سرینگر //جموں وکشمیر واحد ایسا خطہ ہے جہاں سرکاری طور پر جسمانی اور ذہنی طور معذوربچوں کیلئے کوئی مربوط ادارہ موجود نہیں ہے۔نہ صرف یہ بلکہ کوئی سرکاری پالیسی ہی موجود نہیں ہے۔حالانکہ شورش زدہ علاقے میں جسمانی اور ذہنی طور معذورین کی تعداد دیگر امن پسند علاقوں کی نسبت بہت زیادہ ہوتی ہے۔جموں کشمیر، خاص کر وادی کشمیر میں جسمانی و ذہنی طور پر کمزور بچوں کی کوئی مصدقہ تعداد موجود نہیں ہے لیکن جموں کشمیر کی متواتر حکومتوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً اس ضمن میں سروے کی جاتی رہی ہے۔2012سے جموں کشمیر میں اس حوالے سے باضابطہ طور پر سرکاری سروے کا آغاز کیا گیا جسے(تلاش) کا نام دیا گیا۔2018 میںآخری سروے کی گئی، جس کے مطابق ایسے 2000 مڈل ، ہائی و ہائر سکنڈری سکولوں کی نشاندی کی گئی ہے جن میں قریب 80ہزار بچوں کا داخلہ کیا گیا لیکن ان میں سے بیشتر نے داخلہ لینے کے بعد سکولوں کا رخ نہیں کیا۔جموں کشمیر میں ایسا کوئی سرکاری ادارہ نہیں ہے جن میں جسمانی اور ذہنی طور پر ناخیز بچوں یا افراد کی کوئی فہرست مرتب کی گئی ہو اور نہ کوئی سرکاری ریکارڈ دستیاب ہے۔گوکہ محکمہ سوشل ویلفیئر ایسے افراد کو ماہانہ ایک ہزار روپے مشاہرہ دے رہا ہے جو انکے بینک کھاتوں میں براہ راست جمع کیا جاتا ہے لیکن جسمانی اور ذہنی مریضوں کی سوشل ویلفیئرمحکمہ میں بھی کوئی مصدقہ تعداد دستیاب نہیں ہے۔جموں کشمیر میں سولنہ رام باغ سرینگر میں ’ابھینندن ہوم‘ ایسا واحد سرکاری ادارہ ہے جسے پہلے ایک چیئرٹیبل ٹرسٹ چلا رہا تھا لیکن حکومتی تحویل کے بعد بھی اسکی حالت نہیں سدھر سکی ہے۔لیکن اسکے علاوہ ایسے بہت سارے غیر سرکاری ادارے ذاتی طور ر قائم کئے گئے ہیں جن کی تعداد 12ہے اور جو بارہمولہ، سوپور، پٹن،سرینگر اور بجبہاڑہ میںنادار بچوں کیلئے ادارے چلائے رہے ہیں۔ان 12سکولوں میں قریب 800بجے زیر تعلیم ہیں۔بارہمولہ اور پٹن میں آنکھوں کی بصارت سے محروم بچوں کیلئے مخصوص سکول قائم کئے گئے ہیں جبکہ سوپور میں ذہنی طور پر کمزور بچوں کیلئے ادارہ قائم کیا گیا ہے۔سرینگر کے بمنہ علاقے میں 2، چھانہ پورہ اور منور آباد میں بھی ایک ایک ادارہ قائم کیا گیا ہے۔
بجبہاڑہ میں اسی طرح کا ادارہ چلانے والے زیبہ آپا انسٹی چیوٹ کے قومی انعام یافتہ سربراہ ڈاکٹر جاوید احمد ٹاک ،جو خود جسمانی کمزوری کے شکار ہیں،اور کئی برسوں سے رضاکارانہ طور پر کام کر رہے ہیں ،نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ جسمانی و ذہنی طور کمزوربچوں کیلئے حکومتی سطح پر کوئی پالیسی موجود نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ وادی میں 12سکول رضاکارانہ طور پر چلائے جارہے ہیں جو صرف لوگوں کے عطیہ پر چل رہے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے ان سکولوں کو کوئی مالی معاونت فراہم نہیں کی جارہی ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ عام طور ر ایسے اداروں یا سکولوں میں کم آمدنوالے کنبوں سے تعلق رکھنے والے بچے زیر کفالت ہیں، جن کے والدین کو انکی فکر ستارہی ہے کیونکہ دسویں یا بارہویں کے بعد ایسے بچوں کا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔انہوں نے کہا کہ غریب والدین تربیتی کالجز میں اپنے بچوں کو نہیں بھیج سکتے کیونکہ وہ سالانہ فیس یا ڈونیشن کے نام پر لاکھوں روپے ادا نہیں کرسکتے۔انہوں نے کہا کہ وادی میں بارہویں تک ایسے بچوں کو غیر سرکاری سکولوں میں تعلیم دی جارہی ہے لیکن یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے بلکہ حکومت کو جسمانی اور ذہنی طور کمزور بچوں کے مستقبل کو بچانے کیلئے کوئی سرکاری پالیسی بنانی چاہیے تاکہ ایسے ہزاروں بچوں کی نہ صرف کفالت کی جاسکی بلکہ انکے مستقبل کو بھی بچایا جاسکے۔ڈیولپمنٹل تھرپسٹ ڈاکٹر ایوب، جو بمنہ سرینگر میں ایسے بچوں کیلئے سکول چلا رہے ہیں، نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کورونا لاک ڈائون سے قبل بچوں کو آمنے سامنے بٹھاکر پڑھایا جاتا تھا ،وہ سب ختم ہو گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ بمنہ میں 2سکول قائم ہیں ،جس میں سے ایک سکول میں 40ایسے بچے زیر تعلیم ہیں جنہیں سننے سمجھنے اور بولنے میں کافی پریشانی ہوتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ایسے سکولوں کو چلانے کیلئے ہمیں کوئی سرکاری مدد نہیں چاہیے لیکن کوئی سرکاری پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے ان بچوں کو مستقبل تاریک دکھائی دے رہا ہے۔انکا کہنا تھا کہ سرکاری نوکریوں میں کوٹا رکھا گیا ہے لیکن اسے دیا نہیں جاتا، جو المیہ سے کم نہیںہے۔