ایم عمران خان
حکومت جموں و کشمیر کا حال ہی میں شائع شدہ اقتصادی سروے 2023 خطے کی لیبر مارکیٹ کی امید افزا تصویر پیش کرتا ہے۔ یہ شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں قابل ستائش بحالی کی نشاندہی کرتا ہے، جو کووڈ بحران کے بعد بحالی کا عندیہ دیتا ہے۔ تاہم ہمیں احتیاط کے ساتھ ان نتائج پر غورکرنا چاہئے اور رپورٹ کی ان باریکیوں کی گہرائی میں جانا چاہئے جو شاید فوری طور پر ظاہر نہ ہوں۔ اقتصادی سروے 2023 میں دو اہم کوتاہیاں ہیں جو مجموعی تشخیص کی صحت پر سوالیہ نشان لگاتی ہیں اور ہمیں بحالی کی حقیقی حد اور افرادی قوت پر اس کے اثرات کو سمجھنے کیلئے ان کا ازالہ کرنا چاہئے۔
سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ جموں و کشمیر کی معیشت کو دوہرا لاک ڈاؤن برداشت کرنا پڑا۔ 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 اور 35A کی منسوخی، اس کے بعد 25 مارچ 2020 کو ملک گیر کووڈلاک ڈاؤن نے جموںوکشمیرکی معیشت پر اہم چیلنجز مسلط کر دئے تاہم سروے اس دوہرے لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملازمتوں یا کام کے نقصان کی شدت کا تخمینہ فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ دوم، سروے کارکن اور لیبر فورس کی شرکت کی شرح میں اضافے کی بنیاد پر کووڈ کے بعد کی بحالی کا دعویٰ کرتا ہے لیکن معیشت میں پیدا ہونے والے روزگار کی نوعیت کے لحاظ سے بحالی کے معیار کے جائزے کی اطلاع دینے میں ناکام رہا ہے۔ ایسے عوامل کو مدنظر رکھے بغیر ہم خطے کی افرادی قوت پر ان لاک ڈاؤن کے اصل اثرات کو نظر انداز کرنے کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔
جموں و کشمیر میں لیبر مارکیٹ کی صورت حال کے بارے میں ایک جامع تفہیم حاصل کرنے کیلئے ہمیں میکرو نمبروں یا بڑے بڑے اعدادوشمار سے آگے بڑھنا چاہئے اور متواتر لیبر فورس سروے (PLFS) سے مزید تفصیلی اعداد و شمار کا جائزہ لینا چاہئے۔ یہ سروے 2017-18 سے ہر سال دیہی اور شہری دونوں علاقوں کیلئے اور سہ ماہی شہری علاقوں کیلئے صرف وزارت شماریات اور پروگرام نفاذ (MOSPI)حکومت ہند کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ بحران کی مدت کے دوران ملازمتوں یا کام سے محروم ہونے والے کارکنوں کی تعداد کے تخمینے پر غور کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ 2011 کے بعد مردم شماری کے اعداد و شمار کی عدم دستیابی کی وجہ سے جموں و کشمیر میں سال 2021-22 کیلئے آبادی کے تخمینے صحت اور سماجی بہبود کی وزارت، حکومت ہند کی طرف سے جاری کردہ سرکاری تخمینوں سے اخذ کیے گئے تھے۔ تخمینہ شدہ آبادی 134.4 لاکھ تھی جس میں سے 51 لاکھ ملازم تھے اور 5 لاکھ بے روزگار تھے۔ پیریاڈک لیبر فورس سروے (PLFS) تخمینوں کو دیہی علاقوں کو چھوڑ کر صرف شہری علاقوں کے سہ ماہی سروے کا احاطہ کرتا ہے حالانکہ افرادی قوت کی اکثریت دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس کمزوری کے باوجود 2021-22 میں شہری علاقوںکے سروے نے تقریباً 14.5 لاکھ کارکنوں کے ساتھ پریشان کن رجحانات سے پردہ اٹھایا ہے۔
اس پیچیدگی میں حصہ ڈالنے والا ایک اہم عنصر یہ ہے کہ کس طرح روزگار کی تعریف کی جاتی ہے اور اعداد و شمار تک پہنچنے کیلئے میٹرکس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ سرکاری رپورٹ کے مجموعی روزگار کے اعدادوشمار کارکنوں کے ایک اہم زمرے کو چھپاتے ہیں جنہیں ملازمت میں شمار کیا جاتا تھا لیکن وہ بیماری یا دیگر وجوہات کی وجہ سے اپنے کام کی جگہوں پر حاضر نہیں ہو سکے۔ کرنٹ ویکلی سٹیٹس (CWS) کی تعریف کے مطابق یہ کارکن عام طور پر افرادی قوت کا ایک فیصد سے بھی کم ہوتے ہیں۔ تاہم لاک ڈاؤن کے دوران ورکروں کا یہ زمرہ اپریل تا جون 2020 کی سہ ماہی میں کل ملازمین کے تقریباً چالیس فیصد تک بڑھ گیاجوشہری علاقوں میں کام نہ کرنے کی اطلاع دینے والے کارکنوں میں غیر معمولی اضافہ تھا۔ ان کارکنوں کی اکثریت نے اس عرصے کے دوران کوئی کمائی نہیں کی جس کیلئے جموںوکشمیر میں متواتر لاک ڈائونوں کے نتیجہ میں براہ راست کام کھونا قرار دیاگیا۔ گو کہ کچھ کارکنوں نے کام کھو دیا لیکن اپنی ملازمت برقرار رکھی، دوسروں کو دوہرے لاک ڈاؤن کی وجہ سے مکمل طور پر ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ لاک ڈاؤن سے متاثرہ سہ ماہیوں کا عام سال کے سہ ماہیوں سے موازنہ کرتے ہوئے یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ساڑھے سات لاکھ سے زیادہ کارکنوں کو اپنی ملازمتیں برقرار رکھنے کے دوران کام کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا، اور دوہرے لاک ڈاؤن کی وجہ سے تقریباً پانچ لاکھ کارکن اپنی ملازمتوں سے مکمل طور پر ہاتھ دھو بیٹھے۔
لیبر مارکیٹ میں بحالی کے عمل کو صحیح معنوں میں سمجھنے کیلئے ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ یہ سب کچھ ہوسکتا ہے لیکن یکساں نہیں۔معاشی تناؤ اور بیرونی جھٹکوں نے گھرانوں کو کام کی متبادل شکلیں تلاش کرنے پر مجبور کر دیا ہے، جیسے کہ خود روزگار، حالانکہ وہ کم ہوتے اجرت پر مبنی تھے۔کمزور کارکنان، جو اپنی روزی روٹی کیلئے روزگار پر منحصر ہیں، کو بدلتے ہوئے منظر نامے کے مطابق ڈھالنا چاہئے۔ مزید برآں خواتین اور زیرتعلیم افراد ،جو روایتی طور پر لیبر فورس سے باہرہیں، مشکل حالات کے جواب میںلیبر ورک فورس میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ لاک ڈاؤن کی مدت کے دوران مردوں اور عورتوں دونوں کیلئے خود روزگار اور آرام دہ اجرت کے کام میں اضافہ ہوا ،خاص طور پر خواتین کے خود روزگار اور مردوں کے آرام دہ اجرت کے کام میں نمایاں اضافہ ہوا۔ تاہم، لیبر مارکیٹ میں خاطر خواہ بحالی کے باوجود، افرادی قوت کے غیر رسمی ہونے کا واضح اشارہ اور بحران کے بعد کی بحالی میں پریشانی کے آثارنمایاں ہیں۔
چونکہ جموں و کشمیر بحالی کا اپنا راستہ بنا رہا ہے، روزگار کے مجموعی اعداد و شمار کی بنیادی پیچیدگیوں کو پہچاننا بہت ضروری ہے۔ خطے کی لیبر مارکیٹ پر خارجی جھٹکوں کے حقیقی اثرات کو سمجھنے کیلئے ایک اہم نقطہ نظر ضروری ہے۔ ہمیں ٹارگٹڈ پالیسیاں تشکیل دینی چاہئیں جو افرادی قوت کے مختلف طبقات کو درپیش متنوع چیلنجوں سے نمٹیں اور زیادہ منصفانہ اور جامع بحالی کی راہ ہموار کریں جو خطے کی اقتصادی بحالی میں تمام سٹیک ہولڈروں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنائے۔ ان باریکیوں کو تسلیم کرتے ہوئے ہم جموں و کشمیر کے روشن اور زیادہ امید افزا مستقبل کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔
(ڈاکٹرایم عمران خان سکول آف اکنامکس، این ایم آئی ایم ایس، ممبئی میںبحیثیت اسسٹنٹ پروفیسرتعینات ہیں۔)
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اورانہیںکسی بھی طو ر کشمیر عظمیٰ سے منسوب کیاجاناچاہئے۔)