پرویز احمد
سرینگر //لیچ تھرپی یا جونک کے استعمال کے روایتی طرف علاج کو وادی میں دہائیوں سے آزمایا جارہا ہے۔لیچ تھرپی کے پہلے شواہد 15ویں صدی سے ملتے ہیں۔ مصر میںسال 1825سے 1850کے درمیان جونک کا استعمال مختلف بیماریوں خاصکر جلد کی بیماریوں کا علاج کرنے میں ہوتا تھا ۔ 17ویں اور 18ویں صدی میں جونک کا استعمال جسم میں جمع گندے خون کو باہر کرنے کیلئے استعمال ہوتا تھا لیکن 20ویں صدی کے بعد اس کے استعمال میں کمی آتی گئی اور 21ویں صدی میں جونک کا استعمال پھر سے جلد کی بیماریوں ٹھیک کرنے کیلئے کیاجانے لگا۔ جموں و کشمیر میں بھی لوگ خون صاف کرنے اور جلد کی مختلف بیماریوں کا علاج کرنے کیلئے لیچ تھرپی کرتے ہیں اور 21مارچ کو نوروز کے دن ہر شہری اور دیہی علاقے میں جونک سے علاج کرنے والے لوگ ملتے ہیں۔لیچ تھرپی کے کئی فوائد ہیں اور سڑکوں پر بیٹھ کر جونک سے علاج کرنے والے خون کی مختلف بیماریاں پھیلانے کا سبب بھی بنتے ہیں۔ کئی مریضوں میں ایک ہی جونک استعمال کرنے سے ایڈز، Hapititusاور خون کی دیگر بیماریاں پھیلانے کا زیادہ احتمال ہوتا ہے۔اس کے علاوہ شوگر ، گردوں اور دیگربیماریوں میں مبتلا لوگوں کو لیچ تھرپی لینے سے قبل ڈاکٹرسے مشورہ کرنا لازمی ہے۔ وادی میں آیورویدک طرز علاج کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جونک سے طرز علاج صرف ماہرین کی نگرانی میں ہی ہونا چاہئے، جو آیوش ہسپتال شالٹینگ اور آر آر یو ایم زکورہ میں دستیاب ہے۔ انچارج میڈیکل افسر ضلع آیوش یونٹ گاندربل ڈاکٹر ابرار نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’ جونکوں سے علاج یعنی لیچ تھرپی ایک قدیم طرز علاج ہے جو جلد کی بیماریوں کو دور کرنے کیلئے کافی مدد گار ثابت ہوتا ہے، بشرطیکہ، اگر ہم اس طرز علاج کو ایک ماہر ڈاکٹر کے زیر نگرانی کریں‘‘ ۔انہوں نے کہا کہ جونک فائدہ مند بھی ہے اور اگر کسی غیر تربیت یافتہ شخص کے پاس لیچ تھرپی کریں تو یہ بیماریاں پھیلانے کی سبب بھی بن جاتی ہیں۔ ڈاکٹر ابرار نے کہا ’’ کچھ لوگ یوں ہی 21مارچ کو نوروز کے دن سڑک پر بیٹھ کر جونکوں سے لوگوں کا علاج کرتے ہیں جبکہ جونکوں سے علاج کرنا آسان کام نہیں ہے۔ ڈاکٹر ابرار نے بتایا ’’وادی میں سرکاری سطح پر آیوش ہسپتال شالٹینگ اور آر آر یو ایم زکورہ میں یہ طرز علاج دستیاب ہے جہاں ضروری قوائد و ضوابط کو مد نظر رکھتے ہوئے علاج کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ابرار نے بتایا ’’ مرکزی اور جموں و کشمیر سرکار نے جونکوں سے طرز علاج کیلئے قوائد پہلے سے ہی وضع کئے ہیں جن میں جونکوں کو پالنے کیلئے’’Leech فارم‘‘ کا قیام اور ایک جونک کو صرف ایک بار استعمال کرنے کی ہدایت صاف دی گئی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ قوانین کے تحت ہم جونک کو مار نہیں سکتے بلکہ اس کو استعمال کرنے کے بعد قدرتی ماحول میں ڈالنا لازمی ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ابرار کا کہنا ہے کہ شہروں اور دیہی علاقوں میں سڑکوں پر جونک سے علاج کرنے والے افراد ایک ہی جونک کا بار بار استعمال کرتے ہیں کیونکہ مریضوں کا رش زیادہ ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہا ’’ یہی وجہ ہے کہ جونک سے خون تو صاف ہوتا ہے لیکن اس سے خون کے انفکیشن جیسے ایڈز، Hapititus Aاور Hapititus B پھیلنے کا خطرہ رہتا ہے۔ ‘‘ ڈاکٹر ابرار کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ اس کیلئے سرکار نے قوائد و ضوابط وضع کئے ہیں جن میں جونک لگانے سے پہلے مریض کے تشخیصی ٹیسٹ کرانا بھی لازمی ہے جن میں بی ٹی، سی ٹی، ایچ آئی وی ، Hapititusکے ٹیسٹ شامل ہیں۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر آیوش ڈاکٹر شجاع نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’لوگوں کو چاہئے کہ وہ کسی بھی غیر تربیت یافتہ شخص کے پاس لیچ تھرپی نہ لیں بلکہ آیوش کے 2ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی نگرانی میں اس طرز علاج کا فائدہ اٹھائیں کیونکہ جونک تھرپی نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ ‘انہوں نے کہا کہ غلط طریقے سے جونک لینے کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں کو سامنے آنے میں کافی عرصہ لگتا ہے اور مریض کو خود بھی یاد نہیں ہوتا کہ اس نے سڑک پر جونک کا استعمال کیا تھا ۔