یوم آزادی
محمد احمد ابن مولانا محمد شفیع قاسمی
ہندوستان کوطویل جدوجہدکے بعدآزادی کی نعمت حاصل ہوئی، جس کے لیے ہمارے اسلاف نے زبردست قربانیوں کانذرانہ پیش کیا،جان و مال کی قربانیاں دیں، تحریکیں چلائیں تختۂ دار پرچڑھے، پھانسی کے پھندے کو جرات وحوصلہ اورکمال بہادری کے ساتھ بخوشی گلے لگایا، قیدو بندکی صعوبتیں جھلیں اور حصولِ آزادی کی خاطرمیدا ن جنگ میں نکل پڑے، آخر غیرملکی (انگریز) ملک سے نکل جانے پرمجبورہوئے۔
غیرملکی حکمرانوں نے اپنے اقتدار کوقائم رکھنے کے لیے طرح طرح کی چالیں چلیں، تدبیریں کیں، رشوتیں دیں، لالچ دیئے، پھوٹ ڈالوں اورحکومت کروکااصول بڑے پیمانے پر اختیار کیا،فرقہ وارانہ اختلافات پیداکیے، حقائق کوتوڑمروڑکرپیش کیا، آپس میں غلط فہمیاں پھیلائیں، تاریخ کومسخ کیا،انگریزوں نے ہندوستان کے معصوم باشندوں پرظلم وستم کے پہاڑ توڑے اورناحق لوگوں کوتختہ? دارپرلٹکایا، ہندوستانیوں پرناحق گولیاں چلائیں، چلتی ریلوں پر سے اٹھاکرباہر پھینکا؛ مگر ان کے ظلم وستم کوروکنے اورطوقِ غلامی کوگردن سے نکالنے کے لیے بہادر مجاہدین آزادی نے ان کا مقابلہ کیااورملک کوآزادکرکے ہی اطمینان کاسانس لیا۔
ہندوستان کی تحریک آزادی میں مسلمانوں کاحصہ قدرتی طورپربہت ممتازونمایاں رہا ہے،انھوں نے جنگ آزادی میں قائداوررہنماکاپارٹ اداکیا،اس کی وجہ یہ تھی کہ انگریزوں نے اقتدارمسلم حکمرانوں سے چھیناتھا،اقتدارسے محرومی کادکھ اوردردمسلمانوں کوہوا،انھیں حاکم سے محکوم بنناپڑا، اس کی تکلیف اوردکھ انھیں جھیلناپڑا، اسی لیے محکومیت وغلامی سے آزادی کی اصل لڑائی بھی انھیں کولڑنی پڑی۔
انگریزوں سے باقاعدہ منظم جنگ نواب سراج الدولہ کے ناناعلی وردی خان نے 1754ء میں کی اوران کوشکست دی،کلکتہ کاڈائمنڈہاربرHarbour Diamond اور فورٹ ولیم William Fort انگریزوں کامرکزتھا،علی وردی خان نے فورٹ ولیم پرحملہ کرکے انگریزوں کو بھگایا، انگریزڈائمنڈ ہاربرمیں پناہ لینے پرمجبورہوئے۔اسے پہلی منظم اورمسلح جنگ آزادی قرار دیا جاسکتاہے۔ علی وردی خان کے بعدان کے نواسہ نواب سراج الدولہ حاکم ہوئے اور اس خطرہ کومحسوس کیا کہ انگریز ان کے ملک پرآہستہ آہستہ حاوی ہورہے ہیں اوران کو ملک سے نکالناضروری ہے۔اس نے حوصلہ اورہمت سے انگریزوں کوشکست دیناچاہا؛مگر انکا دربار سازشوں کا اڈہ بن گیاتھا؛ اس لیے انہیں شکست ہوئی اور1757ء میں برٹش فوج نے ان کے دارالسلطنت مرشدآبادمیں انھیں شہیدکردیا۔
تاریخ کے صفحات میں پلاسی کی جنگ 1757ء اوربکسرکی جنگ1764کی تفصیل موجود ہے،یہ جنگ بھی ہندوستانیوں کی شکست پرختم ہوئی،اس کے بعدانگریزبنگال، بہار اور اوڑیسہ پرپوری طرح حاوی ہوگئے۔
جنگِ آزادی میں حیدرعلی اورٹیپوسلطان کاکردار:۔ دکن فرمانروا حیدرعلی(م1782ء) اوران کے صاحبزادہ ٹیپوسلطان کے ذکر کے بغیر جنگ آزادی کی تاریخ ادھوری ہوگی،جومستقل انگریزوں کے لیے چیلنج بنے رہے، حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے انگریزوں سے چارجنگیں کیں، ٹیپوسلطان 1782ء میں حکمراں ہوئے،1783ء میں انگریزوں سے ٹیپوکی پہلی جنگ ہوئی اور انگریزوں کوشکست ہوئی۔یہ جنگ 1784ء میں ختم ہوئی، یہ میسور کی دوسری جنگ کہلاتی ہے۔ انگریز اپنی شکست کاانتقام لینے کے لیے بے چین تھے؛ چنانچہ 1792ء میں انگریزوں نے اپنی شکست کاانتقام لیتے ہوئے حملہ کیا؛مگر اپنے بعض وزراء وافسران کی بے وفائی اور اپنی ہی فوج کی غداری اور اچانک حملہ کی وجہ سے ٹیپو معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے۔ ٹیپو کو بطور تاوان تین کروڑ روپئے، نصف علاقہ اوردو شہزادوں کوبطورِیرغمال انگریزوں کودینا پڑا۔
مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:۔’’سب سے پہلاشخص جس کواس خطرہ کااحساس ہواوہ میسور کابلندہمت اورغیور فرمانروا فتح علی خان ٹیپوسلطان (1313 ھ1799 ء )تھا، جس نے اپنی بالغ نظری اورغیرمعمولی ذہانت سے یہ بات محسوس کرلی کہ انگریزاسی طرح ایک ایک صوبہ اورایک ایک ریاست ہضم کرتے رہیں گے اور اگرکوئی منظم طاقت ان کے مقابلہ پرنہ آئی توآخرکارپوراملک ان کالقمہ تربن جائے گا؛ چنانچہ انھوں نے انگریزوں سے جنگ کافیصلہ کیااوراپنے پورے سازوسامان، وسائل اور فوجی تیاریوں کے ساتھ ان کے مقابلہ میں آگئے‘‘۔
ٹیپوسلطان کی جدوجہداوراولوالعزمی:۔ٹیپونے ہندوستان کے راجوں،مہاراجوں اور نوابوں کوانگریزوں سے جنگ پرآمادہ کرنے کی کوشش کی، اس مقصدسے انھوں نے سلطان ترکی سلیم عثمانی، دوسرے مسلمان بادشاہوں اور ہندوستان کے امراء اورنوابوں سے خط وکتابت کی اور زندگی بھرانگریزوں سے سخت معرکہ آرائی میں مشغول رہے، قریب تھاکہ انگریزوں کے سارے منصوبوں پرپانی پھرجائے اوروہ اس ملک سے بالکل بے دخل ہوجائیں؛ مگر انگریزوں نے جنوبی ہندکے امراء کو اپنے ساتھ ملالیااور آخرکاراس مجاہد بادشاہ نے4مئی1799ء کوسرنگا پٹنم کے معرکہ میں شہیدہوکرسرخروئی حاصل کی، انھوں نے انگریزوں کی غلامی اوراسیری اوران کے رحم وکرم پرزندہ رہنے پرموت کوترجیح دی، ان کامشہور تاریخی مقولہ ہے کہ ’’گیڈرکی صد سالہ زندگی سے شیرکی ایک دن کی زندگی اچھی ہے‘‘۔ جب جرنل HORSE کوسلطان کی شہادت کی خبرملی تواس نے ان کی نعش پرکھڑے ہوکریہ الفاظ کہے کہ:آج سے ہندوستان ہماراہے۔‘‘(ہندوستانی مسلمان ص137)
جنگ آزادی میں شاہ ولی اللہ اورانکے شاگردوں کاکردار
ٹیپوسلطان کی شہادت نیزہزاروں افرادکے قتل کے بعدملک میں برطانوی اثرات بڑھتے چلے گئے، انگریز سیاسی اثرات بڑھانے کے ساتھ ساتھ مشنری ورک بھی کررہے تھے،اس زمانہ میں دینی مدارس بڑی تعدادمیں تباہ کیے گئے،ان کوششوں کے ساتھ ساتھ دہلی میں ایک تحریک وجود میں آئی، جس کے بانی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ(م1762ء )تھے،ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی رحمہ اللہ (م1824ء )نے اپنے والدکی تحریک کوبڑھایا، وہ انگریزوں کے سخت خلاف تھے۔انہوں نے1803ء میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا مشہور فتوی دیا،جس میں ہندوستان کودارالحرب قرار دیا گیا اور سیداحمد شہید رائے بریلوی کولبریشن موومنٹ کا قائد مقرر کیا۔1831میں سیداحمدشہیدؒ اورشاہ اسماعیل شہیدؒ بالاکوٹ میں اپنے بے شمار رفقاء کے ساتھ اس ملک کے انسانوں کوآزادی دلانے کے لیے انگریزوں اوران کے اتحادی سکھ ساتھیوں کے خلاف جہادمیں شہیدہوئے؛لیکن یہ تحریک چلتی رہی، مولانا نصیرالدین دہلوی نے قیادت کی ذمہ داری سنبھالی۔1840ء میں آپ کی وفات ہوئی۔انکے بعدمولانا ولایت علی عظیم آبادی(م1852ء )اورانکے بھائی مولاناعنایت علی عظیم آبادی (م1858ء ) نے اس تحریک کوزندہ رکھنے میں اہم کرداراداکیا۔اس طرح یہ جہادکاقافلہ برابررواں دواں رہا؛ حتیٰ کہ سن ستاون 1857ء تک لے آیا۔علماء کی اس تحریک کوانگریزوں نے وہابی تحریک کے نام سے مشہورکیا جو نجد کے محمدبن عبدالوہاب نامی عالم کے نظریات پرمبنی تھی؛لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس تحریک کے اکثر افرادہندوستان ہی کے مشہورعالم شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒکے تربیت یافتہ تھے،اوریہ تحریک انھیں کے نظریات پرمبنی تھی؛ اس لیے اسے ’’ولی اللّٰہی‘‘ تحریک کانام دیا جاناچاہئے۔
انگریزوں کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کرنے میں علماء کرام کی خدمات
1857ء میں شاہ ولی اللہ اورشاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی ؒ اورشاہ اسحاق محدث دہلوی اور انکے شاگردوں کی محنت رنگ لائی، اور 1857 میں علماء کرام کی ایک جماعت تیارہوئی۔ ان میں مولانااحمداللہ شاہ مدراسی، مولانا رحمت اللہ کیرانوی ، مولانافضلِ حق خیرآبادی ، مولانا سرفراز، حاجی امداللہ مہاجرمکی ، مولانا رشید احمد گنگوہی ، مولانا قاسم نانوتوی،حافظ ضامن شہید اور مولانا منیر نانوتوی خاص طور پر قابل ذکرہیں۔ غدر کے زمانہ میں مولانافضل حق خیرآبادی نے انگیریزوں کے خلاف فتوی مرتب کرایاجس پر علماء دہلی سے دستخط لیے گئے، اور یہی فتوی مولاناکی گرفتاری کاسبب بنا،جب مولاناپرمقدمہ چلااور جہاد کے فتوی کی عدالت نے تصدیق چاہی،تومولانا نے کھل کرکہاکہ فتوی میراہی مرتب کیاہواہے۔1857ء کے زمانہ میں مولانااحمداللہ شاہ مدراسی سپہ سالارکی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ ہومزلکھتاہے: ’’مولوی احمداللہ شاہ شمالی ہندمیں انگریزوں کاسب سے بڑادشمن تھا۔1865ء میں مولانااحمداللہ عظیم آبادی، مولانایحییٰ ، مولاناعبدالرحیم صادق پوری، مولانا جعفرتھانیسری کوانڈمان بھیج دیا گیا جو کالاپانی کہلاتاہے۔اسی زمانہ میں مولانافضل حق خیرآبادی، مفتی احمدکاکوروی اورمفتی مظہرکریم دریابادی کوبھی انڈمان روانہ کیاگیا، جن میں مولانا احمداللہ عظیم آبادی، مولانایحییٰ ، اورمولانا فضل حق خیرآبادی وغیرہ کا وہیں انتقال ہوگیا۔ مولانا عبدالرحیم صادق پوری اورمولانا جعفر تھانیسری اٹھارہ سال کی قیدبامشقت اور جلاوطنی کے بعد 1883میں اپنے وطن واپس ہوئے۔ مولاناجعفرتھانیسری اپنی کتاب کالاپانی میں تحریرفرماتے ہیں:’’ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، پیروں میں بیڑیاں، جسم پرجیل کا لباس اور کمرپرلوہے کی سلاخیں تھیں۔انگریزہم تین علماء کے لیے خاص لوہے کے قفس تیار کروائے اور ہمیں ان میں ڈال دیا۔اس پنجرے میں لوہے کی چونچ دارسلاخیں بھی لگوائیں، جس کی وجہ سے ہم نہ سہارالے سکتے تھے، نہ بیٹھ سکتے تھے۔ہماری آنکھوں سے آنسوں اورپیروں سے خون بہہ رہے تھے۔غدر کے ملزمان انگریزوں کی نگاہ میں اتنے بڑے مجرم سمجھے گئے کہ غدر1857 میں پکڑے گئے لوگوں کو یاتوسرعام پھانسی دیدی گئی یابہت سے لوگوں کواسی جزیرے انڈمان میں موت سے بدترزندگی گذارنے کے لیے بھیجاگیا۔ مولانا جعفر تھانیسری ے جزیرہ انڈمان کی زندگی پربہت ہی مفصل آپ بیتی’’کالاپانی‘‘کے نام سے لکھی ہے۔تفصیل کیلئے ملاحظہ فرمائیں!
جنگ آزادی میں علماء دیوبندکاکردار:۔1857 میں شاملی ضلع مظفرنگرکے میدان میں علماء دیوبندنے انگریزوں سے باقاعدہ جنگ کی، جس کے امیرحاجی امداللہ مہاجرمکی مقررہوئے۔اور اس کی قیادت مولانارشیداحمدگنگوہی ، مولاناقاسم نانوتوی اورمولانامنیرنانوتوی کررہے تھے۔ اس جنگ میں حافظ ضامن شہیدہوئے، مولانا قاسم نانوتوی انگریزوں کی گولی لگ کرزخمی ہوئے، انگریزی حکومت کی طرف سے آپ کے نام وارنٹ رہا؛لیکن گرفتارنہ ہوسکے،1880ء میں وفات پائی،دیوبندمیں قبرستان قاسمی میں آسودئہ خواب ہیں۔حاجی امداداللہ مہاجرمکی نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ ان حالات میں ملک میں رہ کراب اپنے مشن کوبرقراررکھنا ممکن نہیں، مکہ مکرمہ ہجرت کرگئے۔وہاں سے انھوں نے اپنے مریدین ومتوسلین کے ذریعہ ہندوستان میں اپنے ہدایت وفیض کاسلسلہ جاری رکھا۔1899ء میں وفات پائی اورجنت المعلیٰ میں دفن ہوئے۔ مولانارشیداحمدگنگوہی کوگرفتارکیاگیااورسہارنپورکے قیدخانہ میں رکھاگیا،پھرکچھ دن کال کوٹھری میں رکھ کرمظفرنگرکے قیدخانہ میں منتقل کیاگیا۔چھ ماہ تک آپ کوقیدوبندکی مصیبتیں جھیلنی پڑی۔1905میں وفات پائی۔گنگوہ کی سرزمین میں آسودہ خواب ہیں۔1857ء کی جنگ میں مسلمانوں کوبظاہرشکست ہوئی، مگریہ شکست نہیں، فتح تھی۔ 1857کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعدانگریزوں نے اسلام پرحملہ کیا اسلامی عقائد،اسلامی فکراوراسلامی تہذیب کو ہندوستان سے ختم کرنے کافیصلہ کیا، یہاں سے انگریزوں کازوال شروع ہوا،حکومت برطانیہ کا لارڈمیکالے جب وایسرائے بن کرآیا تواس نے مغربی تہذیب اورمغربی فکر،نصرانی عقائد قائم کرنے کاایک پروگرام بنایا،اس نے کہا:’’میں ایک ایسانظام تعلیم وضع کرجاوں گاجوایک ہندوستانی مسلمان کاجسم توکالاہوگامگردماغ گورایعنی انگریزکی طرح سوچے گا‘‘۔
ہندوستان میں اسلام کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ نے چندشخصیات کوپیداکیا،ان میں سے ایک اہم شخصیت مولانامحمدقاسم نانوتوی کی تھی،اس زمانہ میں اسلام کی بقاء، اسلامی عقائد،اسلامی فکر اوراسلامی تہذیب کی حفاظت کے لیے مولانا قاسم نانوتوی نے ایک تحریک چلائی،جس کوتحریک دیوبندکہاجاتاہے،جگہ جگہ مدرسہ قائم کیے،اس مقصدکے لیے انھوں نے اپنے رفقاء(حاجی عابدحسین دیوبندی ،مولاناذولفقارعلی دیوبندی ، مولانا فضل الرحمن عثمانی اورمولانارفیع الدین وغیرہ)کی مددسے15 محرم 1283ھ مطابق 30مئی 1866جمعرات کے دن ضلع سہارنپورمیں واقع دیوبندنامی مقام پرایک دارالعلوم کی بنیادرکھی؛ تاکہ یہ مسلمانوں میں نظم پیداکرے، جوان کواسلام اورمسلمانوں کی اصل شکل میں قائم رکھنے میں معین ہو،ایشیاکی اس عظیم درسگاہ کاآغازدیوبندکی ایک مسجد(چھتہ مسجدکے صحن میں آنارکے درخت کے سایہ میں ایک استاد(ملامحمود)اورایک طالب علم (محمودحسن)سے ہوا جو بعدمیں ’’ازہرہند‘‘کہلائی اورجسے دارالعلوم دیوبندکے نام سے شہرت ومقبولیت حاصل ہوئی،بقول حضرت حاجی امداداللہ مہاجرمکی ’’دارالعلوم دیوبندہندوستان میں بقاء اسلام اورتحفظِ علم کاذریعہ ہے‘‘۔
انڈین نیشنل کانگرس کاقیام اوراس میں مسلمانوں کاحصہ:۔1884 میں انڈین نیشنل کانگرس کاپہلااجلاس منعقدہوا،جس میں بعض ممتازاہل علم واہل فکرمسلمان بھی شریک تھے،اور اس کا قیام 1885میں عمل میں آیا۔اس کے بانیوں میں مسلمان بھی شامل تھے، جن کے نام بدرالدین طیب جی اوررحمت اللہ سیانی تھے،کانگرس کا چوتھااجلاس 1887 میں مدراس میں ہوا،جس کی صدارت بدرالدین طیب جی نے کی۔
جنگ آزادی میں دارالعلوم دیوبندکاکردار:۔
جنگ آزادی میں اکابردیوبند(حاجی امداللہ مہاجرمکی ،مولاناقاسم نانوتوی، مولانارشیداحمد گنگوہی) اور فرزندان دارالعلوم دیوبند(شیخ الہندمولانامحمودحسن دیوبندی ، مولاناحسین احمدمدنی، مولاناعبیداللہ سندھی ، مولانا عزیز گل پیشاوری، مولانا منصورانصاری ، مولانا فضل ربی ، مولانا محمداکبر، مولانا احمدچکوالی، مولانا احمداللہ پانی پتی، مولانا حفظ الرحمن سیوہارو ی وغیرہ) کو فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ 1912ء میں ریشمی رومال تحریک کی ابتداء ہوئی،جس کے بانی فرزند ِ اول دارالعلوم دیوبند تھے، جن کودنیاشیخ الہند حضرت مولانامحمود حسن دیوبندی کے نام سے جانتی ہے، بقول مفکراسلام حضرت مولاناسیدابوالحسن علی ندویؒ:’’آپ(شیخ الہند)انگریزی حکومت اور اقتدار کے سخت ترین مخالف تھے،سلطان ٹیپو کے بعدانگریزوں کاایسادشمن اورمخالف دیکھنے میں نہیں آیا‘‘۔اس تحریک میں اہم رول آپ کے شاگردمولاناعبیداللہ سندھی نے ادا کیا، افغانستان کی حکومت کومدد کے لیے تیارکرنااورانگریزوں کے خلاف رائے عامہ بنانا مولانا عبیداللہ سندھی کامشن تھا۔ شیخ الہندکے نمائندے ملک کے اندر اور ملک کے باہرسرگرم اورفعال تھے، افغانستان، پاکستان، صوبہ سرحداورحجازکے اندرقاصدکاکام کررہے تھے،خلافتِ عثمانیہ کے ذمہ داروں سے مثلاًانورپاشاہ وغیرہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی،اورترکی جانے کاشیخ الہند نے خودعزم مصمم کرلیا تھا، اس مقصدکے لیے پہلے وہ حجازتشریف لے گئے اوروہاں تقریباًدوسال قیام رہا،اس اثنا میں دوحج کیے،مکہ مکرمہ پہنچ کرحجازمیں مقیم ترک گورنرغالب پاشاسے ملاقاتیں کیں، اورترکی کے وزیر جنگ انورپاشاسے بھی ملاقات کی، جوان دنوں مدینہ آئے ہوئے تھے،انھیں ہندوستان کی صورت حال سے آگاہ کیااوراپنے منصوبہ سے واقف کرایا،ان دونوں نے شیخ الہندؒکے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے، ان کے منصوبے کی تائیدکی اور برطانوی حکومت کے خلاف اپنے اوراپنی حکومت کے تعاون کایقین دلایا، مولانا عبیداللہ سندھی نے کابل سے ریشمی رومال پرجوراز دارانہ خطوط شیخ الہند مولانامحمودحسن کومکہ مکرمہ روانہ کیے تھے، ان کوحکومت برطانیہ کے لوگوں نے پکڑلیا، یہی شیخ الہندؒکی گرفتاری کاسبب بنی اورپورے منصوبے پر پانی پھیردیا۔1916 میں شریف حسین کی حکومت نے ان کومدینہ منورہ میں گرفتار کرکے انگریزی حکومت کے حوالہ کردیا۔ شریف حسین نے خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت اور غداری کی تھی، وہ برطانوی حکومت کاوفاداردوست تھا اورخلافت عثمانیہ اورمسلمانوں کی تحریک آزادی کاشدید مخالف تھا۔1917ء میں شیخ الہند ؒاور ساتھوں کوبحیرئہ روم میں واقع جزیرہ مالٹا جلاوطن کیاگیا۔ مولاناحسین احمدمدنی ، مولانا عزیز گل پیشاوری،مولاناحکیم نصرت حسین ،مولاناوحیداحمد وغیرہ نے مدتوں اپنے استاذشیخ الہندؒکے ساتھ مالٹا کے قیدخانہ میں سختیاں برداشت کیں،مالٹاکے قیدخانہ میں انگریزوں نے شیخ الہند ؒکے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کیا، سخت سے سخت سزائیں دی گئیں؛چنانچہ مولانا حسین احمدمدنی فرماتے ہیں کہ جب شیخ الہند ؒکو مالٹا جیل میں نظربندکیاگیاتو انگریزمیرے استادکوایک تہہ خانہ میں لے گئے اور لوہے کی گرم تپتی ہوئی سلاخیں لے کرکمرپرلگاتے رہے اور ساتھ میں یہ فرماتے رہے کہ ’’اے محمودحسن! انگریزکے حق میں فتوی دے‘‘جب شیخ الہند ؒہوش میں آتے توصرف یہی فرماتے تھے کہ ’’اے انگریز!میرا جسم پگھل سکتاہے، میں بلال کاوارث ہوں، میری جلدادھیڑسکتی ہے؛ لیکن میں ہرگز ہرگز تمہارے حق میں فتوی نہیں دے سکتا۔‘‘شیخ الہندکی تحریک میں مولانامنصورانصاری ، مولانا فضل ربی ، مولانافضل محمود ،مولانامحمداکبر کاشماراہم ارکان میں تھا۔مولانا عبدالرحیم رائے پوری ، مولانا محمداحمد چکوالی، مولانامحمدصادق کراچوی ، شیخ عبدالرحیم سندھی، مولانا احمداللہ پانی پتی، ڈاکٹراحمدانصاری وغیرہ سب مخلصین بھی مخلصانہ تعلق رکھتے تھے،ان کے علاوہ مولانا محمدعلی جوہر ، مولاناابواکلام آزاد،مولانااحمدعلی لاہوری ،حکیم اجمل خان وغیرہ بھی آپ کے مشیر ومعاون تھے۔
1919میں جمعیت علماء ہندکاقیام عمل میں آیا،جس کے بنیادی ارکان میں شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی ،مولاناحسین احمدمدنی، مولاناعطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانامفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانامحمدعلی جوہر،مولاناشوکت علی،مولانا ابوالمحاسن سجاد، مولانا احمدعلی لاہوری، مولاناابوالکلام آزاد، مولاناحفظ الرحمن سیورہاروی ، مولانا احمدسعید دہلوی ، مولانا سیدمحمدمیاں دیوبندی جیسے دانشوران قوم تھے۔شیخ الہند ؒکی رہائی کے بعد سب سے پہلے 29جولائی 1920ء کوترکِ موالات کافتوی شائع کیاگیا۔
آپ کی وفات کے بعدآپ کے جاں نثارشاگردمولاناحسین احمدمدنی نے آپ کے اس مشن کو جاری رکھا، مولانامفتی کفایت اللہ دہلوی کی وفات کے بعد1940سے تادم آخیرجمعیت علماء ہند کے صدررہے،کئی باربرطانوی عدالتوں میں پھانسی کی سزاسے بچے،آپ انگریزوں کی حکومت سے سخت نفرت رکھتے تھے،آپ دارالعلوم دیوبندکے شیخ الحدیث کے منصب پربھی فائز تھے۔ آزادی کے بعداصلاحی کاموں میں مصروف ہوگئے،دینی خدمت وتزکیہ نفوس کے مقدس مشن میں لگے رہے،5دسمبر1957میں وفات پائی،دیوبندمیں قبرستان قاسمی میں آسودہ خواب ہیں۔
تحریک خلافت اورہندومسلم اتحاد:۔1919 میں جلیاں والاباغ سانحہ جس میں کئی افراد ہلاک ہوئے،انھیں ایام میں تحریکِ خلافت وجودمیں آئی،جس کے بانی مولانامحمدعلی جوہر تھے، اس تحریک سے ہندومسلم اتحادعمل میں آیا۔گاندھی جی،علی برادران(مولانامحمدعلی جوہر ومولانا شوکت علی)اورمسلم رہنمائوں کے ساتھ ملک گیردورہ کیا،اس تحریک نے عوام اورمسلم علماء کوایک پلیٹ فارم پرکھڑاکردیا،جن میں شیخ الہند مولانامحمودحسن دیوبندی ،مولانا عبدالباری فرنگی محلی، مولاناآزادسبحانی،مولاناثناء اللہ امرتسری، مفتی کفایت اللہ دہلوی ، مولاناسیدمحمدفاخر،مولانا سید سلیمان ندوی، مولانااحمدسعیددہلوی وغیرہ شریک تھے۔الغرض ہندوستان کے اکابرعلماء نے سالہاسال کے اختلافات کو نظرانداز کرکے تحریک ِ خلافت میں شانہ بشانہ کام کیا۔1931 میں مولانامحمدعلی جوہرگول میز کانفرنس لندن میں شرکت کے لیے گئے اوروہیں انتقال کرگئے،حکومت نے اپنے خرچ پر انکی لاش کوبیت المقدس بھیجا،اسی مقدس سرزمین میں آسودئہ خواب ہیں۔
تحریک ِ ترک موالات:۔1920 میں گاندھی جی اورمولاناابوالکلام آزادنے غیرملکی مال کے بائیکاٹ اورنان کوآپریشن(ترک موالات)کی تجویزپیش کی،یہ بہت کارگرہتھیارتھا، جواس جنگ آزادی اورقومی جدوجہدمیں استعمال کیاگیا، انگریزی حکومت اس کاپوراپورانوٹس لینے پر مجبورہوئی اوراس کاخطرہ پیداہواکہ پوراملکی نظام مفلوج ہوجائے اورعام بغاوت پھیل جائے، آثارانگریزی حکومت کے خاتمہ کی کی پیشینگوئی کررہے تھے۔(ہندوستانی مسلمان،ص157)
1921میں موپلابغاوت،1922 میں چوراچوری میں پولیس فائرنگ،1930میں تحریک سول نافرمانی ونمک آندولن،1942میں ہندوستان چھوڑوتحریک ، 1946 میں ممبئی میں بحری بیڑے کی بغاوت کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں پرپولیس فائرنگ کے دوران ہزاروں مسلمان شہیدہوئے۔انگریزوں کی قیدوبندکے مصائب جھیلنے اورانکی گولیوں کانشانہ بننے والوں کی تعدادتوشمارسے باہرہے۔عام مسلمانوں کے علاوہ شہیدعلماء کی تعدادبیس ہزار سے پچاس ہزارتک بتائی جاتی ہے؛مگران اہم لیڈروں اوران اہم واقعات کے بغیرپوری تاریخ ادھوری اورحقیقت سے کوسوں دورہے،جن میں مذکورہ بالا شخصیتوں کے علاوہ بہادرشاہ ظفر،بیگم محل،نواب مظفرالدولہ،امام بخش صہبائی، مولانابرکت اللہ بھوپالی، مولاناحسرت موہانی، مولاناحبیب الرحمن لدھیانوی،ڈاکٹرسیف الدین کچلو، مولانا مظہرالحق، ڈاکٹرسیدمحمودوغیرہم نے جنگ آزادی میں بھرپورحصہ لیا۔ان کے علاوہ بھی ایک بڑی تعداد کاذکرتاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے؛جس کی یاد دلوں میں تازہ اورتاریخ کی نئی کتابوں میں محفوظ رہنی چاہیے؛ غرض ہرطرح ہرموقع پرمسلمان جنگِ آزادی میں برابرشریک رہے ہیں، جن کوآج فراموش کیاجارہاہے،کسی شاعرنے کیاخوب کہاہے:
جب پڑاوقت گلستاں پہ توخوں ہم نے دیا
جب بہارآئی تو کہتے ہیں ترا کام نہیں
رابطہ۔ رضیۃ الابرار، سلمان آباد، بھٹکل
(بشکریہ ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 4 ، جلد: 95 ، جمادی الاولی 1432 ہجری مطابق اپریل 2011ء)
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی آراء ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)