سرینگر //جموں و کشمیر میں سال 2021کے دوران تپ دق ( Tuberclosis)کے 12,880معاملات کا اندراج ہوا ہے۔ان میں جموں میں 9444جبکہ 3436مریضوں کی نشاندہی کشمیر میں ہوئی ہے۔ جموں و کشمیر میں تپ دق بیماری کے پھیلائو اور اسکے تدارک پر نظر رکھنے کیلئے تعینات سٹیٹ ٹیوبر کلوسززآفیسرڈاکٹر روبینہ شاہین نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’ تپ دق کے خاتمہ کے قومی پروگرام کے تحت سروے اورسرکاری اسپتالوں میں اندراج کے اعداد و شمار کی بنیاد پر ہر سال ایک ہدف دیا جاتا ہے اور جموں و کشمیر کو سال 2021میں 14000 مریضوں کی نشاندی کا کام سوپنا گیا تھا ۔ انہوں نے کہا ’’ سرکاری اسپتالوں اور نجی کلنکوں میں 12880 مریضوںکا اندراج کیا گیاہے‘‘ ۔ڈاکٹر روبینہ کا کہنا تھا کہ تب دق سے متاثر ہونے والے ان کیسوں میں 11000ہزارسرکاری جبکہ نجی اسپتالوںمیں 1680مریضوں کی تصدیق ہوئی ہے۔ ڈاکٹر روبینہ نے بتایا ’’ سال 2019میں بھی 14000ہزار مریضوں کا پتہ لگانے کا ہدف تھا اور اس سال 10ہزار سے زائدمریضوں کا اندراج کیا گیا تھا ۔ انہوں نے کہا’’ سال 2020میں عالمی وباء کی وجہ سے ٹی بی ٹیسٹنگ متاثر ہوئی اور مقررہ 14ہزار کے ہدف میں سے صرف 8846مریضوں کی نشاندہی ہوئی ‘‘۔ انہوں نے کہا کہ 2021کے دوران سرینگر ضلع میں 1300کیسوں کی تصدیق ہوئی لیکن ان کیسوں میں زیادہ تر دیگر اضلاع اور ریاستوں سے آنے والے مریض بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر روبینہ نے بتایا ’’ کشمیر کی 83لاکھ آبادی میں 50متاثرین فی لاکھ کے حساب سے ٹی بی مریض پائے جاتے ہیں اور انہیں اُمید ہے کہ سال 2025تک یہ کم ہوکر 40مریض فی لاکھ کے حساب سے متاثر ہونگے۔انہوں نے کہا کہ بڈگام میں فی لاکھ آبادی میں ٹی بی مریضوں کی تعداد صرف 14ہے اور ٹی بی سے متاثر ہونے والے افراد میں 80فیصد جبکہ اموات میں 90فیصد کمی آئی ہے۔انکا کہنا تھاکہ ٹی بی مریضوں کو ہر طرح کی سہولیات مفت فراہم کی جاتی ہے،مریضوں کو ٹھیک ہونے تک بہتر کھانے پینے کیلئے پہلے مہینے ایک ہزار جبکہ بعد میں آنے والے مہینوں میں 500روپے کی مالی امداد بھی دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں مزدوروں اور خطہ افلاس سے نچے زندگی گزر بسر کرنے والے لوگوں، پہاڑی علاقوں اور متوازن غذا کی کمی سے جوج رہے لوگوں میں ٹی بی ہونے کا زیادہ خطرہ رہتا ہے اورغذا کی کمی، تمباکو نوشی، شراب پینا اور ایڈس کی بیماری سے متاثر افراد زیادہ ٹی بی کے شکار ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت نے سال 2030تک دنیا سے ٹی بی کو ختم کرنے کا ہدف مقررکیا ہے لیکن بھارت میں یہ ہدف سال 2025رکھا گیا ہے اور اُمید ہے کہ مقررہ وقت پر ٹی بی کو ختم کیا جائے گا۔