سید مصطفیٰ احمد ۔بڈگام
زندگی کے اصل معنی ہے سوچ سمجھ کر اور پورے دھیان کے ساتھ کوئی کام انجام دینا۔ اگر کوئی انسان کچھ وقت کے لئے جاگ جاتا ہے اور پھر گہری نیند سوتا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ یہ انسان سویا ہوا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم سب سونا پسند کرتے ہیں۔ ہم عام طور پر جاگ کر سوتے ہیں۔ آنکھیں کھلی ہوئی ہیں مگر پھر بھی نیند میں ہے۔ سونا لوگوں کو اس لئے پسند ہے کیونکہ نیند دُکھ کو بھلا دیتی ہے اور محنت سے جی چرانا اکثر آبادی کو پسند ہے۔ نیند میں ذمہ داریاں بھول جاتی ہیں اور کشٹ ختم ہوجاتا ہے۔ اگر ایک دو فٹ چوڑی اور بیس فٹ لمبی کوئی لکڑی کا ٹکڑا ہو اور اسے زمین پر رکھا جائے، ہر کوئی اس پر چل سکتا ہے، کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہونگی۔
اس کے برعکس اگر یہی لکڑی بیس فٹ کی اونچائی پر رکھی جائے تو چلنا مشکل ہوجائے گا۔ وہی لکڑی ہے مگر ایسا کیا ہوا کہ سارا ہوش پیروں میں چلا گیا اور اب جاگنا ضروری ہوگیا۔ اس کو ہم اس انداز سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہمارا جینے کا ڈھنگ بھی سطحی ہے۔ ہم surface level کی زندگی گزارتے ہیں۔ پیسوں کی بھرمار ہو اور عبادت کے لئے کچھ رسومات کی ادائیگی، اس سے زیادہ اور کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ البتہ جو شخص اس سے اوپر اٹھ کر دیکھے گا، اس کی زندگی میں نیند کا کوئی بھی نشان نہیں ہوگا۔ وہ نیند میں بھی جاگے گا۔ اس کے سامنے زندگی کا بڑا مقصد ہے۔ ایک منٹ کی بھی غفلت بھاری نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اس انسان کا ہر کوئی عمل ہوش سے برا ہوا ہوگا، وہ جاگتے سوتے جاگتےہر آن ہوشیار رہے گا۔ اس کے ذہنیت اس قسم کی ہے کہ کسی بھی وقت اس کی گردن پر تلوار سے حملہ کیا جاسکتا ہے اور اسے تیار رہنا چاہئے۔ وہ نیند میں بھی ماحول کی نبض کو محسوس کرتے ہوئے سوتا ہے۔ لوگوں کے خیالات کی آہٹیں بھی اس کے کانوں سے ٹکراتی رہتی ہیں۔ وہ ہوا کے رُخ سے آنے والے وقت کی جانکاری حاصل کرتا ہے۔ وہ اٹھنے والے قدم سے پہلے واپسی کے بارے میں سوچتا ہے۔ وہ بولنے کے وقت چھپ ہوتا ہے اور چھپ ہونے کے وقت بولتا ہے۔
ہمارے سونے کی پیچھے بہت سارے وجوہات ہیں۔ اس قسم کی limitations اچانک سے پیدا نہیں ہوتی ہیں۔ اندرونی اور بیرونی وجوہات اس میں اپنا اپنا رول نبھانا کر حالات کو یہاں تک پہنچا دیتے ہیں کہ جاگنا ایک بوجھ دکھائی دیتا ہے۔ سب سے پہلا ہے زندگی کے متعلق تنگ نظریہ۔ ہم زندگی کو محدود نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ ہمارے لئے زندگی بس پیسے کمانا، گھر بنانا، رسمی شادیاں رچانا، وغیرہ ہیں۔ اس پاگل دوڑ میں جاگنے کی فرصت کس کو ہوگی۔جب لذیذ کھانے اور چلانے کے لئے گاڑیوں کی بہتات ہو،تب کس کو مجبوری ہے کہ وہ جاگ جائے۔ زندگی کا جو مزہ لطف اٹھانے میں ہے وہ گہرائی سے سوچنے میں نہیں ۔ چیزوں کی ساخت کی اتھاہ گہرائیوں میں غوطہ زن ہونے سے تکالیف ہوتے ہیں، اس جھنجھٹ میں اب کون پڑے گا!، یہ آج کا انسان سوچتا ہے۔ دوسرا ہے دین سے دوری۔ دین اسلام میں یہ واضح کیا گیا ہے دنیا کی زینت حرام نہیں ہے۔ اس سے لطف اندوز ہونا کوئی برائی نہیں ہے۔ مگر اس میں مگن ہونا تباہیوں کا باعث ہیں۔ دنیا کی ہر کوئی چیز عبرت کا سامان چھپائی بیٹھی ہے۔ اب یہ ایک انسان کے لئے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ ہر چیز کا گہرائی سے مشاہدہ کرے۔ اس سے enlightenment کے دروازے کھلنے کے مواقع زیادہ ہونگے۔ اس کے برعکس اگر دین کو صرف رسومات تک محدود کیا جائے، تو نیند میں مبتلا ہونے کے مواقع زیادہ بڑھ جائیں گے۔ دین کا مطلب ہے آگہی۔ آگہی کا مطلب ہے جاگنا۔ جاگنے کا مطلب ہے غور و فکر کرنا۔ جب انسان میں غور و فکر کرنے کا مادہ پیدا ہوجائے، اس وقت سے ہی نیند ختم اور دل کی آنکھیں روشن ہوجاتی ہے۔ تیسرا ہے نقالی۔ اگر کوئی آدمی نیند میں مگن ہے ہم بھی اس کی طرح ہونا چاہتے ہیں۔ اس کی حرکات و سکنات کو من و عن follow کرنا ایک duty سمجھتے ہیں۔ کھبی نیند میں دنیاوی ترقی ہوسکتی ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے ہم ان کی پیروی میں اندھے ہوجائیں۔ ایک استاد نے اندھیری رات میں اپنے شاگرد کا دِیا بجھا دیا۔ شاگرد نے حیران ہوکر جواب دیا کہ یہ کیسا مذاق ہے۔ استاد نے کہا کہ دوسروں کی روشنی کے سہارے جینا بھی کوئی جینا ہے۔ اپنی اندر کی روشنی سے اندھیروں کے بیچ میں راستہ بنانا ہی حاصل زندگی ہے۔ Struggling in the dark سے روح نکھر جاتی ہے اور زندگی کے بند دروازے کھلتے ہیں ۔
اگر ہم ہمیشہ کے لئے جینا چاہتے ہیں تو جاگنے کے مراحل سے گزرنا ہوگا۔ جاگنا موت کے مترادف ہے۔ مگر اس کی مٹھاس کبھی بھی زائل نہیں ہوتی ہے۔ خدا کو بھی blind followers سے نفرت ہے۔ وہ ان سے محبت کرتا ہے جو سطحی سوچ سے اوپر اٹھ کر دیکھنا جانتے ہو۔ یہ کوئی آہنی چنے چبانے کا کام نہیں ہے۔ اس میں صرف تھوڑی سے محنت درکار ہے۔ زندگی کے ہر موڑ پر ہوش کے دروازے کھولنا ضروری ہے۔ موت ضروری ہے تو اس کے لئے ہر آن تیار رہنا چاہیے۔ زندگی فانی ہے، یہ کبھی بھی ہاتھ سے جاسکتی ہے۔ جب یہ بات ہے تو اس کو ہوش سے جینا ضروری ہوگیا۔ اس کے علاوہ پرسش کا مادہ پیدا کرنا ضروری ہے۔ ہر کام کا ٹھیک ٹھیک account دینا ضروری ہے۔ اس کام کے لئے ہر وقت تیار رہنا ضروری ہے۔ امید ہے ہم جاگنے کی کوشش کریں گے۔ آخر کار ہمیں جاگنا پڑے گا لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی ہوگی اور وہ جاگنا بھی کوئی جاگنا نہیں ہے۔ وہ گہری نیند میں خلل کی مانند ہے۔