سرینگر//گورنر این این ووہرا نے کل ایک میٹنگ کے دوران مختلف ٹیکا کاری پروگراموں ، میزلز روبیلہ مہم اور ایچ 1 این 1 کی روکتھام کے اقدامات کا جائیزہ لیا ۔ یہ تمام پروگرام محکمہ صحت کی طرف سے عملائے جا رہے ہیں ۔ پرنسپل سیکرٹری صحت و طبی تعلیم ڈاکٹر پون کوتوال نے ٹیکا کاری پروگراموں کے حوالے سے تفصیلی جانکاری دیتے ہوئے کہا کہ سال 2017-18 میں ایک سال کی عمر کے 217017 جبکہ رواں برس کے جولائی مہینے تک 70927 بچوں کو ان پروگراموں کے دائرے میں لایا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ پلس پولیو پروگرام اس سال 28 جنوری اور 11 مارچ کو کامیابی کے ساتھ دو مرحلوں میں عملایا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ ان دو مرحلوں کے دوران صفر سے پانچ برس تک کے عمر کے بچوں کو بالترتیب 1955183 اور 1965830 بچوں کو پولیو مخالف قطرے پلائے گئے ۔ اس موقعہ پر بتایا گیا کہ مربوط مشن اندر دھنش چار مرحلوں میں اکتوبر 2017 سے لیکر جنوری 2018 تک عملایا گیا جس میں 9821 بچوں کو ٹیکے لگوائے گئے علاوہ ازیں اس مشن کو جموں صوبے کے 124 گاؤں میں کامیابی کے ساتھ عملایا گیا جس دوران صوبے کے 1353 بچوں کو ٹیکے لگوائے گئے ۔ میٹنگ میں بتایا گیا کہ کپواڑہ اور بارہمولہ اضلاع میں مشن اندر دھنش کا پہلا مرحلہ 23 جولائی 2018 میں مکمل کیا گیا جس میں 3520 بچوں کو مختلف بیماریوں کے خلاف ٹیکے لگوائے گئے ْجبکہ اس مشن کا دوسرا مرحلہ اس وقت جاری ہے اور تیسرا مرحلہ دس ستمبر 2018 کو شروع کیا جائے گا ۔ گورنر کو میزلز روبیلہ مہم کے حوالے سے جانکاری دی گئی اور کہا گیا کہ یہ مہم ستمبر 2018 میں شروع کی جائے گی جس دوران 9 مہینے سے لیکر 15 سال تک کے عمر کے 4125762 بچوں کو چھ ہفتوں کے اندر اندر ٹیکے لگوائے جائیں گے ۔ گورنر کو ایچ 1 این 1 ( سوائین فلیو ) سے نمٹنے کیلئے کی جا رہی تیاریوں کے بارے میں بھی جانکاری دی گئی ۔ گورنر نے ہیلتھ سیکرٹری کو ہدایت دی کہ وہ اس دوران ریاست کی خانہ بدوش ، قبائلی اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے والی آبادی کی طرف خصوصی توجہ دیں تا کہ 31 دسمبر تک ریاست میں سو فیصد ٹیکا کاری کے اہداف کو یقینی بنایا جا سکے ۔ انہون نے ہدایات دیں کہ میزلز روبیلہ مہم کی پیش رفت کاپندرھواڑے کی بنیاد پر تمام ضلعوں کے ترقیاتی کمشنروں کے ساتھ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے جائیزہ لیا جانا چاہئیے۔ ڈی جی ہیلتھ سروسز کشمیر کو ہدایت دی گئی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس طرح کے کنٹرول روم 7 دنوں کے اندر اندر قایم کیا جانا چاہئیے اور رپورٹنگ نظام کو عوام کے سامنے رکھا جانا چاہئیے ۔