نوٹ : یہ مختصر انگریزی مقالہ ڈاکٹر عبدالاحد نے ۶؍ نومبر کو لالہ رُخ ہوٹل سری نگر میں کشمیر کے ایک مایہ ناز مورخ ، دانش ور، مصنف اور ماہر تعلیم ڈاکٹر شیخ اقبال کی نئی تصنیف’’ اسلام اینڈ کرسچینٹی اِن بیلنس‘‘ کی رسم رونمائی کے موقع پر چنیدہ دانشوورں اور اہل علم کے اجتماع میں پڑھا۔ مقالے کا اردو ترجمہ نذرِ قارئین ہیں مدیر
حضرات وخواتین ! بڑے ادب واحترام کے ساتھ عرض ہے کہ مجھ جیسے ایک ہیچ مندو کم سواد شاگردکے لئے یہ بات سرمایۂ افتخار ہونے کے باوجوداپنی جگہ نامناسب ہے کہ اپنے گراںقدر اورلائق وفائق استادمحترم (مراد ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ) کی نئی کتاب پرذاتی آراء قائم کرنے کامتحمل ہوسکوں۔ موضوع کے حوالے سے علمی کم مائیگی بھی ایک سبب ہے کہ میں کتاب کے عالمانہ مواد پرکوئی ناقدانہ گفتگوکرپاؤں۔ لہٰذامیری کوشش ہوگی کہ زیر نظر کتاب"Islam and Christianity In Balance"کے ذاتی مطالعہ کاماحصل آپ کے سامنے پیش کرنے پرہی اکتفاکروں۔اس بات میںکوئی شک نہیں کہ یہ کتاب اسلام اور عیسائیت کے باہمی ربط پرروشنی ڈالنے کے سلسلے میں ایک اہم آغازکی حیثیت رکھتی ہے،جس کامقصدان مذاہب کے ماننے والوںکے بیچ وحدتِ فکر پرمبنی ایک دوستانہ فضاقائم کرناہے۔اسلام، عیسائیت اوریہودیت کے پیروکاروں پراس کتاب میں زوردیاگیاہے کہ وہ بین المذاہب مکالموں کاسہارالیںتاکہ انسانیت کی اجتماعی فلاح وبہبود میںاپناکلیدی کرداراداکرسکیں۔
انتہائی سلیس زبان میں لکھی گئی یہ ضخیم کتاب ۵۴۶ صفحات پرمشتمل ہے، جسے بڑی ہنرمندی کے ساتھ چودہ ابواب،دس ضمیموں اورایک کتابیات میںتقسیم کیاگیا ہے۔اسلاما ور عیسائیت کے مابین پائی جانی والی خلیج کانکتۂ آغاز تلاش کرنے کی کوشش میں ڈاکٹرصاحب ان عوامل سے پردہ اُٹھاتے ہیں جن کی وجہ سے یہ دونوں براہیمی مذاہب اپنے بیچ کے اختلافات کو ایک نتیجہ خیزاندازسے سلجھانے میںناکام رہے ۔ایسانہ ہونے کی صورت میںہی یہ دونوںمذاہب باہمی اتحادواتفاق کاراستہ اختیارنہ کرسکے،جب کہ ان دونوں کے سرچشمے ایک ہی ماخذیعنی ابراہیم ؑ ،موسیٰ ؑ،عیسٰی ؑ اورآخرمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جاکرملتے ہیں۔کتاب میںاس حقیقت کوبارباردہرایاگیاہے کہ اسلام کی آمد کامقصدان بر گزیدہ پیغمبروں کے مشن کی تکمیل ہے،نہ کہ ان کی مخالفت ومخاصمت۔یہ ایک ایسی تاریخی حقیقت ہے کہ جس کاادراک ان دونوں مذاہب کے پیروکاروںکے لئے ضروری ہے ۔اس حقیقت کو صحیح طورنہ سمجھنے کاہی شاخسانہ ہے کہ جس کے سبب یہودیت اورعیسائیت اسلام کے ظہور اورقرآن کے آفاقی وابدی پیغام کامنظروپس منظر سمجھنے سے قاصررہے ۔ لہٰذااس خلیج جس کی بنیادی وجہ چند مغالطوں اورغلط فہمیوں کے بجز اورکچھ بھی نہیں، کورفع کرنے اورایک دوسرے کے تہذیبی اقدارسے واقفیت اور اخذ واستفادے کاطریقۂ کار صرف باہم دگر علمی مناظروں اور مکالموں کاانعقاد ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کا ایک قابل قدر پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے نتائج فکر کو بڑی باریک بینی سے پیش کیا ہے۔کسی بھی قسم کی تحریفات اور ملاوٹ کواچھی طرح مبرہن کرکے قارئین کے سامنے صحیح بات اور حقیقی تصویرپیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ کتاب کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ موصوف نے اپنی ہربات کی تائید میںقرآن مجیداوربائبل کی آیات کے علاوہ مختلف اہل علم کی تصنیفات کاحوالہ بھی جابجادیاہے۔ اس بیچ یہ بات بھی یادرکھنے کی ہے کہ اسلام،یہودیت اور عیسائیت،جن کی کڑیاں ایک ہی سرچشمے سے جاکرملتی ہیں،کے مابین پائی جانی والی مشترکہ ہدایات کو ایک جگہ جمع کرنے کاکام کسی ایک مخصوص قوم کاخاصا نہیںرہاہے۔ یہ کاوش اصل میں ان اہل دانش حضرات کی رہین منت ہیںجوبہت وقت سے اہل کتاب کے مابین پائی جانی والی مشترکہ چیزوں کو باہم مربوط کرنے کا عزم وارادہ رکھتے تھے۔ ان حضرات نے اپنی طرف سے ہرممکن کوشش کی کہ تاریخی پیرائے میںان مذاہب کی طاقت اور خدمات کو ایک تقابلی مطالعہ کے ذریعے دیکھا، پرکھا اورسمجھاجائے۔ پوپ پالؔ ششم کویہ اعزازحاصل ہے کہ انہوںنے اس ضمن میں سب سے پہلے ایساماحول تیارکرنے کی سعی کی جس کی مددسے مسلم دنیاکے چندبڑے رہنماؤں کے ساتھ مکالمے کی صورت پیداہوجائے۔ وہ ذاتی طورسے بھی عقائد کے سلسلے میں توحید پرخاصا زوردیتے تھے ،اور ایک ذات باری تعالیٰ کی عبادت پر اصرارکرتے تھے۔ یہ واقعتا ایک اہم شروعات تھی،جس کی مسلم دنیاسے بھی کافی حدتک سراہنا بھی ہوئی۔اس کے نتیجے میں سب سے جواہم پیش رفت ہوئی ،وہ یہ تھی کہ دونوںمذاہب کے ماننے والوں نے ایک دوسرے کوامن کاپیغام دیتے ہوئے آپس میں علمی اور فکری مباحث کے دروازے واکئے۔ ان میںجودونام خصوصیت کے حامل ہیں،وہ پوپ فرانسسؔ اورشاہ فیصلؔ ہیں۔ پوپ فرانسسؔ نے توایک قدم آگے بڑھ کر عرب راہبوں کو سینٹ کے القاب سے بھی نوازا۔یہ دراصل تمہیدتھی اس خوشگوار ربط و تعلق کی جس کی ایک کڑی کے طور ویٹیکن سٹی میں صدر محمودعباس کی موجودگی میں فلسطینی سفارت خانے کاقیام بھی عمل میںلایاگیا۔ اس کاوش کے نتیجے میںمندرجہ ذیل فوائد دیکھنے کوملے:(۱) عربوں کانسلی بنیادوںپرفخروغروربہت حد تک سمٹ کررہ گیا۔(۲) عصبیت، اقرباء پروری اور تعصبات کابہت حدتک قلع قمع ہونے کے ساتھ ساتھ مظلوم طبقہ کواستحصال سے نجات دلانے کی سبیل ممکن ہوئی۔ (۳) ظلم اورناانصافی کے شکارلوگوں کی جدوجہد کوہمت، جہت اورتحرک عطاہوا۔
ایسے حالات میںجہاںاقوام متحدہ جیسے ادارے بھی لوگوںکی شناخت اورتشخص کوتحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں، وہاں ضروری بن جاتاہے کہ مختلف مذاہب کے پیروکار باہمی تعاون واشتراک اور غوروفکر کا بندراستہ کھولیں۔مزیدبرآں اس وقت دنیا میںایک نئی صف بندی وجودآنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے واقعات میںبھی کافی تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔ڈاکٹرصاحب کے الفاظ میں:’’جنگی اسلحہ کاکاروباران ممالک کامحبوب ترین مشغلہ بن گیاہے جو دوراندیش نہ ہونے کی وجہ سے صرف جنگی حربوں کو ہر مسئلے کا حل سمجھتے ہیں۔انسانیت،خاص کرکہ مظلوم طبقات صرف اورصرف امن کے خواستگوارہیں‘‘۔یہ امن صرف اورصرف مخلصانہ کاوشوں سے مشروط ہے جس میں بین المذاہب مکالموں کی ا ہمیت کسی شک وشبہ سے بالاتر ہے۔
ڈاکٹرصاحب نادانستہ طورپر کتاب کے آخر میںاشاریہ(Index) شامل کرنابھول گئے ہیں۔اشاریہ کی مدد سے قارئین کے لئے ضروری معلومات حاصل کرنا آسان ہوجاتا۔ اس کے علاوہ مصطلحات (Glossary)بھی کتاب میں شامل ہوناچاہیے تھا تاکہ بعض عربی اورفارسی الفاظ واصطلاحات کے معانی بروقت معلوم ہوجاتے جس سے کتاب کوروانگی کے ساتھ پڑھنے میںآسانی ہوجاتی ۔ ان تشنہ طلب چیزوں کے باوجود یہ کتاب جس محققانہ جستجو ، علمی کدوکاوش اور عرق ریزی کے بعد منصہ شہودپرلائی گئی ہے، اس کے لئے ڈاکٹر اقبال صاحب واقعی قابل صدستائش اورمبارک بادکے مستحق ہیں۔ مجھے اُمید ہے یہ کتاب علمی حلقوں کے لئے فہم ودانش کے لئے تازہ دم قندیل ِ ہدایت ثابت ہوگی ۔
نوٹ : صاحب ِتحریرسابقہ بیروکریٹ ، سرکردہ مورخ ، کالم نگاراور مصنف ہیں۔
9419184570