حسین محتشم
پونچھ//حالیہ دنوں وزیر اعظم نریندر مودی کے بانہال سنگلدان ریل سروس کو کو ہری جھنڈی دکھانے کے بعد پیر پنجال کے علاقے کی عوام میں جموں پونچھ ریلوے پروجیکٹ شروع ہونے کی اُمید دوبارہ پیدا ہوگئی ہے۔جموں پونچھ ریلوے پروجیکٹ کو تجویز کیے جانے اور بجٹ مختص کیے جانے کے باوجود کسی بھی حکومت نے اسے عملی جامہ نہیں پہنایا۔خطہ پیر پنچال کی سماجی شخصیت ایڈوکیٹ ایاز مغل نے اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ جموں پونچھ ریلوے پروجیکٹ کو “مالی طور پر ناقابل عمل” قرار دیا گیاجس نے دوبارہ اس خطہ کے لوگوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔انہوں نے کہا کہ پیر پنجال کے علاقے میں ترقی کا مسلسل جمود ہے۔انہوں نے کہاکہ چاہے ہم اسے عوام کی بدقسمتی سمجھیں، قائدین کی ناکس کارکردگی، یا حکومت کی جانب سے لاپرواہی قرار دیں، یہ المناک کہانی جوں کی توں رہی ہے۔انہوں نے کہا یہاں کی عوام کے ساتھ ترقی کے وعدے محض تقریروں تک محدود ہیں، جب زمین پر عمل درآمد کی بات آتی ہے تو اس میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوتی۔انہوں نے کہاکہ اس کی زندہ مثال پروجیکٹ ہے، یہ ایک خواب جو 70 سال سے یہاں کے عوام کو دکھایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 22مارچ 2012کو یو پی اے حکومت کی طرف سے جموں۔راجوری۔پونچھ ریلوے لائن کی تجویز، امید کی ایک کرن لگ رہی تھی، جسے ایک قومی پروجیکٹ کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔ تاہم23دسمبر 2018کو ریلوے کے وزیر پیوش گوئل کی طرف سے گرین سگنل نے محض امید کو ہوا دی۔سروے کیے گئے، راستوں کی نقشہ کشی کی گئی اور اس پروجیکٹ کو تین سال کے اندر مکمل کرنے کے لیے 2300کروڑ روپے کا تخمینہ بجٹ مختص کیا گیا۔اس دوران ریلوے روٹ کو جموں سے پونچھ تک اکھنور، کلیتھ، ڈوری، ڈگر، چوکی چورہ، بھامبلہ، نوشہرہ اور راجوری کے راستے چلانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ پروجیکٹ کے ڈائریکٹر اور ریلوے بورڈ کے سینٹرل پبلک انفارمیشن آفیسر (سی پی آئی او) پنکج کمار کے ذریعہ فراہم کردہ آر ٹی آئی جوابات کے مطابق جموں اور پونچھ کے درمیان 223 کلومیٹر کی لمبائی کے ساتھ نئی ریلوے لائن کے لیے سروے 2017-18 میں مکمل کیا گیا تھا۔ تاہم “مالی طور پر ناقابل عمل” تصور کیے جانے کی وجہ سے اس منصوبے کو آگے نہیں بڑھایا جا سکا۔ انہوں نے مزید کہا پونچھ اور راجوری کے لوگ مایوسی کا شکار ہیں، ہمیشہ کے لیے انتظار کرنا، جیسا کہ ان کا مقدر بن چکا ہے۔انہوں نے کہا یہ پہلا موقع نہیں جب پیر پنجال کے علاقے میں ایسا ہوا ہے بلکہ ہوائی اڈوں، مغل روڈ سے گزرنے والی سرنگوں، پونچھ میں میڈیکل کالج کے قیام، جموں یونیورسٹی کے کیمپس کو وسعت دینے، کیندریہ ودیالیوں کے قیام، منی سیکرٹریٹ کی تعمیر، یا یہاں تک کہ پونچھ کے قلعے کو ثقافتی ورثہ قرار دینے، ساوجیاں، لورن اور پیر کی گلی کوسیاحت کے نقشے پر لانے کی بات ہو تو یہاں مقامی لوگوں کی امنگوں کے ساتھ ہمیشہ کھیلا گیا اور ان کے ووٹ کو سیاست کا یرغمال بنایا گیا ہے۔انہوں نے کہا اب وقت آگیا ہے کہ پیر پنجال کے لوگ اپنے بنیادی حقوق پر غور کریں اور مستقبل میں اپنے لیڈروں کا انتخاب کرنے سے پہلے خود سے تنقیدی سوالات کریں، بصورت دیگر یہ لیڈر ہمیشہ کی طرح اپنے لمبے اور کھوکھلے وعدوں کے ساتھ ان کا استحصال کرتے رہیں گے۔