہے اور آمدنی بھی ۔ آدمی ایمانداری کے ساتھ کافی پیسہ کما سکتا ہے۔ یہ بھی دیکھاگیا ہےکہ بیشترکاروباری لوگوں نےاپنی محنت، شرین زبانی اور ایمانداری کی وجہ سے اپنا کاروبار چمکایا ہے اور لاکھوں روپیہ کمایا ہے۔ جس کسی خوش قسمت انسان کی دوکان کسی مصروف بازار یا بس اڈےپر ہو تو اُس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ مگر ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ دوکاندار کاسارا دن کام میںہی صرف ہوجاتاہے۔اگر وہ ناجائز منفعت پرستی سے کام نہ لے اور خیرات کے ذریعے عوامی بھلائی کے کاموں میں اپنا حصہ ڈالے تووہ انسانیت کی خدمت کرتا ہے۔
یہی حالت کارخانے والوں کی ہے۔ انہیں تو گھر آ کر بھی آرام کرنے کی فرصت نہیں ملتی۔ ایک کامیاب کارخانہ دار بھی عوامی بھلائی کے لئے چندہ وغیرہ تو دے سکتا ہے مگر بذات خود کسی تحریک میں حصہ نہیں لے سکتا۔تاہم یہ بھی دیکھا جارہا ہے، دکانداروں ،تاجروں اور کاروباری حلقوںکی ایک خاصی تعدادکی بے لوث عوامی خدمات سے جہاں عوام کے ساتھ سے اُن کا ناطہ ا ٹوٹ رہتا ہے، وہیںوہ کسی نہ کسی صورت میں سماج سے جُڑے رہتے ہیں۔
ایک پیشہ ، ادیب کا پیشہ ہے۔ ادیب اپنی قلم کے ذریعے لوگوں کے حق میں آواز بلند کرسکتا ہے، وہ سوشل کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے، اپنی تحریروںسے لوگوں کو متاثر کرتا ہے، سماج میں نئی روح پھونکتا ہے۔ مگرہمارے یہاں بیشتر لوگوں میں دوسرے ترقی پذیر دیشوں کی طرح ادب پڑھنے کا شوق نہیں بڑھا ہے۔ بہت کم لوگ ہی کتابیں پڑھتے ہیں اور ان میں بھی ایک خاصی تعداد اُن لوگوں کی ہے جو مانگ کر کتابیں پڑھنے کے عادی ہیں۔جب تک ہمارے یہاں پڑھنے کا شوق نہیں بڑھتا اور لوگ کتابیں خریدنا شروع نہیں کرتے تب تک یہاں کے ادیب کی مالی حالت اچھی نہیں ہو سکتی۔ادیب صرف اپنی قلم کے سہارے زندہ نہیں رہ سکتا ۔
اسی طرح اخبار نویس کا بھی عوام کے ساتھ سیدھا تعلق ہوتا ہے۔چھ سات گھنٹے کی ڈیوٹی دینے کے بعد اخبارنویس آسانی سے عوام میں جاکر ان کے حالات سے واقف ہو کر دوسرے دن ان کی مشکلات بارے اخبار میں لکھ کر حکومت اور سماج کو مجبور کر سکتا ہے کہ وہ عوام کی تکلیف کی طرف دھیان دیں یا کسی فرد واحد کی مشکل حل کریں۔
الغرض ہر دور میںخدمت ِخلق کے کاموں میں مصروف رہنے والوں کو تحقیر و تحسین کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے اور آج بھی ایسے لوگوں کو عزت کی جاتی ہے جن کے پاس پیسہ ہو اور سماج میں اثر ونفوز ہو۔
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)