بلال فرقانی
سرینگر// وادی میں رواں سال بزرگوں کی دیکھ بال کیلئے پہلا رہائشی گھر’ احاطہ وقار‘ کے نام سے معرض وجود میں آیا جو اگرچہ اپنوں کے ٹھکرائے ہوئے بزرگوں کیلئے ضرورت ہے تاہم معاشرے میں اس کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔کشمیری معاشرے میں بزرگ عموماً اپنے بچوں کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ قریبی خاندان کے علاوہ افراد خانہ سے تعلقات اور مضبوط رشتہ داریوں سے بزرگوں کو تحفظ کا احساس ہوتا ہے جبکہ سماج میںوالدین یا رشتہ داروں کی مدد کرنے میں ناکامی کو شرمناک سمجھا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر یکم اکتوبر کو بزرگوں کاعالمی دن اسی لئے منایا جاتا ہے تاکہ لوگوں کوبڑھتی عمر کے ساتھ آنے والے مواقع اور چیلنجوں کے بارے میں بیدارکیا جائے اور جدوجہد کر رہے بزرگوں کی مدد کے لیے سماجی تنظیموں، خاندانوں اور متعلقین کو متحرک کیا جائے۔
عالمی سطح پررواں سال ’’ بزرگ افراد کیلئے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کے وعدوں کو پورا کرنا‘‘کے موضوع کا انتخاب کیا گیا ہے۔ حکام نے وادی میں بزرگوں کیلئے رواں سال پہلا رہائشی گھر قائم کیا جبکہ حکومت کی جانب سے اس کو ایک غیر سرکاری رضاکار جماعت چلاتی ہے،جو ایک چھوٹی لیکن بڑھتی ہوئی ضرورت کو پورا کرنے کی نشاندہی کرتی ہے۔محکمہ سماجی بہبود کا ماننا ہے کہ10مقامات پر اگرچہ بے گھر کئے گئے بزرگوں کی تعداد 50کے قریب ہے اور یہ خطرناک نہیں ہے تاہم سماجی کارکن اور النورٹرسٹ کے سربراہ شبیر احمد راتھرکا کہنا ہے کہ تنہائی گزشتہ چند سالوں میں مضبوطی سے جنم لے رہی ہے اور روایتی اقدار جو پورے خاندان کی ایک اکائی کے طور پر فلاح و بہبود پر زور دیتے ہیں اورجہاں بزرگ افراد کو اہمیت کی جگہ ملتی ہے، زوال پذیر ہو رہی ہیں‘‘۔ ڈائریکٹر گوری کول فاؤنڈیشن کے سینئر جیریاٹرک کنسلٹنٹ ڈاکٹر زبیر سلیم نے تقریباً 27,000 بزرگوں کے بارے میں کشمیر پر مبنی اپنی تحقیق میں کہا کہ کم از کم 50 فیصد بزرگوں کو کسی نہ کسی صورت میں ایک یا دوسری شکل میں بدسلوکی کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا ہے’’ہم نے ان 26,237 مریضوں کو دو مختلف ترتیبات میں دیکھا: وہ جو مالی طور پر انحصار کرتے تھے اور وہ جو مالی طور پر خود مختار تھے‘‘۔ ڈاکٹر سلیم نے کہا ’’ مختلف اثرات کے علاوہ جو ہم نے دستاویزی شکل میں تیار کئے، ان میں امراض قلب، ابتدائی بیماری وغیرہ شامل ہے اور ایک سخت چیز جو ہم نے محسوس کی وہ ان بزرگ شہریوں میں نفسیاتی اور نیند کی خرابی ہے‘‘۔ان کا مزید کہنا ہے’’مطالعہ کے دوران انکشاف ہوا کہ ایک زمرے میں 43 فیصد بزرگوں کے ساتھ بدسلوکی اور دوسرے میں 52.3فیصد بدسلوکی کا شکار ہیں جس کا مطلب ہے کہ تقریبا 50 فیصد بزرگ بدسلوکی کا شکارہیں‘‘۔ ڈاکٹر سلیم کا ماننا ہے کہ یہ کوئی مذاق نہیں ہے، اس کا مطلب ہے دو میں سے ایک بزرگ بدسلوکی کا شکار ہے ۔انہوں نے کہا’ میرے خیال میں یہ تخمینہ اس سے زیادہ ہوسکتا ہے کیونکہ بہت کوششوں کے بعد ہی لوگ اپنی حالت زار بیان کرتے ہیں‘‘۔