بلا شبہ جس گھر کے بالغ فردکسی نہ کسی پیشے یا ملازمت سے وابستہ ہوکر روزگارحاصل کررہے ہوں،اُس گھر کی دہلیز پر ہی خوشحالی کی صورت نظر آتی ہے اور جس گھر کے بالغ افراد روز گار سے محروم ہوں یا محدود آمدنی پر گذارہ کررہے ہوںاور اُن کے تعلیم یافتہ نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں لئے روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے ہو،اُس گھر میں مایوسی اورپریشانی کی صورت حال چھائی رہتی ہے۔ان پریشان حال گھروں کے نوجوانوں کو زبردست کوششوں کے بعد بھی جب روزگار نہ ملے اور وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں تو حاصل کیا ہوگا، ماسوائے اس کے کہ وہ یا تو غلط راہ پر چل پڑیں گے یا ذہنی مریض ہو جائیں گے۔
ہمارے معاشرے کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے،جس میں ایک بڑی تعداد تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ہےجو بے روز گاری کے دلدل میں پھنسی ہوئی ہے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں اور پالیسی سازوں نے آج تک اُنہیں اس دلدل سے نکالنےکی نہ کوئی حکمت ِ عملی تیارکی ہے، نہ اُن کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی اُنہیں کوئی مناسب روز گار دلانے کے لئے کوئی منصوبہ بندی مرتب کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوان روزگار کی تلاش میں اِدھر سے اُدھر مارے مارے پھر رہے ہیںاور نہ صرف اپنے گھر والوں بلکہ پورے معاشرے کے لئے بوجھ بن رہے ہیں۔کئی ترقی یافتہ ممالک میں بھی بیشتر لوگ غربت و افلاس میں گھرےہوئے تھے، لیکن وہاں کے حکمرانوں اور پالیسی سازوں نےتعلیم یافتہ نوجوانوں کو مختلف ہنر سکھائے، آئی ٹی کے مفت کورسسز کرائے اور آج نہ صرف اُ ن کے آئی ٹی ایکسپرٹ، گائوں، دیہات تک کے لاکھوں نوجوان چھوٹے پیمانے کے بزنس مین اور صنعت کار بن چکے ہیںبلکہ اب وہاں بے روزگار نوجوان ہی نہیں ہیںاور سب کی اپنی اپنی منزلیں ہیں۔
لیکن ہمارے یہاں کے تعلیم یافتہ نوجوان سڑکوں پر رُل رہے ہیں۔ جو برسرروزگار ہیں، اُن کی ملازمت بھی خطرے میں ہیں کہ مہنگائی کے طوفان کی وجہ سے بیشتر اداروں میں چھانٹیاں ہو رہی ہیں جس کا نشانہ زیادہ تر نوجوان بن رہے ہیں۔ جن میں محنت و مشقت کی سکت ہے وہ خود سے چھوٹا موٹا کام کر رہے ہیں ،لیکن اس سے اُن کا مستقبل تاریک ہورہا ہےاور جن کےوالدین کے پاس معاشی طاقت ہے ،وہ اپنی تعلیم کا استعمال دیارِ غیر میں کررہے ہیںاور اپنے معاشرے کے بجائے غیروں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ظاہر ہے کہ اگر ہمارے معاشرے کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو یہاں کے حکمران اور پالیسی ساز مناسب وسائل ، روزگار فراہم کرکے قابل عمل اہداف دے دیتے تو یقیناً یہ ملت و معاشرے کی تقدیر بدل سکتے۔خیر!لازم یہی ہے بلکہ وقت کا تقاضا ہے کہ یہاں کے موجودہ حکمران اور سرکاری انتظامیہ جموں و کشمیر کےہر صوبے میں نوجوانوں کو مختلف ہنر سکھانے اور آئی ٹی کے فری کورسز کرانے کا خاطر خواہ انتظام کریں ۔ بہتر تو یہی ہوگا کہ دوران تعلیم ہی اُنہیں یہ سہولتیں فراہم کی جائیں ۔ جب وہ تعلیم مکمل کرلیں، تو ڈگری کے ساتھ اُن کے پاس ہنر بھی ہو، تاکہ وہ سڑکوں پر خوار ہونے کےبجائے مستقبل کی منصوبہ بندی کریں اور تعلیم سے فارغ ہوتے ہی کمانے لگیں۔
تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بھی چاہئے کہ وہ دَر دَر بھٹکنے سے بجائے کسی ہنر کو کمائی کا ذریعہ بنائیں،اپنا عزم و استقلال ہرگزنہ کھوئیںاور کسی بھی چھوٹے بڑے ادارے ،کمپنی ، کالج و یونیور سٹی اور کارخانے میںملازمت کی کوشش کرتے رہیں۔زیادہ تر والدین اس بات کو بخوبی سمجھتےہیںکہ اس وقت ہمارے یہاںمجموعی طور پر جو صورتحال ہے اور مہنگائی ، ناجائز منافع خوری ،خود غرضی و مادیت پرستی نے جس انداز سے عام لوگوںجینا دوبھر کر دیا ہے، اُس نے ہمارے پڑھے لکھے پریشان حال نوجوانوں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں بھی مفلوج کر دی ہیں۔ حالانکہ مہنگائی کاطوفان پوری دنیا میں آیا ہوا ہے لیکن وہاں حالات ایسے نہیں ہیں جیسے ہمارے یہاں ہیں کہ کئی مایوس نوجوان خود کشیاں کر رہے ہیں،کئی اپنا غم بھُلانےکے لئے منشیات کا سہارا لیتے ہیں، کئی جرائم کی دنیا میں جارہے ہیںاور کئی اپناذہنی توازن بھی کھو رہے ہیں۔ گرچہ ہمارے یہاں نوجوانوں کے لئے بعض روزگار اسکیمیں متعارف بھی ہوئیں لیکن زیادہ ترکاغذی کاروائیوں کے بعد فائلوں میں ہی بندہوگئی ہیں۔جو کچھ اسکیمیں نافذ ہوئیں تو اُن پر صحیح طرح عمل درآمد نہ ہوسکاہے،جبکہ موجودہ حکومت بھی ماضی کی طرح اپنی مدت پورا کرنے میں مست و مگن ہے۔