جموں//جموں میں روشنی ایکٹ کے تحت اراضی پرفیصلے کے نام پر ایک طبقہ کونشانہ بنانے کا الزام عائد کرتے ہوئے جموں کے ممتاز شہریوں نے کہاکہ بٹھنڈی اور سنجواں علاقوں کے رہائشیوں سمیت اقلیتیں خوف اورعدم تحفظ کا شکار ہیں۔سول سوسائٹی کے ممبران اور ریٹائرڈ بیوروکریٹس ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر اور ممتاز پنجابی مصنف خالد حسین، ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر خواجہ غلام احمد، ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر گلزار قریشی، ممتاز وکیل شیخ شکیل احمد، ممتاز تاجر شیخ جاوید اقبال، ریٹائرڈ ی ٹی او نسیم ملک، سرپنچ بٹھنڈی نور عالم، ریٹائرڈ AEE محمد آمین بٹ، ایڈووکیٹ دانش بٹ اور دیگران نے موجودہ حالات پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا’’حکومت کی توجہ بٹھنڈی کی طرف لانا ضروری تھا جہاں ایک ماہ کے اندر تین مسلسل احتجاج ہوچکے ہیں، اگر 25 نومبر کو مقامی افراد اور پولیس کی بروقت مداخلت نہ ہوتی تو یہ امن وامان کے ایک بڑامسئلہ پیدا ہوسکتاتھا‘‘۔ سول سوسائٹی ممبروں نے کہا کہ ان احتجاج پر متعلقہ حکام کو سنجیدگی سے دیکھنا چاہئے۔انہوں نے سوال کیا کہ سماج دشمن عناصر کا ایک گروپ سیکورٹی کے باوجود کیسے بٹھنڈی گھسنے میں کامیاب ہوا۔ان کاکہناتھا’’جموں و کشمیر بہت حساس ہے، لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ وہ بٹھنڈی، چوادی، سنجواں، گجر نگر اور اقلیتوں کی دیگر رہائشی کالونیوں کی حفاظت کو یقینی بنائے جو خطرے سے دوچار ہیں اور سیکورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات کی جانی چاہئے‘‘۔ایڈووکیٹ شیخ شکیل احمد نے کہا کہ احتجاج کے ساتھ بٹھنڈی اور دیگر رہائشی علاقوں میں ایک طبقہ کو نشانہ بنانے سے پر امن ماحول کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔ان کاکہناتھا’’جاریہ ڈی ڈی سی انتخابات میں تفرقہ انگیز ایجنڈے کے ساتھ جموں میں نفرت پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے، لوگوں میں اختلافات پیدا ہو رہے ہیں،جموں میں ایک کمیونٹی کے طبقہ کو منتخب طور پر نشانہ بنانے کے بعد خوف اور عدم تحفظ کا احساس پایاجارہاہے‘‘۔روشنی ایکٹ کے تناظر میں شیخ شکیل نے مزیدکہا ’’ایک بیانیہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ انہوں نے جموں پر آبادیاتی حملہ روک دیا ہے، جموں خطے میں روشنی کے تحت تقریباً ڈیڑھ لاکھ کنال اراضی کو باقاعدہ بنایا گیا تھا.