سرینگر// پائین شہر کے خانیار علاقے میں27برس قبل حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی ؒ سے منسوب آستان عالیہ کے متصل27برس قبل پیش آئے خونین قتل عام میں مقامی تاجر حاجی علی محمد اور6ماہ کا دلہا بھی شامل تھا،جن کے اہل خانہ طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی ابھی اس سانحہ کو بھول نہیں پائے ہیں۔یہ سانحہ وادی کے بدترین سانحات میں تصور کیا جاتا ہے جب عسکری مزاحمت کے ابتدائی دور میں مئی میں21معصوم شہریوں کو فورسز اہلکاروں نے دن کے اجالے میں گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ خانیار 8 مئی 1991 کو اس وقت لہو لہان ہوا جب فورسز نے عام شہریوں کو گولیوں سے ایک شیر خوار بچہ اور 5 خواتین سمیت 21 افراد کو بھون ڈالا۔ ریاست کی تاریخ اس واقعے کو کھبی بھی فراموش نہیں کرسکتی جب خانیار کے لوگوں کو لہو سے تر بہ تر کیا گیا۔ مارے گئے افراد میں ایک مقامی تاجر حاجی علی محمد میر بھی شامل تھا، جس کی دکان مزار شہداء خانیار کے متصل ہے۔ حاجی علی محمد کے فرزند عبدلمجید کا کہنا ہے کہ 27 برس گزر جانے کے باوجود ابھی بھی اس خونین دن کو پیش آئے سانحے کی یادیں اس کے دل میں محفوط ہیں۔ عبدلمجید نے سانحہ میں مارے گئے تمام لوگوں کی عمر ،سکونت اور نام ایک کاپی میں درج کررکھے ہیں۔ پیشہ سے دکاندار عبدلمجید کا کہنا ہے کہ اس کا والد ایک خاتون کو بچاتے بچاتے موت کا شکار ہوا۔انہوں نے کہا کہ اس دن سعدہ کدل میں ایک مقامی عسکریت پسند مارا گیا تھا اور شام کو جب اس کی میت سپرد کی گئی تو اہل علاقہ اس کو سپرد خاک کرنے میں لگ گیا۔انہوں نے مزید کہا’’جب لوگ جسد خاکی کو سپرد لحد کرنے میںلگے تھے اور مزار شہداء خانیار کے علاوہ آستان عالیہ کے نزدیک سڑک پر کھڑے تھے،تو اچانک ایک فوجی دستہ گاڑیوں میں آیا اور فائرنگ شروع کی جس کے ساتھ ہی نزدیک ہی ایک بنکر میں موجود اہلکاروں نے ایل ایم جی کا دہانہ کھول کر اندھا دھند گولیاں چلائیںجس کی وجہ سے ہلاکتیں ہوئیں‘‘۔عبدلمجید نے بتایا کہ اسی اثنا میں ایک خاتون کو بھی گولی لگی ،اور وہ نیچے خون میں تر بہ تر ہوکر گر گئی اور اس کے کپڑے بھی بکھر گئے۔انہوں نے بتایا’’میرئے والد نے خاتون کے نزدیک جاکر اس کے کپڑے درست کرنے کی کوشش کی،جس دوران اس کو بھی نشانہ بنایا گیااور وہ خالق حقیقی سے جا ملے‘‘۔حاجی علی محمد میر علاقے کے ایک معروف تاجر اور شخصیت تھے،جس کی ایماندری کا ڈنکا اہل علاقہ میں آج بھی بجتا ہے۔اہل خانہ کا کہنا ہے کہ موصوف 1990سے قبل حبہ کدل میں گھر کیلئے سودا سلف ایک پنڈت دکاندار سے لاتے تھے،اور1990میں اچانک پنڈتوں کی نقل مکانی کے بعد دکاندار کے350روپے حاجی علی محمد کے پاس باقی رہ گئے تھے،اور انہوں نے جموں جاکر وہ لوٹا دئیے۔عبدلمجید میر نے بتایا’’پنڈت دکاندار کے350روپے میرے والد کے پاس بقایا تھے اور وہ اکثر کہتے تھے کہ مجھے تب تک چین نہیں آئے گا،جب تک میں اپنا قرضہ ادا نہ کروںاور ایک دن اچانک انہوں نے جموں کیلئے رخت سفر باند لیااور پنڈت مہاجر کیمپوں میں بسیار تلاش کے بعد مذکورہ پنڈت دکاندار کو ڈھونڈنکالا اوررقومات کی ادائیگی کی‘‘۔عبدالمجید نے بتایا کہ واپسی پر انکے والد نے کہا کہ جب میں نے پنڈت دکاندار کو اس کی رقم پیش کی،تو ہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے کہ قرضہ کی ادائیگی کیلئے وہ سرینگر سے جموں پہنچ گیا۔علی محمد میر کے ایک فرزند کی موت 1998 میں پراسرا غرقآبی کی وجہ سے ہوئی جبکہ ایک اور فرزند بشیر احمد صوفی کو2010میںسرینگر کے کھنموہ علاقے میں فوجی گاڑی کے ٹکر کی وجہ سے موت واقع ہوئی۔ مارے جانے والے شہریوں کی فہرست میں چوٹہ بازار کے محمد مقبول گنائی بھی تھے۔ محمد مقبول کے برادرحفیظ اللہ،جو کہ واقعے کے چشم دید گواہ بھی ہے، نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ وہ اس وقت کچھ دوری پر اپنے بھائی کے ہمراہ سڑک پر تھا،جب یہ سانحہ پیش آیا۔ انہوں نے کہا کہ فورسز کی اندھا دھند فائرنگ کے بعد ہر کوئی اپنی جان بچانے کیلئے محفوظ مقامات کی طرف بھاگنے لگے اور ایک مکان میں داخل ہوا۔ حفیظ اللہ کا کہنا ہے کہ کچھ وقت کے بعد جب صورتحال بہ ظاہرٹھیک ہونے لگی تو،گھر والوں نے اس کو اطلاع دی کہ،اس کے چچیرے بھائی کو گولی لگی ہے۔انہوں نے بتایا کہ یہ سن کر میں جلدی جلدی گھر کی طرف روانہ ہوا،اور یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ،میرے بھائی محمد مقبول گنائی کی گولی لگنے سے موت واقع ہوئی ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ محمد مقبول کی شادی کچھ ماہ قبل ہی ہوئی تھی۔ دونوں گھرانوں کو3دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی اب تک اپنے لخت ہائے جگروں کی یادیں ستا رہی ہیںاور آج بھی وہ انصاف کے منتظر ہیں۔