مشتاق تعظیم کشمیری
اللہ تبارک وتعلیٰ قران شریف میں سورة آل عمران میں ارشاد فرماتاہے،’’ اے ایمان والو!اللہ تعالیٰ سے ڈروجیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہر گز نہ مرنا مگر مسلمان۔‘‘اور اسی طرع اور ایک جگہ سورة نساء میں ارشاد فرماتاہے،’’کہ ہم تم میں سے پہلےاہل کتاب کو بھی اور تمہیں بھی یہی تاکید کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو‘‘ ،ایک اور مقام پر فرمایا:اگر تم اللہ سے ڈروگے تو وہ تمہیں حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی بصیرت عطا فرما دے گا اور تم سے تمہاری برائیاں دور کر دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا فضل والا ہے۔‘‘
تقویٰ و خوف ِالٰہی کی خوبی انسان کو اللہ رب العزت کے بہت زیادہ قریب کر دیتی ہے،ان کے علاوہ اللہ رب العزت نے اور بھی بہت سی آیتوں کے ذریعہ اپنے بندوں کو خوف ِالٰہی و خشیت ِربانی اپنے دلوں میں پیدا کرنے کا تاکیدی حکم فرمایا ہے۔بلا شبہ خوف خدا وہ نیک اور مقبول عمل ہے کہ جس دل میں پیدا ہوجاتا ہے، وہ دل نیکی اور تقویٰ کا مرکز بن جاتا ہے اور وہ شخص ہر قسم کے گناہ و بُرائی سے دور اور محفوظ نظر آنے لگتا ہے، اور یہ خوف خداوندی ہی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ جسم کے تمام اعضاء یعنی آنکھ ،کان ،زبان،ہاتھ ،پیر اور دل و دماغ سب کے سب نیک اور اچھے کاموں میں مشغول نظر آتے ہیں۔یہ خوف خدا کے برکات و حسنات ہوتے ہیں کہ آنکھ برائی نہیں خوبی اور بھلائی دیکھتی ہے ،دل و دماغ بُرا اور خراب نہیں بلکہ بھلا اور اچھا سوچتے دیکھائی دیتے ہیں ،ہاتھ اور پیر گناہ و ظلم کے راستے پر چلنے کے بجائے نیک اور حق و سچ کے راستے پر چلتے نظر آتے ہیں،حاصل کلام یہ ہے کہ جب آدمی اپنے دل میں خوف خدا پیدا کرلیتا ہے اور اللہ سے ڈرنے لگتا ہے تو ہر قسم کے گناہ اور بُرائی سے محفوظ ہو کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں محبوب و مقبول بن جاتا ہے۔ خوف خدا کا انعام و اکرام بڑا عظیم ہوتا ہے، ہر نیک کام کا بڑا بہتر اجر اور بدلہ ہے، دنیا میں خیرو برکت، آخرت میں عزت و عظمت اور نجات و بخشش اور پھر جنت کی نعمت حاصل ہوتی ہے ۔ حدیث شریف میںنبی کریم ؐ کا فرمان ہے،’’ جب کسی بندے کا دل خوف الٰہی سے کانپتا ہے تو اس کے گنا ہ اس سے ایسے جھڑ جاتے ہیں جیسے درخت سے اس کے پتے جھڑتے ہیں‘‘ (احیاء العلوم ) حضرت ابو ہریرہؓ بیان فرماتے ہیں کہ محبوب خداؐ نے فرمایا،’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہےکہ مجھے اپنی عزت کی قسم میں اپنے بندوں پر دو خوف اور دو عمل اکٹھے نہیں کروں گا،یعنی اگر وہ مجھ سے دنیا میں خوف رکھے گا تو میں اس کو قیامت کے دن امن میں رکھوں گا اور اگر مجھ سے دنیا میں بے خوف رہا تو میں اس کو قیامت کے دن خوف میں مبتلا کروں گا۔‘‘خوف خدا سے رونے والے پر دوزخ کی آگ حرام ہے۔بروزِ قیامت ایک شخص کو لایا جائے گا، جب اس کے اعمال تولے جائیں گے تو بُرائیوں کا پلڑا بھاری ہوجائے گا ،چنانچہ اسے جہنم میں ڈالنےکا حکم ملے گا اس وقت اس کی پلکوں کا ایک بال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرے گاکہ اے رب العزت !تیرے پیارے رسولؐ نے فرمایا تھا:’’جو شخص اللہ تعالیٰ کے خوف سے روتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کی آگ کو حرام کردیتا ہے ،اور میں تیرے خوف سے رویا تھا ،اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا:اس شخص کو ایک اشکبار بال کے بدلے جہنم سے بچالیا جائے،اُس وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام پکاریں گے: ف’’لاں بن فلاں ایک بال کے بدلے نجات پا گیا‘‘ (مکاشفتہ القلوب ) اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان کی توفیق عطا فرمائے اور ہر وقت بُرے کاموں سےبچنے کے لئےدل میں خوف خدا پیدا کرے۔ آمین