بلال فرقانی
سرینگر// سرینگر کے گنڈ بل بٹوارہ علاقے میں منگل کی صبح دریائے جہلم میں کشتی الٹنے کے بعد لاپتہ ہونے والے باپ بیٹے سمیت تین افراد کی تلاش کے لئے جمعرات تیسرے دن بھی آپریشن وسیع پیمانے پر جاری رہا۔ گنڈبل میں منگل کو کشتی الٹنے کے نتیجے میں ایک خاتون اور اس کے دو کمسن بیٹوں سمیت 6 افراد کی موت واقع ہوئی تھی جبکہ تین افراد لاپتہ ہوگئے۔حکام کے مطابق لاپتہ افراد کی تلاش کے لئے این ڈی آر ایف، ایس ڈی آر ایف، فوج، ریور پولیس و دیگر ایجنسیوں سمیت 14 ٹیمیں وسیع پیمانے پر آپریشن چلا رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ آپریشن رات کو بھی جاری رہا اور جمعرات کی صبح سے دوبارہ شروع ہوا۔انسپکٹر جنرل آف پولیس کشمیر زون وی کے بردی نے کہا کہ لاپتہ افراد کی تلاش کے لئے ماہر غوطہ خوروں کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ تمام متعلقہ پولیس تھانوں کو دریائے جہلم پر نظر رکھنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔
کہاں تم چلے گئے؟
گنڈہ بل کشتی حادثے میں غرقاب ہوئے شوکت کی والدہ اور بہنیںدریا کنارے اب بھی انتظار کر رہی ہیں۔ لاپتہ شوکت احمد اور اس کے بیٹے حاذق کو باز یاب نہیں کیا جاسکا ہے۔ شوکت کی والدہ کے آنکھیں اب خشک ہوگئی ہیں تاہم اس کی آنکھوں میں شوکت اور اس کے معصوم فرزند کی واپسی کا انتظار صاف نظر آرہا ہے۔شوکت کی والدہ منگل صبح سے ہی دریائے جہلم کے کنارے’’ شوکت!کہاں تم چلے گئے‘‘ کا رونارو رہی ہے۔اسکے آہ و فغان سے دل پگل جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ دیگر رشتہ دارو بھی واہ ویلا کر رہے ہیں اور ہر سو رقعت آمیز مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ شوکت احمد5بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا جبکہ اس کی2بیٹیاں بھی ہیں۔مالی اعتبار سے انتہائی مفلوک الحال کنبے سے تعلق رکھنے والا شوکت احمد شیخ اپنے کنبے کا واحد کفیل بھی تھا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ کشتی ڈوبنے کے دوران شوکت پل کے ستون کی لوہے کی رارڈ کی وجہ سے بچ گیا تھا لیکن بیٹے کو غرقآب ہوتے دیکھ کر اس نے اسے بچانے کی کوشش کی اور دونوں پانی کی لہروں میں گم ہوگئے۔باپ بیٹے کی لاشیں نہ ملنے کی وجہ سے نہ صرف گنڈ بل بلکہ بٹوارہ علاقہ بھی ماتم کدے میں تبدیل ہوگیا ہے۔پیشے کے لحاض سے گلکار شوکت احمد بیشتر کام بٹوارہ میں ہی کرتا تھا اور اپنے نرم مزاج اور شرافت کی وجہ سے نہ صرف وہ اپنے خریداروں بلکہ عام لوگوں کے دل میں بھی اسکے لئے عزت کا مقام تھا۔