نئی دہلی// جموں و کشمیر کانگریس کے صدر غلام احمد میر ،پیپلز کانفرنس اور سابق مرکزی وزیر پروفیسر سیف الدین سوز نے حدبندی کمیشن کی رپورٹ پر سخت ردعمل کااظہار کیا ہے۔ غلام احمد میر نے کہا کہ حد بندی کمیشن نے مقامی لوگوں کے جذبات کے خلاف کام کیا ہے اور ان کی تجاویز کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے ۔مسٹر میر نے جمعرات کو یو این آئی کو بتایا کہ جموں کی لوک سبھا سیٹ میں اننت ناگ کو شامل کرنا بے میل اور سنگین کوتاہی قرار دیا اور کہا کہ اسمبلی سیٹوں کی حد بندی میں بھی اسی طرح کی کوتاہی ہوئی ہے ۔ انہوں نے کمیشن کے اس اقدام کو عوام کے جذبات کے خلاف قرار دیا اور کہا کہ اس سے ریاست کی ترقی متاثر ہوگی اور حد بندی سے سہولت ملنے کے بجائے مقامی لوگوں کو تکلیف ہوگی۔انہوں نے کہا کہ کمیشن نے حد بندی کے حوالے سے جموں و کشمیر کے 400 وفود سے ملاقات کی اور اس سلسلے میں ان سے تجاویز طلب کیں، لیکن اس سلسلے میں لوگوں کی طرف سے جو بھی تجاویز دی گئیں، انہیں یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جب کمیشن نے لوگوں سے بات کی تو کم از کم ان کی ایک تجویز تو مان لی جاتی لیکن کسی بھی تجویز پر غور نہیں کیا گیا ہے ۔مسٹر میر نے کہا کہ کمیشن نے نقشہ دیکھے بغیر حد بندی کا کام کیا ہے ۔ اگر وہ سیٹلائٹ سے بھی جموں و کشمیر کا نقشہ دیکھتے اور اس کی بنیاد پر حد بندی کرتے تو لوگوں کو اس کا فائدہ ہوتا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ کمیشن نے اس بارے میں کچھ نہیں سوچا۔ جموں کی لوک سبھا سیٹ سے بہت دور واقع اننت ناگ کو ضم کر دیا گیا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مضحکہ خیز حد بندی ہوئی ہے ۔ اس طرح کی بڑی گڑبڑ اسمبلی حلقوں کی تقریباً تمام سیٹوں پر ہوئی ہے ۔ ایک طرح سے جو حلقہ دس کلومیٹر کے دائرے میں ہونا چاہیے اسے کئی سو کلومیٹر کے دائرے میں رکھا گیا ہے ۔ادھر پیپلز کانفرنس نے بندی کمیشن کی رپورٹ کی رپورٹ پرشدید رعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کے ساتھ ماضی کی طرح امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا امید ہے کہ کشمیری اب ان جماعتوں کو یاد رکھیں گے جنہوں نے خود کو حد بندی کے عمل سے منسلک کیا تھا جو کہ نااہلی کے لیے ایک لازمی ذریعہ تھا، ہمیشہ حیرت میں رہیں گے۔ ایک پارٹی جس نے خود کو حلقہ بندیوں کے عمل سے منسلک کیا ہے وہ اتنی بے باک کیسے ہو سکتی ہے؟ وہ دراصل کشمیر میں ایک میمورنڈم اور جموں میں الگ میمورنڈم پیش کرنے کا اعصاب رکھتے تھے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ پارٹی ایک آر ٹی آئی دائر کرے گی اور میٹنگوں کی ویڈیو ریکارڈنگ طلب کرے گی تاکہ اس بات کو بے نقاب کیا جا سکے کہ کس طرح میٹنگ ہالوں کے باہر سینے پیٹنے والے لوگ حد بندی کمیشن کے ممبران کو خوش کرنے اور خوش کرنے کے لیے اپنی پیٹھ پیچھے کی طرف جھک رہے تھے۔اس دوران نگریس کے سینئر لیڈرا ور سابق مرکزی وزیر پروفیسر سیف الدین سوز کا کہنا ہے کہ جموں وکشمیر حد بندی کمیشن کی تازہ رپورٹ میرے مطالعہ میں ہے ، تاہم میں اس وقت اپنے ابتدائی تاثرات کو بیان کر رہا ہوں۔انہوں نے بتایا کہ جیسا کہ میں نے رپورٹ میں دیکھا کمیشن نے سب سے پہلے یہ غلطی کی ہے کہ اُس نے جموں وکشمیر میں 7 اسمبلی حلقوں کو بڑھانے کی سفارش کرتے ہوئے جموں کے لئے 6 نشستو ں کا اضافہ کیا ہے جبکہ کشمیر میں صرف ایک سیٹ کا اضافہ کرنے کی سفارش کی ہے جو بالکل غلط اور نا انصافی ہے !مسٹر سوز کے مطابق سیاسی مبصرین نے پہلے ہی اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ کمیشن مرکزی حکومت کے ساتھ مل کر کوئی شرارت کرنے والا ہے اور کمیشن نے یہ شرارت سامنے لائی ہے ۔انہوں نے کہاکہ جموں وکشمیر کے عوام کی بھاری اکثریت پہلے سے ہی یہ اندازہ لگا رہی تھی کہ اس سلسلے میں مرکزی سرکار کی نیت ٹھیک نہیں ہے ۔ سوز نے کہا کہ میری تجویز یہ ہے کہ اب بھی یہ ممکن ہے کہ مرکزی سرکار اپنے سیاسی عمل میں جاگ جائے اور جموں وکشمیر کے پولیٹیکل مین اسٹریم کلاس کے ساتھ اس سلسلے میں مذاکرات کا عمل شروع کرے ۔ انہوں نے بتایا کہ میری یہ بھی اُمید ہے کہ جموں وکشمیر کے عوام اس رپورٹ کی سفارشات اور اس کی پیچیدگیوں کو اچھی طرح سے سمجھیں گے اور مضبوط ارادے کے ساتھ جمہوری اور پر امن طریقے سے اپنا رد عمل دکھائیں ۔