پرویز احمد
سرینگر //پچھلے 2سال کے دوران وادی میں خودکشی کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی بڑی وجہ لوگوں کا بڑی تعداد میں ذہنی بیماریوں کا شکار ہونا ہے۔ گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر کے شعبہ نفسیات میں تعینات طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ روزانہ او پی ڈی میں علاج و معالجہ کیلئے آنے والے 250مریضوں میں 150 ذہنی دبائو کے شکار ہوتے ہیں اور ان میں60فیصد ایسے ہوتے ہیں جن میں خودکشی کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ خودکشی کی خواہش پیدا ہوناایک ذہنی بیماری ہے اور اس کو علاج سے ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔ ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ گھریلو تشدد میں اضافہ، نشیلی ادویات کے استعمال اور امتحانات میں بہترین کارکردگی کیلئے بچوں پر والدین کے دبائو سے خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ جی ایم سی سرینگرمیں شعبہ نفسیات کے پروفیسر یاسر احمد راتھر نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ پچھلے تین سال کے دوران عالمی وباء کی وجہ سے خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ لوگ بے روزگار ہونے کی وجہ سے مالی مشکلات کے شکار ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مالی مشکلات کے شکار ذہنی دبائو کا شکار ہوتے ہیں ، جو خود کشی کرنے پر تل جاتے ہیں۔
ڈاکٹر یاسر نے بتایا ’’عالمی وباء کے دوران لاک ڈائو ن کی وجہ سے گھریلوتشد د اور نشیلی ادویات کے استعمال میں اضافہ کی وجہ سے خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ڈاکٹر یاسر نے بتایا ’’ پچھلے 2سال کے دوران خواتین کے خود کشی کرنے کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے جس کی بڑی وجہ گھریلو تشدد میں اضافہ تھا ‘‘۔انہوں نے کہا کہ سکول اور کالج اور دوسرے مقابلوں کے امتحانات میں حصہ لینے والے طلبہ و طالبات پر بہترین کار کردگی کیلئے گھریلو دبائو بھی خودکشی کی وجہ بنتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خودکشی کے واقعات میں کمی کرنے کیلئے ذہنی بیماریوں میں مبتلا لوگوں کو بلاکسی شرمندگی کے اپنا علاج و معالجہ کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا” خود کشی کے واقعات کی میڈیا میں رپورٹنگ اور بچوں کوامتحانات میں ناکامی کے دوران اہلخانہ کی مدد اور حوصلہ افزائی سے ان واقعات میں کمی کی جاسکتی ہے۔