مزمل احمدراتھر
حضرت سفیان بن عُیینہؒکا فرمان ہے کہ عند ذکر الصالحین تنزل الرحمۃ یعنی: نیک لوگوں کے ذکر کے وقت رحمت نازل ہوتی ہے۔مختلف ادوار میں مختلف صورتوں میں ذکرِ صالحین کو عملی شکل دی گئی ہے۔جیسا کہ اولیاء کرام کی سیرتِ مبارکہ کو قلم بند کر کے کتابیں لکھی گئیں۔ یہ رواج تقریباً چوتھی صدی ہجری سے شروع ہوا جب ‘ طبقات الصوفیہ’ نامی کتاب لکھی گئی۔اسی طرح اولیاء کرام کے اعراس بھی دراصل وہ مخصوص ایام ہیں کہ جن میں کسی خاص ولی کامل کا ذکر خیر کیا جاتا ہے۔بزرگان دین کے ملفوظات، مکتوبات، حالات وغیرہ کا پڑھنا، سننا، اور اسے دوسروں تک پہنچانا یقینا ایک مستحسن عمل ہے۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ(مصنف اخبار الاخیار) جیسے اپنے دور کے بڑے بڑے مقتدر اور معتبر علماء کرام نے نہایت ہی خوب انداز میں اس عمل کو سرانجام دیا ہے۔ تاہم عصر حاضر میں جب کہ اکثر لوگ نفس پرستی، رشوت ستانی ،و عدہ خلافی اور مذہبی بے را ہ روی کے شکار ہیں ان ہی اولیاء کرام کی تعلیمات مشعل راہ ہیں۔ وادی کشمیر چوں کہ اس لحاظ سے بہت ہی زیادہ ذرخیز ہے کہ کئی اعلی مقام رکھنے والے اولیاء کرام نے یہاں جنم لیا ہے۔ ان میں سے ایک عظیم ہستی محسن ِ کشمیر حضرت شیخ حمزہ مخدوم ؒ ہیں۔ حضرت شیخ مخدوم حمزہ ؒکا سالانہ عرس مبارک چوں کہ ماہ صفر المظفر میں نہایت ہی عقیدت واحترام سے منایا جاتا ہے اسلئے آج آپؒ کا خصوصی ذکرِ خیر کرنا، گر چہ مختصر ہی ہے، مناسب ہے۔
اسم گرامی:-آپ ؒ کا اسم مبارک حمزہؒ ہے۔ لوگ آپ ؒکو محبوب العالم اور سلطان العارفین جیسے القابات سے یاد کرتے ہیں۔
والدین:-آپ ؒ کے والدِ بزرگوار کا نام ملک عثمان رینہ تھا جو نیک، روشن دل، صاحب حال و قال تھا۔ والدہ کا نام بی بی مریم تھا۔
سلسلہ نسب:-تاریخ کشمیر کے ابواب میں ایک خاص واقعہ یوں درج ہے کہ جب رنچن شاہ نے رام چندر کو قتل کر کے حکومت اپنے قبضے میں لے لی اور اْن کی بیٹی کوٹہ رانی سے شادی کرلی۔ رنچن شاہ جس نے حضرت شرف الدین عرف بلبل شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا،نے کوٹہ رانی کے بیٹے راوان چندر کو مسلمان کر کے ‘ رینہ’ کا خطاب دے دیا۔ تذکرہ نویس رینہ کی وجہ تسمیہ اس طرح لکھتے ہیں کہاْسوقترینہ مدارالہام کو کہتے تھے یعنی وہ شخص جس پر امور سلطنت کا دارومدار ہو یا وزیر اعظم۔اس خاندان کے لوگ پشتہ در پشتہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے۔
تاریخِ کشمیر کی کتابوں میں حضرت شیخ مخدوم حمزہؒکا شجرہ نسب اسطرح پایا جاتا ہے:
(۱) مل چندر (۲) سوسرم چندر (۳) کہکہ چندر (۴) بلاد چندر (۵) سنگرام چندر (۶)رام چندر (۷) راوان رینہ (۸) دولت رینہ (۹) ابدال رینہ (۰۱) جہانگیر رینہ (۱۱) زیتی رینہ (۲۱) احمد رینہ(۳۱) عثمان رینہ (۴۱) حضرت شیخ مخدوم حمزہ ( رینہ) رحمۃ اللہ علیہ۔
ولادتِ باسعادت:-حضرت شیخ مخدوم حمزہؒکی پیدائش تجر شریف میں900ہجری میں ہوئی۔
تحصیل ِ علم:- حضرت شیخ مخدوم حمزہ ؒنے جب مکتب جانا شروع کیا ،ایک دن راستے میں بچوں کے ساتھ کھیلنے لگے۔ اچانک وہاں سے آپؒکے والدِ بزرگوار گزرے اور انہیں اتنا پیٹا کہ بیمار ہو گئے۔ پھر آپ ؒنے ہمیشہ کیلئے کھیل کود چھوڑ دیا اور تحصیل ِ علم میں مصروف ہوگئے۔شہر آکر آپؒبابا اسماعیل کے بیٹے بابا فتح اللہ کی خدمت میں پیش ہوئے جو رینہ قبیلہ کے پیر طریقت تھے۔ ایک برس تک آپ ؒان سے قرآنی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ اس کے بعد آپ ؒ مدرسہ دارْالشفاء اور شمسی چک خانقاہ میں داخل ہوئے۔ اور یہاں سے آپ ؒ نے فقہ ، حدیث ، تفسیر ، منطق ، فلسفہ ، اخلاق و آداب ، اوراد و ازکار اور تصوف کے علوم حاصل کیے۔
مرشد ِ کامل:-حضرت بابا داؤد خاکی ؒحضرت شیخ مخدوم حمزہ ؒکی شان و عظمت بیان کرتے ہوئے وردالمریدین میں جو قصیدہ آپ ؒنے اپنے مرشد کامل حضرت شیخ مخدوم حمزہ ؒکی مداح، احوال، مقامات و کمالات اور حالات و واقعات کے بیان میں لکھا ہے۔ فرماتے ہیں؛
ما نشان سیر محبوبی بسیرش یافتیم
زانکہ کشف از عبادت بیشتر مظہر شد است
یعنی ہم نے آپکی سیر و احوال میں آپ ؒکے محبوب و مطلوب ہونے کے نشانات پائے ہیں کہ آپ نے بلوغیت، سخت عبادتوں اور دشوار ریاضتوں سے پہلے ہی کشف و کرامات ظاہر فرمائے۔
تاج العارفین میں امیر شریعت حضرت علامہ سید محمد قاسم شاہ بخاریؒفرماتے ہیں کہ محبوب اْس ولی کامل کو کہتے ہیں کہ جس سے عبادت و ریاضت سے پہلے ہی کشف و کرامت کا صدور ہوجائے۔ حضرت علامہ بابا داؤد خاکیؒفرماتے ہیں کہ حضرت محبوب العالم ؒسے ولادت کے ایام ہی سے کشف اور خارق عادت امور سرزد ہوئے ہیں۔
حضرت علامہ بابا داؤد خاکی ؒدستور السالکین میں فرماتے ہیں کہ مرشد پہلے مرید کا دل اور نفس پاکیزہ بناتا ہے۔ دل صاف ہوجانے پر اللہ کے نورِ عکس اور اس کی عظمت اس پر جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ اس میں توحید کا جمال نظر آتا ہے۔ وہ بصیرت کی آنکھوں سے انوار کے مطالعہ کرنے کی سعی کرتا ہے۔ وہ اپنے رب سے محبت کرنے لگتا ہے۔ یہی تزکیہ نفس کا نتیجہ ہے۔
مزید فرماتے ہیں کہ حضرت محبوب العالم ؒکی تربیت بھی باخدا انسانوں کی طرف سے ہوئی۔ کئی مرتبہ آپ ؒ کی روحانی تربیت اور اذکار و اوراد کی تلقین آنحضور ﷺاور اصحاب کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے خواب میں کی۔ حضرت مخدوم صاحب ؒاکثر و بیشتر اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتا تھا کہ اے اللہ میری ہدایت و رہبری کیلئے کسی ایسے پیر روشن ضمیر کو بھجئے جو سچے طور پر آپ سے واصل ہوا ہو۔ اور آپ کی رضامندی سے بہرہ اندوز ہو چکا ہو۔
حضرت سید جمال الدین بخاری ؒدہلی میں تشریف فرما تھے اور وہاں سے حرمین شریفین تشریف لے گئے لیکن مدینہ منورہ میں انہیں ایک دفعہ خواب میں حضرت نبی کریم ﷺنے حکم فرمایا کہ آپ کشمیر جاکر (حضرت) شیخ حمزہ کشمیری کی تربیت کریں۔ واضح رہے کہ حضرت سید جمال الدین بخاری ؒکا شجرہ سلسلہ حضرت مخدومِ جہانیاں سید جلال الدین بخاری ؒتک پہنچتا ہے۔ حضرت سید جلال الدین بخاری ؒکا یہ واقعہ مشہور ہے کہ جب آپ ؒمدینہ منورہ میں تشریف لے گئے تو مدینہ منورہ کے سادات نے آپؒکے سید ہونے سے انکار کیا اور صحیح نسب ہونے کی سند طلب کی۔ اس معاملہ پر بہت جھگڑا ہوا ۔بالآخر معاملہ یہ طے ہوا کہ دونوں فریق حضور اقدسﷺکے روضہ مقدسہ پر جاکر سلام پیش کرینگے۔ چنانچہ آپؒ سادات مدینہ منورہ کے ہمراہ دربار رسالت ؐمیں حاضر ہوئے اور سلام عرض کی۔ سرکار علیہ السلام کے روضہ مبارکہ سے آواز آئی: “و علیک سلام یا ولدی” اور مخالفین کو سلام کا جواب نہ ملا ۔یہ دیکھ کر تمام سادات آپ ؒکی تعظیم بجا لائے۔ اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے حضرت بابا داؤد خاکی ؒفرماتے ہیں:
بہر اثباتِ نسب از روضئہ پاکِ نبی ﷺ
از جوابِ یا وَلدی مخصوص در محضر شد است
یہاں پر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی کا یہ شعر لکھنا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ:
تو زندہ ہے واللہ! تو زندہ ہے واللہ!
مرے چشم ِ عالم سے چھپ جانے والے
بہر حال حضرت سید جمال الدین بخاری ؒسرینگر میں واقع خانقاہِ ملک احمد ایتو میں تشریف لے آئے۔ اسی رات حضرت محبوب العالم ؒکو عالم خواب میں کہا گیا کہ اس دنیا میں ایسے خاص فائدے اسباب و ذرائع سے حاصل ہوتے ہیں جو براہ راست میسر نہیں ہوتے۔ پھر مثال دیکر سمجھایا گیا کہ پیوند والے درخت میٹھا پھل دیتے ہیں۔ لہٰذا حضرت مخدوم صاحب ؒکو حضرت سید جمال الدین بخاری ؒسے استفادہ حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی اور اسی ترغیب پر عمل کرتے ہوئے آپؒنے حضرت سید جمال الدین بخاری ؒکے دست ِ حق پرست پر بیعت کی اور باضابطہ طور پر سلسلہ سہروردیہ میں شمولیت اختیار کی۔ حضرت پیر بر حق ؒ کو حضرت سید جمال الدین بخاری ؒسے پر خلوص طالبوں کی رہبری کرنے کیلئے اجازت ملی۔ اس وقت حضرت شیخ مخدوم حمزہ ؒنے اپنے پیر کامل سے کہا کہ میری حیثیت کیا ہے کہ لوگ میرے پاس آینگے۔ جواب میں مرشد کامل نے فرمایا کہ تم مخدوم ہو۔ تمہارے دروازے پر بادشاہ انتظار کرینگے ؎
واہ!درِ سلطان، کیا ہی پْر ضیاء
سوالی جسکے ہیں اولیاء و اصفیا
جس وقت حضرت سید جمال الدین بخاری ؒکشمیر سے ہندوستان کی طرف واپس جانے لگے حضرت سلطان العارفین ؒنے بھی آپؒکے ساتھ جانے کی خواہش کی مگر حضرت سید صاحب ؒنے منع کیا اور فرمایا کہ آپ کے ذریعے کشمیر میں کثیر تعداد میں مخلوقِ خدا کی ہدایت ہوگی۔
سیرت و خصائص:- حضرت پیر کامل ؒ بچپن سے ہی نیک اعمال میں مشغول رہتے تھے اور فضول کاموں میں اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کرتے۔ حضرت مخدوم صاحب ؒنماز تہجد پڑھنے کے پابند تھے۔حضرت مخدوم صاحب ؒاکثر روزہ دار ہوتے تھے۔ حضرت بابا داؤد خاکی ؒفرماتے ہیں کہ حضرت پیر کامل ؒ کے معمولات میں بعد ِ نمازِ عشاء اوراد فتحیہ کا ورد کرنا بھی شامل تھا اور مریدین کو بھی اس کی تلقین فرماتے تھے۔کشمیر کے اطراف و اکناف میں آپ ؒ نے کئی مساجد تعمیر کیں۔
اولیاء کرام کی سیرتِ مبارکہ لکھتے ہوئے اکثر ان کی کرامات کو بیان کیا جاتا ہے لیکن حضرت سلطان العارفین ؒ سے، جیسا کہ ہم نے پہلے ہی لکھا، کرامات کا ظہور انکے بچپن سے ہی ہوا ہے۔ وردالمریدین میں حضرت علامہ خاکی ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت پیر کامل ؒکی کرامات میں کشفِ قلب اور کشفِ قبر روز کا معمول تھا۔ شریعت مقدس کا پابند رہنا صوفیاء کے نزدیک سب سے بڑی کرامت ہے۔ اگر دیکھا جائے تو محبوب العالم ؒکے دور کے علماء حق آپ ؒ کی ذات مبارکہ سے انتہائی متاثر تھے یہاں تک کہ آپ ؒ کی صحبت اور معیت اختیار کی۔ اْس دور کے عظیم اور قدآور عالم دین جنہیں امام اعظم ثانی کہا جاتا ہے، حضرت بابا داؤد خاکیؒ تھے۔ حضرت خاکی ؒحضرت سلطان العارفین ؒکے خلیفہ خاص تھے۔ حضرت بابا داؤد خاکی ؒوردالمریدین میں اپنے پیر کامل کے بارے میں فرماتے ہیں کہ آپ ؒ شریعت کے پیروکار اور طریقت کے امام تھے اور آپؒ کا دل اللہ کے حقیقی اسرار کا خزینہ ہے۔ حضرت پیرِ کامل کی تربیت اور صحبت کا اثر بیان کرتے ہوئے علامہ خاکی ؒ فرماتے ہیں کہ بوقت بیعت مجھے محسوس ہوا کہ میرا دل زندہ اور منور ہو گیا۔
پریشان حال غمزدہ لوگ اکثر حضرت مخدوم صاحبؒکی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے مسائل پیش کرتے تھے۔ حضرت بابا داؤد خاکی ؒفرماتے ہیں کہ “از دمِ او چند مخلص زندہ شْد ز امراضِ موت” یعنی حضرت پیر برحق ؒ کے دم (دعا) کرنے سے کئی مخلص بیمار جو امراض الموت(Life Consuming Diseases) میں مبتلا تھے شفا یاب ہوئے۔ پھر حضرت علامہ خاکی رحمۃ اللہ علیہ مثال دے کر فرماتے ہیں ” زاں یکے خواجہ حسین ہم والدش یکمر شد است” مطلب یہ کہ ان شفا یاب ہونے والے لوگوں کے زمرے میں خواجہ حسین اور اْن کے والد قابل ذکر ہیں۔ حضرت علامہ خاکی ؒمزید فرماتے ہیں کہ حضرت پیر کامل ؒ مریض کی شفایابی کے لئے چند آیتیں پڑھتے تھے۔ اس ضمن میں معمول یہ تھا کہ اگر وہ آیتیں جلد یاد آتی تو مریض کو شفایاب ہونے کی امید کے الفاظ سناتے اور اس کے برعکس اگر مریض کا شفا یاب ہونا اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں ہوتا تو وہ آیتیں ، معمول کا وظیفہ ہونے کے باوجود، بروقت یاد نہیں آتیں۔ واضح رہے کہ در حقیقت شفا دینے والا اللہ تعالیٰ ہے لیکن اسباب کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ توکل ترکِ اعتماد علی الاسباب ہے نہ کہ ترکِ اسباب۔
اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو صوفیاء کرام کی تعلیمات میں اخوت، محبت اور امن و سلامتی کا پیغام واضح نظرآتا ہے۔ یہی وہ برگزیدہ اشخاص ہیں کہ جو گنہگاروں کیساتھ نفرت کرنے کے بر عکس اپنی آغوش میں لے کر انہیں امراضِ باطنی سے پاک کر کے حکیم الامت علامہ اقبال ؒ کے الفاظ میں “نگاہ مردِ مومن” ڈال کر انکی تقدیر بدل دیتے ہیں اور وہ خدادوست بن جاتے ہیں۔ اسکی کئی مثالیں حضرت سلطان العارفین ؒسے بھی ملتی ہیں۔
حضرت محبوب العالم ؒنے اپنی پوری زندگی اللہ تعالیٰ کے دین کی تبلیغ اور لوگوں کے اصلاح کے لئے وقف کی۔ آپ ؒکی دینی خدمات کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ البتہ آپ ؒ کی اس دینی خدمت کا اندازہ آپ ؒ کی تعلیم و تربیت سے مستفید ہوئے آپ ؒکے خلفاء سے لگایاجاسکتا ہے۔ ان میں حضرت بابا داؤد خاکی ؒ، حضرت میر بابا حیدر تولہ مولہ ؒ ، حضرت بابا حیدر ریشی ؒوغیرہ شامل ہیں۔
و صال:- حضرت سلطان العارفین ؒ علی شاہ چک کے دور حکومت میں، مومنین کیلئے مثلِ قید خانہ، اس دنیا سے رحلت فرما گئے۔ آپ ؒنے24 ماہ صفر 984 ھ کو سرینگر میں وصال فرمایا۔ آپؒ کا پْر نور مرقد ِ شریف مرجع خاص و عام سرینگر کے کوہِ ماراں پر واقع ہے۔
(ماخذ و مراجع: تاریخ حسن تیسراحصہ موسم بہ “اسرار الاخیار”، اولیاء کشمیر از پیرزادہ محمد طیب حسین نقشبندی سہروردی کشمیری ثم لاہوری، تاج العارفین ، دستور السالکین مترجم مخدوم محمد خلیل قریشی صاحب، نیکی کی دعوت از امیر ِ اہلسنت حضرت مولانا الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتہ)
رابطہ۔تھیروگاندربل،کشمیر
فون نمبر۔7006959301
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔