سرینگر//نیشنل کانفرنس نے حکومت ہند کی طرف سے جموں وکشمیر کے عوام کے مفادات کے تحفظ کیلئے متعارف کئے گئے اقامتی قانون کو کھوکھلا اور ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ پارٹی کے ترجمانِ اعلیٰ آغا سید روح اللہ مہدی نے اپنے ایک بیان میں متعارف شدہ قانون کو بھونڈا مذاق قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مقامی لوگوں کیلئے صرف درجہ چہارم کی اسامیاں مخصوص رکھی گئی ہیں، اس سے زیادہ بے عزتی کی کیا بات ہوسکتی ہے۔ 15سال جموں وکشمیر میں قیام پذیر رہنے والوں کو اقامتی زمرے میں لانے کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پارٹی نے کہا کہ اس کا مقصد جموں و کشمیر کا آبادیاتی تناسب بگاڑنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں تعینات مرکزی حکومت کے ملازمین ،پی ایس یو ز اور مہاجرین کے بچے بھی اب یہاں ملازمتیں حاصل کرنے کے اہل ہونگے اور ایسے میں مقامی آبادی کیلئے برائے نام اسامیاں رہ جائیں گی۔جموں و کشمیر کے لوگوں کے لئے یہ قانون کتنا ظالمانہ ہے اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کے کسی بھی حصے کا شہری محض 7سال یہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ڈومیسائل کیلئے رجوع کرسکتا ہے اور نوکری حاصل کرنے کا اہل بن سکتا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ دوسری ریاستوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کو بھی اس طرح کے حقوق حاصل ہوں؟قانون متعارف کرنے کے وقت کو زخموں پر نمک پاشی قرار دیتے ہوئے این سی ترجمانِ اعلیٰ نے کہا کہ جب پورا ملک کورونا وائرس کی وبائی بیماری سے لڑرہا ہے اور جموں وکشمیر کے عوام اور اُن کے نمائندے اپنے کنبوں اور لوگوں سے متعلق تشویش اور فکر میں مبتلا ہیں، ایسے وقت میں حکومت ہند کی طرف سے قانون سامنے لاناخود بہ خود اپنی مشکوکیت بیان کرتا ہے۔ نئی دلی یہ بات بخوبی جانتی ہے کہ اس وقت لوگ Covid-19کی عالمگیر وباء سے پیدا شدہ صورتحال سے پریشانیوں، مصائب اور مشکلات سے دوچار ہیں اور وہ اس وقت اس جانب کوئی توجہ نہیں دیں گے۔انہوں نے کہا کہ حکومت ہند کے یہ اقدام بظاہر عوام کیساتھ دھوکہ اور فریب ہیں ۔ اقامتی قانون کو مسترد کرتے ہوئے این سی ترجمان نے کہا کہ ہماچل پردیش اور دیگر ریاستوں میں ڈومیسائل قانون کے تحت زمین کے حقوق محفوظ رکھے گئے ہیں جبکہ جموں و کشمیر اقامتی قانون میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ اس قانون میں جموں وکشمیر کے عوام کی زمینوں کے تحفظ کی کوئی بات نہیں۔ نیشنل کانفرنس نے اس بات پر بھی حیرانگی کا اظہار کیا کہ ڈومیسائل کی اجرائی میں کسی بھی قسم کی تحقیق کا طریقہ کار نہیں رکھا گیا ہے اورایک تحصیلدار سطح کا ایک آفیسر اقامتی سرٹیفکیٹ اجراء کرنے کا اہل ہوگا۔مرکزی حکومت کی دوغلی پالیسی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے ترجمان اعلیٰ نے کہا جہاں ملک میں 70سال سے قیام پذیر لوگوں کو شہریت ثابت کرنے کیلئے کہا جارہا ہے وہیں جموں وکشمیر میں 10سے 15سال قیام کرنے والوں کو شہری حقوق دیئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ہند نے جموں وکشمیر کے لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک اب بھی جاری رکھا ہے۔
زخموں پر نمک پاشی ، واپس لیا جائے: پی ڈی پی
سرینگر// پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) نے مرکزی حکومت کی طرف سے جموں وکشمیر میں نافذ کئے گئے اقامتی قانون کو غیر معقول اور لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے اس کی فوری واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔پارٹی کے جنرل سکریٹری اور سابق ایم ایل سی سریندر چودھری نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ مرکزی حکومت کی طرف سے جاری یہ حکمنامہ بے موقع و محل اور بیوروکریسی کے ذہنی انتشار کا نتیجہ ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ حکمنامہ س وقت جاری کیا گیا جب پورے ملک کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر میں بھی مکمل لاک ڈاؤن ہے اور کورونا وائرس کے باعث لوگوں کو خوف ناک خطرات لاحق ہیں۔چودھری نے کہا کہ ایسے حکمنامے جاری کرکے ارباب اقتدار یا تو شتر مرغ کا کھیل کھیل رہے ہیں یا جان بوجھ کر لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔انہوں نے مرکزی حکومت سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کو ترجیح دینے کی اپیل کرتے ہوئے اس حکمنامے کو فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
تضحیک آمیز پیپلز کانفرنس
سرینگر// جموں وکشمیر پیپلز کانفرنس نے مرکزی حکومت کی طرف سے جموں وکشمیر میں نافذ کئے گئے اقامتی قانون کو تضحیک آمیز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی کت برابر ہے۔پیپلز کانفرنس لیڈر اور سری نگر میونسپل کارپوریشن کے میئر جنید عظیم متو نے اپنی پارٹی کے اقامتی حقوق کے رد عمل میں جاری بیان کو اپنے ٹویٹر ہینڈل پر پوسٹ کیا جس میں کہا گیا’’یہ حکمنامہ ان (جموں وکشمیر اپنی پارٹی) کی توقعات سے بھی کوسوں دور ہے جنہیں تھوڑے بہت ریلیف کی امید تھی،اقامتی قانون کی یہ نئی توضیح تضحیک آمیز ہے، یہ لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی کے برابر ہے‘‘۔
شمال مشرق کی طر ز پر حقوق دیئے جائیں:کانگریس
جموں //سید امجد شاہ //اقامتی قانون کو کانگریس نے مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیاہے کہ مرکزکے زیر انتظام شمال مشرقی علاقوں کی طرز پر جموں وکشمیر میں بھی روزگار اور اراضی کے حقوق کا تحفظ کیاجائے ۔کانگریس کے جموں وکشمیر صدر غلام احمد میر نے اقامتی قانون کو تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ساتھ ایک بھدا مذاق قرار دیتے ہوئے کہاکہ بھارتیہ جنتاپارٹی جموں وکشمیر کے نوجوانوں سے جھوٹ بول رہی ہے ۔انہوںنے کہاکہ بھاجپا لیڈران کی طرف سے بارہا یہ یقین دہانیاں دی گئیں کہ ملازمت اور اراضی کے حقوق کا تحفظ ملے گالیکن اس کے برعکس یہ نوٹیفیکیشن جاری کردیاگیاہے جس کے بعد اب نوجوان دھوکہ دہی کی پالیسی محسوس کررہے ہیں ۔انہوںنے کہاکہ یہ نوٹیفکیشن بالکل ناقابل قبول ہے اور اس سے نوجوانوں کے حقوق چھن گئے ہیں ۔میر نے کہاکہ جموں وکشمیر کے نوجوانوں کیلئے روزگار کا واحد انحصار سرکاری ملازمت ہے اور اس میں سے بھی بڑا حصہ بیرون جموں وکشمیر کو جائے گا۔ انہوںنے کہاکہ آئینی تحفظ کے ساتھ ساتھ ملازمت اور اراضی کے حقوق کاتحفظ کیاجائے اور شمال مشرقی خطوں کی طرز پر یہاں بھی حقوق فراہم کئے جائیں ۔اس دوران جموں و کشمیر پردیش کانگریس کمیٹی کے نائب صدر و سابق وزیر غلام محمد سروڑی نے بھی مرکزی زیر اہتمام علاقہ جموں و کشمیر کیلئے نئے اقامتی قانون پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون سے باہر کے لوگ جموں و کشمیر میں زمینیںخریدیں گے اور ملازمتیں حاصل کریں گے جس کی وجہ سے یہاں بے روزگاری اور غربت جیسے حالات پیدا ہونگے۔اقامتی قانون کو عوامی مفاد کے خلاف قراد دیتے ہوئے جموں و کشمیر پردیش کانگریس کمیٹی (جے کے پی سی سی) کے ایک اور لیڈر جی این مونگا نے اقامتی قانون پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا’’کہ ایک طرف پوری دنیا وبائی وائرس کورونا کی لپیٹ میں ہے، تو بی جے پی حکومت نے جموں وکشمیر پر ایک اور حکم لاگو کر کے یہاں کے لوگوں کے زخموں پر مزید نمک چھڑکا ہے‘‘۔ مونگا نے کہا کہ ایسے فیصلوں سے بی جے پی کے اصل رنگ دکھائی دے رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ حکم جموں وکشمیر کے لوگوں، خصوصاً یہاں کے نوجوانوں کی خواہشات اور مفادات کے خلاف ہے ۔
زمینی حقائق کو بدلا نہیں جا سکتا: تاریگامی
سرینگر // سی پی آئی ایم کے ریاستی سیکریٹری یوسف تاریگامی نے اقامتی قانون کی نوٹفکیشن کو بے معنیٰ اور جموں کشمیرکے لوگوں کے جذبات احساسات کے منافی قراردیتے ہو ئے کہا ہے کہ اس سے زمینی حقائق کو بدلایانہیں جاسکتا ہے ۔انہوں نے کہاکہ نوٹفکیشن اجراء کرکے مرکزی حکومت نے جموں کشمیرکے لوگوں میں جو خدشات پائے جاتے تھے ان کوصحیح ثابت کیا ہے اور جموں کشمیرکے لوگ اس بات پرحق بجانب ہیں کہ نئی دہلی اپنے منصوبوںکوپائے تکمیل تک پہنچانے کیلئے اس طرح کی کارروائیاں عمل میں لارہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایسے فیصلوں کو واپس لیا جانا چاہئے ۔تاریگامی نے کہا کہ جموں و کشمیر میں بے روزگاری کی شرح قومی بے روزگاری کی اوسط شرح سے پہلے ہی زیادہ ہے۔ اس نئے قانون کے ساتھ ہی جموں و کشمیر کے نوجوانوں کو سرکاری شعبے میں جو بھی چھوٹی چھوٹی ملازمتیں دی جارہی تھیں وہ اب ان کیلئے خصوصی نہیں ہوں گی ۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں بہت سے مقامات ایسے ہیں جیسے تلنگانہ ، ہماچل پردیش ، ناگالینڈ اور سکم کے قبائلی علاقے جہاں ملک کے باقی حصوں کے لوگ زمین نہیں خرید سکتے ہیں ، صرف جموں و کشمیر کو ہی کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے؟
آل انڈیا ریڈیو سے کشمیر ی نیوز بلیٹن بند ہونا مذموم:سوز
سرینگر// سابق مرکز ی وزیر پروفیسر سیف الدین سوزنے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ آل انڈیا ریڈیو سے کشمیری زبان میں خبروں کا بلیٹن نشر کیا جانا بند کیا گیا ہے، جو قابل مذمت ہے۔ اپنے ایک بیان میں سوز نے کہا کہ اُنہوں نے کئی لوگوں کی پر اسرار مانگ پر مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات شری پرکاش جاوڈیکر کے پاس شکایت درج کرتے ہوئے ’’انہیں اپنی وزارت میں بیوروکریٹک رویے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وزارت اطلاعات و نشریات اور پرسار بھارتی نے مل کر روزانہ ٹرانس مشن آف نیوز کی فہرست سے نشر شدہ کشمیری نیوز بلیٹن کو بند کیا ہے ،جو افسوس ناک ہونے کے علاوہ قابل مذمت بھی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا’’ میں نے وزیر موصوف کی نوٹس میں یہ بات بھی لائی کہ وزارت اطلاعات و نشریات اور پرسار بھارتی کے حکام کے اس اقدام سے کشمیریوں میں مجموعی طور پر کافی ناراض پائی جاتی ہے کیوں کہ پچھلی تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ تک آل انڈیا ریڈیو کی طرف سے ہر صبح سنسکرت نیوز بلیٹن کے بعد کشمیری نیوز بلیٹن کا آغاز ہوا کرتا تھا‘‘پروفیسر سوز نے وزیر موصوف سے درخواست کی کہ وہ کشمیری نیوز بلیٹن کو آل انڈیا ریڈیو کی طرف سے بند کئے جانے کا حکم واپس لیں اور اس کی بحالی کو اولین فرصت میں یقینی بنائیں۔ سوز نے اس سلسلے میں پرسار بھارتی کے چیئرمین شری ششی ۔ایس ۔ویمپتی سے بات کی اور ان سے فوری طور پر کشمیری نیوز بلیٹن کو بحال کرنے کی تاکید کی۔بیان کے مطابق شری ششی جی نے اُنہیں یقین دلایا کہ وہ آل انڈیا ریڈیو کے سے کشمیری نیوز بلیٹن کی بحالی میں ذاتی طور پر دلچسپی لیں گے اور اسکی بحالی کو یقینی بھی بنائیںگے۔