بلال فرقانی
سرینگر//جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ووٹنگ شروع ہونے کیساتھ ہی جنوبی کشمیر میں جمہوریت کا جشن شروع ہوا۔ بیشترپولنگ مراکزپر لمبی قطاریں دیکھی گئیں۔اسمبلی انتخابات آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد پہلی بار تین مرحلوں میں منعقد ہو رہے ہیں۔ یونین ٹیریٹری کے7 اضلاع میں پھیلے 24 حلقوں میں پولنگ کی جانی تھی ۔یہ جموں و کشمیر میں ایک یونین ٹیریٹری سیٹ اپ میں پہلا اسمبلی الیکشن ہے، اور پچھلے 10 سالوں میں اسمبلی کو منتخب کرنے کا پہلا انتخاب بھی ہے۔مرکز نے 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر دیا اور سابقہ ریاست کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا۔پانپور، ترال، پلوامہ، راجپورہ،کے علاوہ شوپیان ، بجبہاڑہ، پہلگام، اننت ناگ، کولگام، قاضی گنڈ اور اونتی پورہ کے قصبوں میں دوپہر تک پولنگ بہت سست رفتاری کیساتھ جاری رہی۔ قصبوں میں پولنگ مراکز کے باہر ووٹروں کی بہت کم لمبی قطاریں دکھائی دی گئیں۔البتہ دیہات میں لمبی قطاروں میں مر و زن نے اپنے رائے دہی کا استعمال کیا۔10سال کے بعد اسمبلی الیکشن کے انعقاد کا جشن بھر پور طریقے سے منایا گیا۔لوگ کھلم کھلا یہ بات کہہ رہے تھے کہ وہ اپنے مقامی نمائندوں کا انتخاب کرنے کیلئے ووٹ کا استعمال کریں گے۔انکا کہنا تھا کہ عام اور انتخامیہ کا رابطہ نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہے اور اس خلا کو پر کرنے کیلئے ووٹ بہترین متبادل ہے۔پلوامہ ضلع میں دیگر اضلاع کے مقابلے میں سب سے کم پولنگ کی شرح درج کی گئی۔گذشتہ پارلیمانی انتخابات میں بھی ضلع پلوامہ میں سب سے کم شرح ریکارڈ کی گئی تھی۔ بدھ کوہر ایک پولنگ بوتھ پر ایک الگ کہانی دیکھی گئی۔ پہلی بار ووٹروں میں بہت جوش و خروش تھا۔جبکہ زیادہ تر نوجوانوں میں بہت جوش دیکھا گیا۔ماضی کے برعکس وادی کے چار اضلاع میں کہیں پر بھی کوئی نا خوشگوار واقع پیش نہیں آیا۔پر امن طریقے پر ہوئی پولنگ کے دوران جمہوریت کے جشن کا مشاہدہ ہورہا تھا۔نوجوان اور خواتین ووٹرز پولنگ اسٹیشنوں پر چمک رہے تھے، جو جموں و کشمیر میں جمہوریت کی گہرائی اور اپنائیت کا ثبوت ہے۔ ان کا ووٹ ڈالنے کا جوش بائیکاٹ اور تشدد کے خلاف بیلٹ کے حق میں ایک زبردست ردعمل ہے۔تمام پولنگ سٹیشنوں میں ویب کاسٹنگ کے ساتھ ساتھ، 32 مرکزی مبصرین نے انتخابی عمل پر کڑی نظر رکھی، اس بات کو یقینی بنایا کہ انتخابی عمل میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔