معراج الدین مسکینؔ
انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ زمین پر آدم ؑکے آتے ہی حق و باطل کی معرکہ آرائی کا بھی آغاز ہوا ہے اور حق ہمیشہ سے باطل کی دشنام طرازیوں ،ستم ظریفیوں ،طعنوں اور تنقیدوں کا شکار رہا ہے۔آج سے چودہ سو سال پہلے یہودی اور عیسائی علماء حق کے بجائے حسد کی راہ میں آخری حد تک چلے گئے ،انہوں نے اپنے پیرو کاروں کو نئے دین اور اُس کے نبی ؑ کے خلاف چھوٹے اور مکروہ پروپیگنڈے کرکے خوب بھڑکایا، یہاں تک کہ خوفناک جنگوں تک بات جا پہنچی ۔اگر دل حسد اور خود پرستی سے پاک ہوتے تو دنیا کو اُن جنگوں کی کیا ضرورت تھی۔آج بھی تمام اسلام مخالف طاقتیں بیدار ہیں اور اس دین ِ حق کے درپے ہیں ۔پورا بین الاقوامی میڈیا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف برسر پیکار ہے۔ہزاروں یہودی وعیسائی مشینریاں رات دن کروڑوں ڈالر صَرف کرکے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے میں ہمہ تن مشغول ہیں ۔ریڈیو ،ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا کے سہارے کبھی مسلمانوں کو بنیاد پرست جیسے اعزاز سے نوازا جارہا ہے تو کبھی دہشت گرد کا لقب دیا جارہا ہے ۔ایسے لفظوں کا مطلب سمجھے بغیر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلاکر جہاں اُن پر ظلم وستم ڈھایا جاتاہے،خون بہایا جاتا ہے وہیں دین ِ اسلام کو نشانۂ تنقید بنانے اور اسے بدنام کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا ہے۔
بے شک دین کے معاملے میں جب تک ایک مسلمان اسلام کے بنیادی اصولوں پر قائم نہیں رہتا تب تک وہ ایک صحیح مسلمان ہو ہی نہیں سکتا ہے۔اس لحاظ سے غیر مسلموںکی طرف سے اُسے بنیاد پرست جیسا لقب ملنے پررنجدہ نہیں ہونا چاہئے نہ ندامت یا کوئی شرم محسوس کرنی چاہئے ۔رہا سوال ایک مسلمان کا دہشت گرد ہونے تو کا یہاں بھی اسلام سے ناواقف ہونے کے سبب غیر مسلم دھوکہ کھا جاتے ہیں ۔دہشت گرد وہ ہے جو معاشرے یا معاشرے سے باہر دہشت پھیلاکر لوگوں کے دلوں میں ڈر اور خوف پیدا کرلے۔اسلام کہتا ہے کہ انسان کے ساتھ اگر ظلم ہوتا ہے اور وہ اُسے دور کرسکتا ہے تو اس پر صبر کرنا جرم اور اس پر رضا مند ی گناہ ہے۔اب کیا وہ شخص دہشت گرد کہلائے گا جو اپنے ساتھ ہورہی حق تلفی اور اپنے اوپر ہورہے ظلم و ستم کو روکنے میں مصروف ہو یا وہ شخص دہشت گرد ہے جو زور و زبردستی اور طاقت کے بل بوتے پر کسی کے گھر میں گھُس کر اُس کے سیاہ و سفید کا مالک بن جانے پر بضد ہو ؟
مغربی میڈیا ،ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے علاوہ آج کل بے شمار اخبارات ،رسالے اور میگزین بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلنے میں پیچھے نہیں ہیں ۔ایک عام خیال ہے جو غیر مسلموں کے ذہنوں میں جونک کی طرح چِپک کے رہ گیا ہے کہ اسلام بزورِشمشیر پھیلاہے ،حالانکہ صدیاں گزرجانے کے باوجود وہ اس کی ایک بھی مثال پیش نہیں کرسکتے ہیں ،اگرواقعی ایسا ہوتا تو روئے زمیں پر مسلمانوں کے سِوا کوئی اور قوم ہوتی ہی نہیں ۔صدیوں تک ہندوستان پر حکومت کرنے کے باوجود جن مسلمانوں نے کبھی اس ملک کا نام بدلنے کی نہ سوچیں، وہ بھَلا تلوار کے ذریعے اپنے دین کو کیسے پھیلا سکتے کہ اُن کے لئے اللہ کا واضح حُکم ہے کہ دین میں کوئی زور ززبردستی نہیں ہے۔
بہر حال اسلام اور مسلمانوں کے خلاف آج کل بین الاقوامی میڈیا جس طرح کا کردار نبھا رہا ہے، اس میں اگر چہ وہ معذور ہیں کہ وہ اس دین ِ حق اور اس کی تعلیمات میں بالکل کورے ہیں مگر اسلام اور مسلمانوں کے تئیں وہ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرنے میں کچھ حق بجانب بھی ہیں کیونکہ آج کے مسلمان خود اسلامی تعلیمات کی راہ میں بُری طرح حائل ہیں۔آج اسلام کو بہت سے چلینج درپیش ہیں لیکن بیرونی چیلنجوں سے کہیں زیادہ اندرونی چیلنج مہلک ثابت ہورہے ہیں ۔ہم مسلمان دنیا کے سامنے کیا پیش کررہے ہیں؟باہمی رحم و محبت صرف تقریروں کی چیزبن کر رہ گئی ہے ۔موروثی طور پر ہم مسلمان ہیں لیکن عمل و فکری اعتبار سے اسلام سے دور دور نظر آتے ہیں ۔ہم عالمی دعوت کے علمبردار ہیں لیکن اپنی حدوں سے آگے نگاہ دوڑا نے کی زحمت ہی نہیں کرتے ،نہ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ دنیا کی دیگر قومیں کسی طرح زندگی گذار رہی ہیں۔صدیوں سے ہمارے اغیار ہمارے ماضی کی چھان بین کررہے ہیں، ہمارے حال و مستقبل پر غور و فکر کررہے ہیں اور وہ ہماری ایک ایک چیز سے واقف ہیں اور ہم ہیں کہ جہالت کے سمندر میں غوطے کھا رہے ہیں ،دنیا میں کیا کیا تبدیلیاں آرہی ہیں،یا تو ہم اُن پر غورو فکر کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے یا پھر ہمیں کچھ پتہ نہیں ۔تمام اسلام مخالف قومیں بیدار ہیں ،اُن کے پاس زبردست فوجی طاقت ہے اور مسلمان خواب غفلت میں پڑے ہوئے آپسی تنازعات اور انتشار کے ذریعے اُن کے لئے مزید آسانیاں فراہم کررہے ہیں۔دنیاوی امور میں غفلت و ناکامی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ آج یہ امّتِ مسلمہ دوائوں سے لے کر دفاعی آلات تک ایک ایک چیز میں دوسروں کے محتاج ہیں اور خود دینی امور میں ہماری بے حسی اپنی آخری حدوں کو چھُو رہی ہے ۔عبادات اور چند معاملات میں روائتی نقالی اور غیر اہم چیزوں پر ساری توجہ دینے کے علاوہ کچھ بھی ظاہر و نمایاں نہیں ہوتا ۔مسلمانوں کی نئی نسلوں کو بس اسلام کے نام سے واقفیت تو ہوجاتی ہے لیکن اسلام کی روح اور حقیقت سے انہیں دور رکھا جارہا ہے۔اسلامی نظام ناپید ہے۔اسلامی معیشت کا کہیں بول بالا نظر نہیں آتا اورمسلم علاقے پسماندگی میں تیسری دنیا میں شمار کئے جاتے ہیں ۔ذرا غور کریں کہ ہم نے ایسا معاشرہ تعمیر کرنے کی کتنی کوشش کی ،جس میں عہد کی پاسداری ،امانت داری اور قول و عمل میں یکسانیت کا بول بالا ہو؟پھر کچھ عادتیں بالکل حُکمِ خداوندی کی مخالفت پر مبنی ہیں، مثلاً شادیوں میں نمود و نمائش کے لئے اسراف ِ بے جا نے تو ہماری شادی تک کو دشوار بنادیا ہے۔منشیات کااستعمال،خاندانی جھگڑوں،بے راہ روی میں درجہ بہ درجہ اضافہ ہورہا ہے۔ پُرانے مذاہب اسی طرح افراط و تفریط کے سبب زوال کا شکار ہوئے تھے کہ کبھی وحی ِ الٰہی میں بھی اپنی خواہش کے مطابق حذف و اضافہ کیا گیا اور کبھی کبھی احکامات پر عمل ہی معطل کردیا گیا ۔آج ہم جس دورسے گذررہےہیں، اس کامحل وقوع ہمارااپنا بنایاہواہے۔ ہماری غلطیاں، کوتاہیاں، بُرائیاں، خرابیاں، بےایمانیاں ہماری حرص و ہوس و خطائوں میں روزافزوں اضافے کی کوئی فکر ہی نہیں، اور نہ ہی اللہ تعالی کی عطاکردہ نعمتوں کا ہم کواحساس ہے،اسراف ہماری عادت ثانیہ بن چکی ہے۔یوں توصدقات وزکوٰ ۃ کی ادائیگی کامعاملہ اور مروت کے کام غنیمت ہیں، لیکن طریقہ کاراور ہد ف کے تعین میں خامیاں ہیںگویا ہماری ترجیحات غلط ہیںیا شرعی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔جوچیزاسلام کومطلوب ہی نہیں ، اس میں ضر ورت سےزیادہ توانائی صرف کرناہماراشیوہ بن گیاہے۔ایک بد قسمتی یہ بھی ہے کہ ہم ایمان تو ضرور اللہ کے اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر رکھتے ہیں، لیکن عمل اپنے اپنے امام کی بنائی ہو ئی شریعت پر کرتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں یہ قوم مسلکی خانوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے دینی بھائی کے بجائے دینی دشمنی بن گئے ہیں ۔تاہم مسلمانوں کی خوش نصیبی ہے کہ اُن کی کتاب خدا کے فضل و کرم سے محفوظ ہے اور یہ بھی خوش بختی کی بات ہے کہ اسلامی ارکان اور بنیادی چیزوں پر مکمل اتفاق بھی ہے ۔
بہرحال کیا لکھا جائے،حالات سنگین ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اب مسلمانوں کو اپنے عمل سے اپنے دین کو عام انسانی ،اخلاقی معیار سے بلند تر ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی ورنہ مسلمان اسلام پر بوجھ بنتے جارہے ہیں اور جب تک وہ قرآن و سُنت کے ساتھ انصاف نہیں کرتے اور صدیوں سے جاری اپنی جہالت اور فکری انتشار کو ختم نہیں کرتے ،اُنہیں زندہ رہنے کا حق بھی حاصل نہیں ہوسکتا ۔
بے شک اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس کے بارے میں گفتگو کرنا اور اُس کی تشریح و توضیع کرنا کسی مخصوص طبقے کی اجارہ داری نہیں ہے ،البتہ اتنا ضرور ہے کہ جو لوگ کافی مطالعہ کرچکے ہیں اور فکری و روحانی کُشادہ ذہنی سے بہرہ اندوز ہیں، وہی اس کے اہل ہیں اور اسی کے ساتھ سچے دل سے عمل بھی ضروری ہے کیونکہ وہی انسان لوگوں کے مسائل اور امراض کا حل پیش کرسکتا ہے جو خود اپنے مسائل کا حل کرچکا ہو اور دینی حقائق کے ساتھ اپنے امراض کا علاج کرچکا ہو۔انسانوں کی بہت بڑی تعداد آج بھی اسلام سے دور ہےاور اس کی تعلیمات سے قطعی ناواقف ہے۔ اسلام فطرت کی نمائندگی کرتا ہے اور حضرت محمد ؐ نے اُسے واضح طور پر دنیا کے سامنے پیش کردیا ہے،یہ دین حضرت موسی ٰ ؑ و حضرت عیسیٰ ؑ کا موئد ہے جن کی تعلیمات کو یہودیوں اور عیسائیوں نے پامال کر ڈالا۔اسلام ہر اُس انسان کا تائید کرتا ہے جو اوہام و خرافات چھوڑ کر واضح ایمان اور صالح اعمال کے ذریعہ اللہ کی طرف گامزن ہونے کا فیصلہ کرے۔اسلام ہی ایک جامع نظام ہے جو زندگی کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتا ہے چاہے وہ مُلک و قوم سے متعلق ہوں یا حکومت سے ،اخلاق و عادات سے متعلق ہوں یا رحم وانصاف سے ،تہذیب و قانون سے متعلق ہوں یا علِم و سائنس سے ۔اگر اسلام رونما نہ ہوا ہوتا توبہت سے حقائق اور فضیلت کی باتیں ناپید ہوگئی ہوتیں اور انسانیت وحشی درندوں کا ایک ریوڈ بن گئی ہوتی۔الغرض اسلام دین ِ فطرت ہے ا ور زندگی کے مختلف پہلوئوں سے متعلق اس کی تعلیمات فطرت ِ سلیمہ اور صحت مندانہ نظریات کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں۔ اس کے اصول و ضوابط انسان کو درجۂ کمال تک پہنچانے اور اُسے سکون و اطمینان میسر کرنے کے لئے ہی ہیں۔فطرت کے تعلق سے اختلاف ِ رائے ہوسکتا ہے ،یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنی طبیعت کے مطابق کسی چیز کو اچھا قرار دے اور کوئی اپنی طبیعت کے مطابق بُرا ،مگر فطرت کا لفظ جب بھی بولا جائے گا ،اس سے مُراد فطرت ِ سلیمہ ہی ہوگی۔اگر اس میں کوئی خرابی دَر آئے تو اُسے قابل لحاظ نہیں سمجھا جائے گا ۔فطرت میں جو بھی نقص لاحق ہوگا وہ شاذ سمجھا جائے گا، اس پر چُپ رہنے اور نہ ماننے کے بجائے اُسے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ہاں!جو لوگ ذہنی و نفسیاتی طور پر صحت مند ہوں ،کامل طبیعت اور معتدل مزاج رکھتے ہوں،اُنہی کی بات سُنی اور مانی جائے گی ورنہ ذہنی و نفسیاتی امراض کے شکار لوگ فطرت ِ سلیمہ کی مثال نہیں بن سکتے اور اُن کے فیصلوں اور آراء کو قبول نہیں کیا جاسکتا ،چاہے وہ بزعمِ خود فطرت کے تقاضوں کے مطابق بات کرنے کا دعویٰ ہی کیوں نہ کریں،کیونکہ علم کی قوت جب حد سے بڑھ جاتی ہے تو مکاری اور بسیار دانی پیدا کرتی ہےاور جب ناقص ہو، حماقت اور ابلہی پیدا کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔