سیدہ عطیہ تبسم،ڈوڈہ
حسن کا موضوع ازل سے انسان کا پسندیدہ موضوع رہا ہے جسے وہ زیرِ بحث لانا چاہتا ہے۔ دراصل انسان کے اندر یہ جمالیاتی حِس خالق ِکائنات نے خود پیدا کر رکھی ہے۔ انسان کو ہر حسین شے سے عشق اور قبیح سے نفرت ہونا کسی حد تک لازم ہے۔ اللہ خود جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔اس جمال کی جھلک کہیں اسمان کی سر بلندی میں نظر آتی ہے تو کہیں زمین کی گہرائی میں۔ حسن کبھی سمندر کی تہہ میں چھپے موتی میں جلوہ گر ہوتا ہے تو کبھی مٹی میں اگنے والے گلاب میں۔ اس کی نمود کبھی بہتی ندیوں میں ہوتی ہے تو کبھی ٹھہرا ہوا جھیل حسین تر معلوم ہوتا ہے۔تعجب کی بات یہ ہے کہ ان حسین ترین مناظر سے خالق نے کبھی اظہارِ محبت نہیں کیا بلکہ اس کا صحرا صرف انسان کے سر باندھا گیا۔ تمام تخلیق میں صرف انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ خالق کی محبت کا دعویدار رہے۔ گویا خالقِ کائنات کے نزدیک حسین ترین تخلیق فقط انسان ہے اور یہ شاید اس لیے ہے کہ انسان باقی اشیاء کی طرح پابند نہیں ہے اسے اپنے حسن میں کسی حد تک ترمیم کرنے کا حق حاصل ہے۔ انسان کے اندر حسن و جمال کے دو پہلو ہیں ایک ظاہری حسن اور دوسرا باطنی۔ ظاہری حسن کو وہ کسی حد تک سنوار سکتا ہے مگر اس میں تغیر کرنے کا حق اسے حاصل نہیں جبکہ باطنی حسن اس کی اپنی سلطنت ہے جیسے چاہے اسے تعمیر کرے انسان کو حسین ترین بننے کے لیے ان دونوں کے درمیان ایک توازن برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ دورِ حاضر میں انسان کا یہ توازن دم توڑ رہا ہے۔
انسان ظاہری حسن کو از سر نو تعمیر کرنے میں اتنا مصروف ہو چکا ہے کہ باطنی خوبصورتی کا اسے خیال تک نہیں آتا۔تاریخ گواہ ہے جب جب انسان نے قدرت کے قوانین میں رد و بدل کی ہے تب تب اسے سزا بھی ملی ہے۔ حسن کے قوانین میں تغیر کی سزا دورِ حاضر کے طے شدہ بیوٹی سٹینڈرڈز (standards beauty ) ہیں۔ یہ بیوٹی سٹینڈرڈز بالکل اس دجال کی طرح ہیں جو ایک آنکھ سے اندھا ہے جسے ظاہری حسن تو دکھائی دیتا ہے مگر باطنی حسن پر اس کی کبھی نظر نہیں جاتی۔ اس ایک انکھ سے اندھے نظریے نے انسان کا چین، سکون، اعتماد، اخلاق، احساس اور انسانیت سب کا جنازہ نکالا ہے۔ یہ بیوٹی سٹینڈرڈز بتاتے ہیں کہ جلد کا رنگ کیسا ہونا چاہیے، انکھیں کتنی گہری اور ہونٹ کتنے موٹے ہونے چاہیے۔ کورین گلاسکن کو حاصل کرنے کے لیے آج ہر طرح کی پلاسٹک سرجریز (surgeries plastic )کی جا رہی ہیں جن کے بے شمار نقصانات ہیں۔ حال ہی میں 22 سالہ ایک کینیڈین ایکٹر نے بی۔ ٹی۔ ایس سنگر کے جیسا دکھنے کیلئے 12 سرجریز کروائی، جس کی وجہ سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے مشہور کردہ بیوٹی سٹینڈرڈز پر چلتے چلتے نوجوان نسل میں ذہنی امراض، اخلاقی برائیاں اور جسمانی بیماریاں آئے دن بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔خاص طور پر لڑکیاں سلم فگر اور پرفیکٹ باڈی حاصل کرنے کے چکر میں بہت سارے مسائل کو دعوت دیتی ہیں۔ چاہے وہ ڈپریشن، انزائٹی اور سٹریس ہو یا پھر کھانے اور سونے کی خرابی جیسے مسائل۔ دنیا میں 26 فیصد لوگ کھانے کی خرابی یعنی ایٹنگ دس آرڈر کی وجہ سے خودکشی کر رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ ان بیوٹی سٹینڈرز میں فٹ نہ ہونے کو موجودہ دور کے انسان نے قباحت سے تعبیر کیا ہے، جس پر پورا اترنے کے لئے وہ اپنی جان تک دے رہا ہے۔ جب کہ یہ خود حسن کی اصل کے معیار سے خالی ہیں۔
انسان کو تو ظاہری حسن کو سنوارتے ہوئے باطنی حسن کی تعمیر کرنے کا حکم ملا تھا۔غور کیا جائے تو ظاہری خوبصورتی اگر باطنی حسن سے خالی ہو تو وہ سوائے قباحت کے کچھ بھی نہیں۔ چاہے ہونٹ دنیا کے ہر بیوٹی سٹینڈرڈ کے مطابق حسین ترین کیوں نہ ہوں اگر کھلنے پر تلخ الفاظ کے تیر برسانا شروع کر دیں تو فقط وجود کو چھلنی کر سکتے ہیں،کسی کی محبت یا تحسین حاصل نہیں کر سکتے۔حسن تو حسین ہوتا ہے جو خود سے منسوب ہر شے کو حسین ترین بنا دیتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اس حسن کو ایک آنکھ سے اندھی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا ہے جس کی وجہ سے اخلاقی اور باطنی خوبصورتی دم توڑ رہی ہے۔ دراصل انسان کے اندر کی جمالیاتی حسن و قبح میں تمیز کرنا بخوبی جانتی ہے مگر اس حِس کو زندہ رکھنا ضروری ہے۔
ای میل۔[email protected]
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاًاپنی ہیں اور انہیںکسی بھی طورکشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)