راجوری//پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی نے ہفتہ کے روز نوجوانوں سے مرکز کے ذریعہ "چھینے حقوق‘‘ کی بحالی کی جدوجہد میں شامل ہونے کی اپیل کی اور کہا کہ "پتھر یا بندوق" نہیں بلکہ عدم تشدد ہی آگے کا راستہ ہے۔انہوںنے یہ بھی کہا کہ بی جے پی کی قیادت والی حکومت کے پاس ملی ٹینٹوں کے ذریعہ شہریوں کے قتل کے بارے میں انٹیلی جنس معلومات تھیں، لیکن اس نے جان بوجھ کرکارروائی سے گریز کیا۔انہوں نے راجوری میں یوتھ کنونشن کے حاشیے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا"آپ( نوجوانوں) کو صورتحال کو سمجھنا ہوگا اور ہماری آواز بننا ہوگا اگر آپ نے آج ہمت نہ دکھائی تو آنے والی نسلیں سوال اٹھائیں گی کیونکہ ہماری زمینیں، نوکریاں اور معمولی معدنیات بھی باہر کے لوگوں کے پاس جارہی ہیں، ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم کھڑے ہوں اور اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کریں۔ محبوبہ نے کہا، "خدا نہ کرے، میں آپ سے کبھی پتھر یا بندوق اٹھانے کو نہیں کہوں گی، میں جانتی ہوں کہ ان کے پاس اس راستے پر چلنے والوں کے خلاف گولی تیار ہے۔ آپ کو اپنی آواز بلند کرنی ہوگی اور ہمارے چھینے ہوئے حقوق کے لیے جمہوری جدوجہد میں ہمارا ساتھ دینا ہوگا۔ وادی میں اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے سمیت شہریوں کی حالیہ ہلاکتوں کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس حملوں کے بارے میں پہلے سے انٹیلی جنس معلومات تھیں لیکن "کچھ نہیں کیا"۔جو لوگ مارے گئے وہ ہمارے اپنے لوگ تھے لیکن 900 کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا۔ مزید ایک ہزار نوجوانوں کو اس وقت اٹھایا گیا جب وزیر داخلہ نے گذشتہ ماہ جموں و کشمیر کا دورہ کیا، ہماری جیلیں بھری پڑی ہیں اور اس لیے گرفتار کیے گئے لوگوں کو اب آگرہ جیل منتقل کیا جا رہا ہے۔محبوبہ نے کہا کہ حکومت گرفتاریوں اور ہلاکتوں کو جواز فراہم کرنے کے لیے "وائٹ کالر عسکریت پسند، او جی ڈبلیواوور گرانڈ ورکرزاور ہائبرڈ عسکریت پسند جیسے الفاظ تیار کر رہی ہے۔انہوں نے نوجوانوں سے پوچھا کہ کشمیر کا مسئلہ، "30 سال سے زائد ہزاروں قربانیوں" کے ساتھ، کیوں پرامن طریقے سے حل نہیں کیا جا سکتا جب کسان تین فارم قوانین کے خلاف پرامن طریقے سے احتجاج کرنے والے حکومت کو ان کو منسوخ کرنے پر راضی کر سکتے ہیں۔بی جے پی پر "مسلم مخالف" ہونے کا الزام لگاتے ہوئے، انہوں نے نوجوانوں سے کہا،5 اگست 2019 کے اس کے ناجائز فیصلے کو قانونی حیثیت دینے کے لیے لوگوں کو تقسیم کرنے کی ان کی کوششیں ہیں۔"اس طرح کا فیصلہ آئین ساز اسمبلی کا واحد استحقاق تھا۔ صرف وہی آرٹیکل 370 پر فیصلہ لے سکتا تھا۔ لہٰذا، 5 اگست 2019 کو لیا گیا فیصلہ غیر قانونی اور غیر آئینی تھا۔حد بندی کمیشن کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں محبوبہ مفتی نے کہا کہ اُس کمیشن پر کیسے بھروسہ کیا جاسکتا ہے جو بھاجپا کے اشاروں کے مطابق کام کرے گا۔انہوں نے کہاکہ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ پی ڈی پی کو حد بندی کمیشن پر کوئی بھروسہ ہی نہیں ہے ۔یہ کمیشن اس طرح کام کریگا ، جس سے بھاجپا کو فائدہ ملے گا۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ حد بندی اس طرح کی جائیگی کہ لوگوں کے مختلف طبقات ایک دوسرے کیخلاف کھڑے ہوجائیں گے۔انکا کہنا تھا کہ کمیشن جموں وکشمیر کے طبقہ جات کو تقسیم کرنے کا کام کرے گا اور اس طرح لوگوں اور طبقوں کو بانٹ کر بھارتیہ جنتا پارٹی کو سیدھے طورپر فائدہ ملے گا۔موصوفہ نے بتایا کہ پی ڈی پی اُن عزائم کو ناکام بنائے گی جس سے یہاں کے تشخص اور بھائی چارے کو نقصان پہنچے کا احتمال ہے ۔محبوبہ نے کہا"جموں و کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے، حالانکہ تمام مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کے ساتھ رہتے تھے۔ وہ 5 اگست 2019 کے فیصلے کے ذریعے اس کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔انہوں نے کہا، "وہ لوگوں کو تقسیم کرنے کے لیے ہر روز نئی پارٹیاں بنا رہے ہیں اور اسمبلی کے ذریعے اپنے غلط فیصلے دفعہ 370 کی منسوخی کی توثیق کرنے کے لیے اگلے اسمبلی انتخابات جیتنا چاہتے ہیں۔اُنہوں نے بتایا کہ انتظامیہ کی جانب سے کئے جانے والے سبھی دعوئے اور وعدئے حقیقت سے کوسوں دور ہے ۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ پی ڈی پی حکومتی اشاروں پر چلنے سے عاری ہے، اسی لئے ای ڈی، NIAنامی ایجنسیاں پارٹی کے پیچھے پڑی ہیں۔