سید مصطفیٰ احمد
اب میں بھی زندگی کی چھبیس بہاریں دیکھ چکا ہوں۔ کچھ حد تک نشیب و فراز بھی دیکھ چکا ہوں، زندگی کی باریکیوں کو سمجھنے لگا ہوں۔ رشتوں کی اہمیت کو محسو س کررہا ہوں۔حق اور ناحق کو پرکھ رہا ہوں۔محبت اور نفرت میں فرق دیکھ رہا ہوں۔ سچ کی کڑواہت اور جھوٹ کی مٹھاس چکھ رہا ہوں۔ کون اپنا اور کون پرایا آہستہ آہستہ اس کو بھی سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں۔گویا زندگی کی ان تلخ حقیقتوںکا سامنا کرکے جو لوگ مجھے سب سے زیادہ بے لوث اور ہمدرد نظر آئے، وہ ہیں ہمارے اپنےبڑے بوڑھے بزرگ۔ واقعی یہ لوگ مجھے ایک الگ قسم کے لوگ نظر آرہےہیں، جن کی پہچان بالعموم ہر انسان کو نوجوانی کی عمر میں نہیں ہوتی ہے۔البتہ جب یہ ہمارے پیارے بوڑھے بزرگ لوگ اس دنیائے فانی سے رخصت ہو کر ہم سے بچھڑ جاتےہیں، تب ان کی اہمیت کا ادراک ہوجاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ بات ابھی تک میری سمجھ میں نہیں آرہی ہے؟ یہ لوگ جو چلنے سے قاصر ہے اور بات بھی ٹھیک سے نہیں کرپاتے ہیں، تو اُن کی باتوں میں ایسا کیاکچھ ہوتا ہے جن کا تاثرکبھی زائل نہیں ہوتا ہے بلکہ وقت وقت پرانسان کے لئےسہارے کےمصداق بنتے رہتے ہیں۔
جی ہاں ! قارئین ِ کرام!! یہ چھوٹا سا مضمون میں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ گذشتہ دنوں میری دادی بہت علیل تھی۔ وہ اَب بوڑھی ہوچکی ہیں، مگر اُس کی علالت نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ وہ بھی کیا دن تھے، جب یہی میری دادی طاقت سے لبریز تھی، گھر کا بیشتر کام وہی کیا کرتی تھی۔ کھانا پکانا، مزدوروں کے لئے کھانا پہنچانا، بیماروں کی تیمارداری کرنا، وغیرہ میری دادی کے ہی مشاغل ہوا کرتے تھے، وہ کبھی تھکنے کا نام نہیں لیتی تھی۔ لیکن جب علالت کے باعث اُس کو بے بسی کے عالم میں پایا تو مجھ پر جذبات کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، میری آنکھیں خود بخود آنسوئوں سے بھر گئیں، مجھے اُس کی ایک ایک بات یاد آنے لگی۔ جب وہ چھٹیوں کے دن مجھ سے کہا کرتی تھیں کہ تم مدرسہ کیوں نہیں گئے؟ کب تم اپنی پڑھائی مکمل کروگے؟ تمہاری سرکاری نوکری کب لگے گی؟وہ بالکل سہی کہہ رہی تھی۔ شائد وقت کے قافلے نے اُسے بہت حد تک تھکا دیا تھا۔ اُس کے کچھ خواب ادھورے تھے۔ اس کی آنکھوں میں اُمیدوں کی نمی تھی، جو چھوٹی سی ٹھیس پر چھلکتی تھی۔ اب وہ زندگی کے آخری موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ اس موڑ پر وہ مجھے کچھ ایسے اسباق سکھا گئی جو میں ذیل میں پیش کررہا ہوں۔
پہلا ہے سادگی:۔ دادی نے مجھے سکھایا کہ سادگی کیا ہوتی ہے۔ سادگی کا اصل مفہوم دادی کی زندگی سے چھلکتا ہے۔ اپنی ہی دنیا میں قید اور دوسروں کی جاہ و حشمت سے بالکل الگ تھلگ،بس وہ اپنی ایک پسندیدہ زندگی میںمگن تھی، اپنی پسندیدہ چیزوں میں دن رات گزارنا اس کی زندگی کی خوبصورتی تھی۔ جب ہم بھائی بہن تعلیمی اداروں سے ذرا دیرگھر پہنچتے تھے، تو اُس کی پریشانی دیکھنے کے قابل ہوتی تھی۔ اُسے یہی فکر لاحق رہتی تھی کہ کہیں ہم سے کسی ایک کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ توپیش نہیںآیا ہے۔ پھر جب ہم تفصیل سے دیر کی وجہ بیان کرتے تھے، تب وہ کسی حد تک مطمئن ہوجاتی تھی۔ اس سادگی نے مجھ پر بہت گہرا اثر ڈالاہے۔
دوسرا ہے شفقت اور پیار:۔دادی کے اس خصوصی وصف نے بھی مجھے بہت زیادہ متاثر کیا تھا۔ دل کی گہرائیوں سے کیا جانے والا پیا ر واقعی ہماری رگ رگ میں سمایا جاتا ہے، اس کی جیتی جاگتی تصویر ہماری دادی ہے۔ جب کبھی میرا دل غمگین ہوجاتا تھا تو اُس کی پیار بھری باتیں دِل کو تسکین مہیا کرتیں۔ وہ یہ بات صاف کر دیتی کہ غموں کا آنا جانا زندگی کا ایک حصہ ہے، اس سے گھبرانا کوئی دانائی نہیں ہے۔ اُ س کی انہی حوصلہ افزاباتوں سے ہمیںفرحت و سکون مہیا ہوجاتا۔ تیسرا ہے زندگی کا ایک لمبا تجربہ:۔ زندگی کے اُتار چڑھاؤ کو میری دادی نے بہت نزدیکی سے دیکھا ہے۔ اُس کی جدوجہد کو دیکھ کر میرے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ زندگی کا اصل مقصد ہے مصیبتوں سے مقابلہ کرنا۔ ظاہر ہے کہ اندھیروں اور روشنیوں سے گزر کر اُس نے خود ایک روشنی حاصل کی ہے۔اور اُسی روشنی سے وہ ہماری دنیا بھی روشن دیکھنا چاہتی ہے۔ چوتھا ہے اس کی دینی حِس:۔ ہماری دادی ہمیشہ سے دینی کاموں میں آگے آگے رہتی ہے۔ وہ خوف خدا کا ایک مجسمہ دکھائی دیتی ہے۔ دینی باتوں اور شرعی معاملات کو غور سے سننا اُس کا وطیرہ بن گیا تھا۔کوئی بھی اُس کے سامنے دین کے خلاف کچھ اُلٹا سیدھے بولے، تو وہ شرارت سے لال ہوجاتی ہے۔ اس کے نزدیک دین کا کام ہے خدا کی راہ میں اپنی خواہشات کا گلا گھونٹنا ہے۔ میں جب بھی اس کے سامنے دین کی کوئی بات کرتا ہوں، تو اُس کی آنکھیں چھلکتی ہے اور آنسوؤں کی ایک لڑی لگ جاتی ہے۔
خلاصہ ٔ کلام یہ کہ اپنے بوڑھے بزرگوںکی زندگی کے آئینہ میں ہمیں اپنے لئے رہِ عمل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ میری دادی جیسی بزرگ خواتین اور بوڑھے بزرگ والدین ،دادا دادی ،نانا نانی ،رشتہ دار یا ہمسایوں کو سمجھنے اور اُن کی باتوں کو غور سے سننے کی ضرورت ہے۔مجھے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ بزرگوں کی آرا ،جوانوں کی قوت و زَر سے زیادہ اچھی ہوتی ہیں۔ اُن کی اہمیت اس وقت معلوم ہوگی جب وہ اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ اُن کی گود کتنی ملائم اور نرم اور ان کے چھائوں کتنے گھنے اور دراز ہوتے ہیں،یہ کسی بھی انسان کو تب یا د آتے ہیں جب وہ ان سے بچھڑ جاتے ہیں۔وقت غنیمت ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کو پہچانیں، زمانے کے تیز رفتار بہاو میں ہرگز انہیں نہ بھولیں۔اُن کی فرمانبرداری اور خدمت گذاری کرنا انتہائی لازمی ہے۔ اس وقت میری دادی دھیمی آواز میں اپنے بچپن کی باتیں دُہرا رہی ہے، جن میں سمندروں کی گہرائیاں موجود ہیں۔ اللہ ہمارے بزرگوں پر رحم کرے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے بزرگوں کا مقام سمجھنے، اُن کی خدمت کا جذبہ اور فرمان برداری کی توفیق عطا کرے۔آمین
(مدرس حسینی پبلک اسکول ایچ ایم ٹی، زینہ کوٹ، سرینگر)
رابطہ۔7889346763