بلال فرقانی
سرینگر//جموں کشمیر کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ ،شعلہ بیان مقرر،حاضر جواب سیاست داں اور اپنے حلقے میں شیر دل خاتون کے نام سے معروف محبوبہ مفتی کی پیدائش سابق مرکزی وزیر داخلہ اور جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ مرحوم مفتی محمد سعید کے گھر میں1969میں جنوبی قصبہ بجبہاڑہ کے آکھرن نائو پورہ میں ہوئی۔2بار ممبر پارلیمنٹ رہ چکی محبوبہ مفتی نچلی سطح تک پارٹی کارکنوں سے رابطے میں رہنے اور اپنی پالیسیوں کو میدانی سطح پر عملانے کیلئے انتھک محنت کرنے کیلئے جانی جاتی ہیں۔
ابتدائی ایام و گھرانہ
محبوبہ مفتی کا جنم22مئی1969میں آکھرن نائو پورہ میں مفتی محمد سعید کے گھر میں ہوا۔مرحوم مفتی محمد سعید کے نگرانی اور تربیت میں محبوبہ مفتی بچپن سے ہی سیاسی ماحول کے اردگرد رہیں۔ محبوبہ مفتی کے والد مرحوم مفتی محمد سعید جموں کشمیر کے منجھے ہوئے سیاست دانوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ محبوبہ مفتی کی ابتدائی تعلیم سرینگر کے پرزنٹیشن کانونٹ سکول میں ہوئی جس کے بعد جموں کے پریڈ کے گورنمنٹ کالج برائے خواتین سے انگریزی ادب میں گریجویشن کی۔انہوں نے کشمیر یونیورسٹی سے1982میں قانون کی ڈگری حاصل کی اور قانون کی ڈگری مکمل کرنے کے فوراً بعد انکی شادی ہوئی۔ محبوبہ مفتی اکتوبر 1989میں نئی دہلی منتقل ہوگئیں اور اپنی نوزائیدہ بیٹیوں کی دیکھ بھال کے لیے مالی طور پر خود مختار ہونے کے لیے بمبئی مرکنٹائل بینک میں ملازمت اختیار کی۔انہوں نے جموں کشمیر کا رخ کرنے سے قبل کچھ عرصہ ایسٹ ویسٹ ایئر لائنز کے ساتھ بھی کام کیا۔ بعد میںمحبوبہ نے نوکری چھوڑ دی اور اپنے والد کے سیاسی کام میں مدد کرنے کے لیے جموں کشمیر واپس آگئیں۔ ایک با اثر سیاست دان کے گھر میں پرورش پانے کے باوجودمحبوبہ مفتی نے سادہ طبیعت،خوش دہن،ملنسار اورنرم مزاج خاتون کے طور پر اپنی شناخت قائم کی۔محبوبہ مفتی کی خاص بات انکی مسکراہٹ ہے جو ہر دم انکے چہرے پر رہتی ہے ،جس پر انکے حلیف اور حریف انہیں یکساں داد دیتے ہیں۔ محبوبہ میں سخت حالات اور مشکلات سے مقابلہ کرنے کا مادہ ہے،جو انہیں دیگر سیاست دانوں سے منفرد بناتا ہے۔۔ جموں و کشمیر کی ہنگامہ خیز سیاسی تاریخ میں نہ صرف زندہ رہنے بلکہ اپنے لیے ایک الگ مقام بنانے کی خاطر سخت محنت کرنے اور مطلوبہ ذہانت کا مظاہرہ کرنے کاکریڈٹ محبوبہ مفتی کوجاتاہے۔ وہ اپنی زندگی میں دو افراد سے بہت متاثر ہیں ، ان کے والد مفتی محمد سعید اور نانا غلام مصطفی ناظم، جن کی صحبت میں انہوںنے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گزارا ہے۔محبوبہ مفتی کو سیاست وارثت سے ملی ،جبکہ انکے والد2بار جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ رہنے کے علاوہ مرکز میں بھی2بار وزیر رہے ہیں۔محبوبہ مفتی کے والد مفتی محمد سعید نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے عربی میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد1950کے اوائل میں سیاست میں قدم رکھا اور غلام محمد صادق کی سربراہی والی نیشنل کانفرنس سے علیحدہ ہوئے گروپ ڈیموکریٹک نیشنل کانفرنس میں شرکت کی،تاہم1965میں یہ گروپ کانگریس میں مدغم ہوا۔مفتی محمد سعید1962میں بجبہاڑہ اسمبلی حلقے سے منتخب ہوئے اور1964میں غلام محمد صادق کے وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے ساتھ ہی وزیر مملکت بنائے گئے۔1972میں مفتی محمد سعید کو کابینہ وزیر بنایا گیا ،جبکہ ریاستی کانگریس کی کمان بھی انہیں سونپی گئی۔1986میں مفتی محمد سعید راجیو گاندھی کی حکومت میں مرکزی وزیر سیاح بنے تاہم1987میں کانگریس چھوڑ کر وی پی سنگھ کے جن مورچہ میں شامل ہوئے اور وی پی سنگھ سرکار میں1989میں پہلے مسلم وزیر داخلہ بن گئے۔ مفتی محمد سعید نے1999میں پی ڈی پی کی داغ بیل ڈال دی جبکہ2002میں وزیر اعلیٰ بنے۔مفتی محمد سعیدنے دوسری مرتبہ2015میں وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالا۔محبوبہ مفتی کے ماما سرتاج مدنی بھی سابق ممبر اسمبلی اور قانون ساز کونسل کے رکن رہیں ہے،جبکہ انکے برادر تصدق مفتی بھی2016میں سیاحت کے وزیر رہے۔
سیاسی میدان
مرحوم مفتی محمد سعید کے گھر میں پیدایش کے ساتھ ہی محبوبہ مفتی کو سیاسی ماحول بھی وراثت میں ملا اور اسی ماحول میں انہوں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا۔ محبوبہ مفتی نے پی وی نرسمہا رائو کے دور میں اپنے والد سمیت کانگریس میں سر نو شمولیت اختیار کی اور اپنا پہلا اسمبلی الیکشن 1996 میں ضلع اننت ناگ کے آبائی حلقہ بجبہاڑہ سے لڑا۔ اس وقت انکی بیٹیاں ارتقاء اور التجاء پرائمری سکول میں زیر تعلیم تھیں اور محبوبہ نے الیکشن جیتا اور پہلی بار قانون ساز بنی۔ انہوں نے یہ مقابلہ2271ووٹوں کے فرق سے جیتا۔محبوبہ نے10051جبکہ انکے نزدیکی مدمقابل نیشنل کانفرنس کے عبدالغنی شاہ نے7780ووٹ حاصل کئے۔1999میں پی ڈی پی کی تشکیل تک، محبوبہ نے اپنی اسمبلی سیٹ سے استعفیٰ دے دیا اور 1999میں سری نگر سے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیا۔اس انتخاب میں محبوبہ مفتی کو عمر عبداللہ نے36ہزار859ووٹوں کے فرق سے ہرا دیا۔عمر عبداللہ نے55ہزار542جبکہ محبوبہ مفتی نے18ہزار683ووٹ حاصل کئے۔محبوبہ مفتی نے1999میں اپنے والد کے ہمراہ علاقائی جماعت پی ڈی پی کی بنیاد ڈالی اور بہت کم وقت میںاس کو لوگوں تک پہنچایا۔نچلی سطح پر سیاسی کارکن ہونے کے ناطے، پی ڈی پی کو ایک مضبوط علاقائی سیاسی قوت کے طور پر بنانے کا زیادہ تر سہرا محبوبہ کو جاتا ہے۔محبوبہ مفتی جموں و کشمیر کے ان چند سیاست دانوں میں سے ایک ہے جنہوں نے جموں کشمیر کے شرق و غرب کا سفر کیا، کبھی یہ سفر پاپیادہ تھا،کبھی گھوڑوں کا استعمال کیا اور کبھی بغیر محافطین چل پڑی اورکبھی فون و جیمر گاڑیوں کے بغیر ہی منزل کی جانب رختِ سفر باندھا۔محبوبہ مفتی نے سال2002میں پی ڈی پی کی ٹکٹ پرپہلگام حلقہ اسمبلی سےانتخاب میں شرکت کی اور اپنے نزدیکی مد مقابل نیشنل کانفرنس کے رفیع احمد میر کو 2139ووٹوں سے ہر ا دیا۔محبوبہ نے8544جبکہ میر نے6405ووٹ حاصل کئے۔ 2002میں پی ڈی پی اور کانگریس کی مخلوط سرکار قائم کرنے میں محبوبہ مفتی کا اہم رول مانا جاتا ہے۔2004میں محبوبہ نے جنوبی کشمیر سے پارلیمانی انتخابات میں شرکت کی اور اپنے نزدیکی مد مقابل نیشنل کانفرنس کے امیدوار محبوب بیگ کو38ہزار938ووٹوں سے شکست دی۔محبوبہ مفتی نے74ہزار436جبکہ محبوب بیگ نے35ہزار498ووٹ حاصل کئے۔2008میں محبوبہ مفتی نے وچی حلقہ اسمبلی انتخابات سے اسمبلی الیکشن میں شرکت کی اور جیت کی ہیٹرک مارتے ہوئے اپنے مد مقابل نیشنل کانفرنس کے امیدوار شوکت حسین گنائی کو8336ووٹوں کے فرق سے شکست دی۔محبوبہ نے12ہزار810جبکہ گنائی نے4474ووٹ حاصل کئے۔محبوبہ مفتی نے2014کے پارلیمانی انتخابات میں جنوبی نشست سے شرکت کی اور65ہزار417ووٹوں کے فرق سے اپنے مد مقابل نیشنل کانفرنس کے مرزا محبوب بیگ کو شکست دی۔محبوبہ مفتی نے2لاکھ429جبکہ ڈاکٹر محبوب بیگ نے ایک لاکھ35ہزار12ووٹ حاصل کئے۔محبوبہ مفتی نے تاہم اس نشست سے4اپریل2016کو مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔محبوبہ مفتی نے جون2016کے ضمنی اسمبلی انتخابات میں اننت ناگ اسمبلی حلقے سے مسلسل چوتھی مرتبہ جیت درج کرتے ہوئے اپنے نزدیکی مد مقابل کانگریس کے ہلال شاہ کو قریب12ہزار ووٹوں سے شکست دی۔محبوبہ مفتی نے17ہزار701جبکہ ہلال شاہ نے5616ووٹ حاصل کئے۔ یہ الیکشن محبوبہ مفتی نے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے لڑا تھا،کیونکہ محبوبہ مفتی نے مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعد زمام اقتدار سنبھالا تھا۔ ا س سے قبل محبوبہ مفتی نے 4 اپریل 2016کو صبح 11بجے جموں و کشمیر میں وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے والی پہلی خاتون بن کر تاریخ رقم کی۔محبوبہ مفتی جون2018تک اس وقت تک وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائر رہیں جب تک نہ بھاجپا نے اپنی حمایت واپس لی۔محبوبہ مفتی نے2019میں پارلیمانی نشست اننت ناگ سے ایک مرتبہ پھر الیکشن میں شرکت کی تاہم اس بار انہیں نیشنل کانفرنس کے امیدوار اور اپنے نزدیکی مد مقابل جسٹس(ر) حسنین مسعودی نے قریب10ہزارووٹوں سے شکست دی۔جسٹس(ر) حسنین مسعودی نے40ہزار180جبکہ محبوبہ مفتی نے30ہزار524ووٹ حاصل کئے اور تیسری نمبر پر رہیں۔5اگست2019کو جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کی تنسیخ کے ساتھ ہی محبوبہ مفتی کو حراست میں لیا گیا اور انہیں ہری نواس میں نظر بند رکھا گیا جبکہ مئی2020میں محبوبہ مفتی کے پبلک سیفٹی ایکٹ میں3ماہ کی مزید توسیع کی گئی۔محبوبہ مفتی کو قریب14ماہ تک نظر بند رکھنے کے بعد اکتوبر2020میں رہا کیا گیااور انہوںنے ایک بار پھر 5اگست 2019کے فیصلوں کے خلاف کھل کر لب کشائی کی۔پی ڈی پی نے جاریہ پارلیمانی انتخابات کیلئے جنوبی نشست سے پارٹی سربراہ محبوبہ مفتی کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ لیااور فی الوقت وہ چنائو مہم چلا رہی ہیں۔
جائیداد
الیکشن کمیشن کو جمع کئے گئے بیان حلفی کے مطابق محبوبہ مفتی کے پاس75لاکھ69ہزار867روپے جائیداد ہے۔محبوبہ نے اپنے بیان حلفی میں بتایا کہ ان کے پاس45ہزار روپے کی رقم در دست ہے جبکہ سٹیت بنک آف انڈیا اور جموں کشمیربنک کی مختلف شاخوں کے کھاتوں میں23لاکھ74ہزار904روپے جمع ہیں۔محبوبہ مفتی کے پاس11لاکھ94ہزار963روپے کی لائف انشورنس پالیسی بھی ہے جبکہ انکے پاس5لاکھ روپے کی ایس این کے ایسو زو گاڑی ہے۔بیان حلفی کے مطابق ان کے پاس بجبہاڑہ میں35لاکھ روپے مالیت کا آبائی رہائشی مکان بھی ہے۔انہوں نے کسی بھی مالی ادارے سے کوئی بھی قرضہ حاصل نہیں کیا ہے۔