تعلیم یافتہ نوجوانوں نے جبر کیخلاف بندق اٹھائی

 بلال غنی لون نے پارٹی کا نام تبدیل کیا

 
سرینگر// حریت(ع) چیئرمین میرواعظ عمر فاروق نے کہا کہ سابق وزیر اعظم ہند اٹل بہاری واجپای نے کشمیر کو انسانیت کے زاویہ سے دیکھنے کیلئے جس ڈور کو تھاما تھا، اسے وزیر اعظم ہند نریندر مودی توڑ رہے ہیں۔حکومت ہند پر کشمیری نوجوانوں کو عسکریت کی طرف دھکیلنے کا الزام عائد کرتے ہوئے میرواعظ نے کہا کہ تعلیم یافتہ نوجوان تعلیم چھوڑ کر’’غصہ‘‘ میں آکر ہتھیار تھام رہے ہیں۔

میر واعظ

بلال غنی لون کی طرف سے اپنی جماعت’’پیپلز کانفرنس‘‘ کا نام تبدیل کرکے ’’پیپلز انڈپنڈنٹ مومنٹ‘ (عوامی تحریک آزادی)کرنے کی تقریب پر حریت (ع) ہیڈ کواٹر راجباغ میں مندوبین سے خطاب کرتے ہوئے میرواعظ نے کہا کہ جب سابق وزیر اعظم ہند کشمیر آئے تو انہوںنے اقتصادی پیکیج کا اعلان کیا تھا،تاہم بعد میں ان کو احساس ہوا کہ کشمیر اقتصادی مسئلہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا’’ یہ واجپائی ہی تھے جنہوں نے ایک قدم بڑھ کر تمام روایتی عمل کو پیچھے چھوڑ دیا اور کہا کہ کشمیر کو انسانیت کے دائرے میں حل کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ انہوں نے کہ واجپائی نے امن کو موقعہ دیا اور انکے ہی دور میں حریت لیڈروں کو پاسپورٹ تک دئیے گئے،اور وہ اسلام آباد گئے تاکہ مذاکراتی عمل کو توسیع دی جائے۔ میر واعظ نے کہا کہ2014 کے بعد حکومت ہند نے’’ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی میں اضافہ کیا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ واجپائی نے دہلی سے کشمیر اور اسلام آباد تک تک جو امن کی ڈور کو انکے جانشین نے کاٹ کر کشمیر کے جائز مطالبات کو دبانے کیلئے فوجی طاقت کا سہارا لیا۔انہوں نے کہا’’یہ حکومت ہند ہے جو کشمیری نوجوانوں کو عسکریت کی طرف دھکیلتی ہیں،آپ دیکھئے کہ99فیصد تعلیم یافتہ نوجوان اپنی تعلیم کو خیر آباد کرکے،گھروں کو چھوڑ کر ہتھیار اٹھاتے ہیں‘‘۔میرواعظ نے سوالیہ انداز میں کہا’’ ان میں کتنے لوگوں نے سرحد عبور کر کے ہتھیاروں کی تربیت حاصل کی ہے،اور کشمیر میں آئے دن فورسز کی جانب سے جاں بحق کئے گئے ان نوجوانوں کے جنازے اٹھانا بہت دردناک ہیں۔انہوں نے کہا کہ جن نوجوانوں نے بندوق اٹھائی ہے وہ تربیت یافتہ گوریلا نہیں ،مگر حکومت ہند کی طرف سے ظلم و جبر کی پالسیوں کے خلاف انہوں نے بندوق تھامی ہے۔میر واعظ نے کہا کہ پاکستان کے وزیرخارجہ نے  ٹیلی فون پر ان سے رابطہ کیا،اور کشمیر کی صورتحال پر انہوں نے تشویش ظاہر کی تاہم اس پر بھارت کیوں سیخ پا ہوا۔ میر واعظ نے کہا ’’ میری شاہ محمود قریشی سے ٹیلیفون پر بات ہوئی ہے اور یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ حکومت ہندوستان اس بات پر کیوں سیخ پا ہوگئی ہے حالانکہ پاکستان مسئلہ کشمیر کا اہم فریق ہے اور بھارت کے ارباب سیاست کو یہ بات سمجھنی چایئے کہ مسئلہ کشمیر کا صرف اس مسئلے سے جڑے تینوں فریقوں کے درمیان ایک بامعنی مذاکراتی عمل کے ذریعے ہی کوئی قابل قبول حل تلاش کیا جاسکتا ہے‘‘۔انہوںنے کہا’’ مزاحمتی قیات کی سرگرمیوں پر پابندیاں عائد ہیں ،گھروں کو بارود سے اڑایا جاتاہے ، کھیت و کھلیان کو تباہ کیا جارہا ہے ، مزاحمتی لیڈروں اور کارکنان کو زندانوں کی زینت بنایا جارہا ہے اور حکومت ہندوستان کوشش کر رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کی ہیت اور حیثیت کو ان حربوں سے تبدیل کیا جائے۔

بلال غنی لون

پیپلز انڈپنڈنٹ مومنٹ کے چیئرمین بلال غنی لون نے پریس کانفرنس کے دوران واضح کیا کہ ان کا موقف وہی رہے گا تاہم انہوں نے صرف اپنی جماعت کا نام تبدیل کیا ہے۔بلال غنی لون نے اپنی تنظیم کے نئے نام کے پیچھے سوچ اور فکر کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ میری زندگی کا مقصد اپنے والد خواجہ عبد الغنی لون کے اُس مشن کو آگے بڑھانا ہے جس کے لئے انہوں نے نہ صرف اپنی پوری زندگی صرف کی بلکہ شہادت کے منصب کو بھی گلے لگایا۔ انہوں نے کہا ’’ میری جماعت کے سابق نام کی وجہ عوام میں ایک کنفیوژن پیدا ہوا تھا اور وقت کا تقاضا تھا کہ اس حوالے سے جاری ابہام کو دور کیا جائے‘‘۔

پروفیسر عبدالغنی

 پروفیسر عبد الغنی بٹ نے کہا کہ ہمارا آج ہمارے کل سے وابستہ ہے اور اپنے آنے والے کل کیلئے کشمیری قوم جو قربانیاں دے رہی ہے وہ اس پورے خطے میں ایک دن ایسی انقلابی تبدیلی ضرور لائیگی جس سے اس خطے پر چھائے ہوئے سیاسی بے یقینی کے ماحول کے خاتمے کا موجب بنے گی۔ انہوں نے کہا کہ حریت ایک فکر اور سوچ کی نمائندگی کرتی ہے اور کشمیری جیسے خوددار قوم جن کی ایک اپنی شناخت ہے اور یہ قوم صرف اپنی ہی نہیں بلکہ دوسروں کی بھلائی کیلئے بھی فکر مند ہے۔