بلال احمد پرے
وزیر اعظم نریندر مودی نے سترویں یوم آزادی کے موقع پر ملک کو مؤثر ترین خطاب فرمایا۔ انہوں نے یوم آزادی کے شاندار موقع پر لال قلعے سے بدعنوانی کے خلاف بھی آواز اٹھائی ہے۔ آپ نے بدعنوانی کو کچرے کی طرح سماج میں پنپنے والی گندگی قرار دے دیا۔ اس طرح کی گندگی نے ہمارے سماج کے کردار کو بدنما بنا دیا ہے۔
بدعنوانی کا موضوع اپنے آپ میں انتہائی سنجیدہ ہے اور اس سے ہر ایک معاشرے کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ بدعنوانی مطلب کسی شخص یا اشخاص یا ادارے کی طرف سے اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کیلئے تفویض کردہ اختیارات کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر غلط استعمال کرنا ہے۔ رشوت ستانی کا مطلب صرف غیر قانونی طور پیسے حاصل کمانا نہیں ہے بلکہ کسی بھی طرح سے سرکاری آفس کے کسی بھی چیز کو اپنی ذاتی زندگی کیلئے غیر قانونی طور پر استعمال کرنا بھی بدعنوانی کہلاتا ہے۔بدعنوانی اصل میں ایک مجرمانہ عمل ہے۔ یہ ضمیر فروشی ہے۔ یہ بددیانتی اور فراڈ ہے۔ یہ بداخلاقی اور بد انتظامی ہے۔ یہ منفی رویوں اور لالچی رجحانات کی پیداوار ہے۔ یہ اپنی دنیا اور آخرت خراب کرنے کا برا فعل ہے۔ یہ اپنی نسل کو تباہ و برباد کرنے کا کام ہے۔ یہ دوسروں کا حق سلب کرنے کا ظالمانہ عمل ہے۔ یہ کینسر سے خطرناک اور زہر سے زیادہ اثر دار ہے۔ یہ مہلک معاشرتی ناسور ہے۔ یہ دوسروں کو پریشان کرنے والا برا فعل ہے۔ یہ انتہائی سنگین جرم ہے۔
رشوت ستانی یا بدعنوانی ایک دیمک کی طرح ہے جو معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ رشوت ستانی ایک وباء کی طرح ہے۔ جس سے پرہیز کرنے سے ہی ایک پاک اور ترقی یافتہ معاشرہ کی تشکیل ممکن ہے۔ رشوت ستانی وہ وائرس ہے جو معاشرے کے چھوٹے و بڑے عہدے پر فائز سبھی ملازمین کو آہستہ آہستہ اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔بدعنوانی کسی بھی قسم کی ہو سکتی ہے۔ جیسے کہ ایک سرکاری ملازم اپنی خدمات کے بدلے رقم کا مطالبہ کرتا ہے، عوامی پیسے کا سیاسی طور سے غلط استعمال کرتے ہیں یا اپنے قرابت داروں، دوستوں اور خاندانوں کو سرکاری ملازمتیں یا ٹھیکے یا اس طرح کے دوسرے فائدے پہنچا دینا ہیں۔
وزیر اعظم نے کھل کر کہا کہ یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر بدعنوانی کے خلاف نفرت کا احساس پیدا کریں، جیسا کہ ہم کچرے کیلئے رکھتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ہمیں اسے اپنے جمہوری نظام سے باہر کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس سے زیادہ تر غریب اور پسماندہ لوگ شکار ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ دیکھا جائے تو سماج میں سب سے بڑی بدعنوانی ایک سرکاری ملازم کے ہاتھوں ہو رہی ہے۔ جس پر وزیراعظم نے قدغن لگانے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانے پر زور دیا ہے۔ حالانکہ دین ِ اسلام کے مطابق رشوت لینا اور دینا حرام ہے اور اخلاقی طور پر بھی اس سے معیوب سمجھا جاتا ہے۔
ملکی سطح پہ دیکھا جائے تو بدعنوانی میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے ماتحت سبھی وزراء کو جواب دہ بنا دیا ہے۔ اور ہمیشہ سے اسی بات کو دہرایا کہ “نہ کھاؤں گا، نہ کھانے دوں گا”۔ یہ ملک کی ترقی کے لئے سب سے بڑی خوش آئند نشانی ہے۔ آج کل ملکی سطح پر سبھی قسم کے پوسٹوں کے لئے میرٹ پر انتخاب کیا جاتا ہے۔ جس سے کئی غریب گھرانے کے ذہین بچوں کو روزگار حاصل کرنے کا سنہرا موقع میسر ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں جموں و کشمیر سیول سروسز امتحان 2021 میں ایک ہی گھر کے تین افراد (دو بہنیں اور ایک بھائی) نے جموں و کشمیر سیول سروسز امتحان پاس کیا۔ اور اب آئے دن اس طرح کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ اس کے لئے موجودہ انتظامیہ کو جتنا بھی سراہا جائے، کم ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل (International Transparency ) کے ذریعے کرپشن پرسیپشن انڈیکس ( Index Perception Corruption ) بدعنوانی کی پیمائش کیلئے 0 سے 100 تک کا پیمانہ استعمال کرتی ہے۔جہاں 100 کا سکور بدعنوانی سے بالکل ہی صاف تصور کیا جاتا ہے اور 0 اسکور کو انتہائی بدعنوان مانا جاتا ہے۔ اسی کرپشن پرسیپشن انڈیکس 2022ء کے مطابق، بھارت 180 ممالک میں سے 85 نمبر پر سب سے کم بدعنوان ملک مانا جاتا ہے۔اسی طرح ریاستوں میں سے سب سے زیادہ بدعنوان راجستھان اور بہار مانی جاتی ہیں جہاں مقامی حلقوں کے ذریعہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل اور انڈیا کرپشن سروے 2019 کے مطابق 70 سے 80 فیصد شہریوں نے رشوت دی ہے۔ اس کے برعکس سب سے کم بدعنوان کیرالہ کی ریاست ہے جہاں کے صرف 10 فیصد شہریوں نے رشوت دی ہے اور بھارت کی دیگر کم کرپٹ ریاستوں میں اڑیسہ، مغربی بنگال، گوا، دہلی، ہریانہ اور گجرات مانی جاتی ہیں۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB) کی طرف سے اپنی ’کرائم ان انڈیا- 2020‘ کی سالانہ رپورٹ کے انکشاف کے مطابق جموں و کشمیر میں بدعنوانی کے کیسوں کی تعداد میں سال 2018ء سے 2020ء تک مسلسل کمی آئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سال 2018ء کے دوران بدعنوانی کے 82 کیس رپورٹ ہوئے۔ جب کہ سال 2019ء میں یہ تعداد 73 اور سال 2020ء میں 71 تک پہنچ گئی ہے۔
جموں و کشمیر میں اے سی بی (ACB) نے ایسے بدعنوان ملازموں کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اسی طرح کی کارروائیوں میں تیزی لانے کے لئے سنہ 2018ء سے 2020ء کے درمیان اے سی بی نے جموں و کشمیر میں مختلف محکموں کے بدعنوان اہلکاروں کے خلاف 219 مقدمات درج کیے ہیں۔ سنہ 2022ء میں مختلف محکموں کے کئی اعلیٰ افسران کو اے سی بی نے اپنی گرفت میںلیا۔اسی طرح ایل جی انتظامیہ نے مختلف محکموں سے بدعنوانی میں ملوث کئی ملازمین کی خدمات ختم کر دیں۔ اس طرح کی بے شمار قابل تعریف مثالیں موجود ہیں، جس سے بدعنوانی کو کچرے کی طرح سماج سے دور پھینکنے کا کام جاری ہے۔
دوسری جانب ایل جی انتظامیہ نے زیادہ سے زیادہ سرکاری سروسز کو آن لائن بنا کر رشوت زنی پر پوری طرح سے لگام کس دی ہے جو واقعی قابل تحسین اور قابل تعریف اقدام ہے۔موجودہ دور میں جدید قسم کی ٹیکنالوجی بدعنوانی کو کم کرنے میں بھی معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا ہاوسز کو انتظامیہ کے ساتھ مل کر مختلف صنعتوں میں بدعنوان افراد کو بے نقاب کرنے کیلئے سٹنگ آپریشنز کرنا چاہئے۔ اس طرح کے اسٹنگ آپریشن نہ صرف بدعنوان افراد کو بے نقاب کریں گے بلکہ دوسروں کو بھی اس طرح کے رویے میں ملوث ہونے سے روک لیں گے۔
الغرض ہمیں اے سی بی کے ڈر سے نہیں بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ڈر سے بدعنوانی یا رشوت ستانی سے فوراً پرہیز کرنا چاہئے۔ کیونکہ اے سی بی سے پکڑنے پر صرف کیس درج ہوگا۔ لیکن ہمارا رب جو ہم سے گھات (Ambush) لگا کر بیٹھا ہے، اس کے سامنے کل جواب دہ ہونا ہے۔ شاید ہمیں یہ یقین ہی نہیں ہو رہا ہے، کہ ایسا بھی وقت آنے والا ہے کہ ہم سے سرزد ہوئی سبھی برائیوں کو سامنے پیش کیا جائے گا۔خلاصہ کلام یہی ہے کہ ہم اپنے فرائض کو ترجیحی بنیادوں پر انجام دیں۔ جہاں فرض کا احساس ہو اور جہاں فرضِ اعلیٰ ہو، وہاں بد عنوانی نہیں ہو سکتی ہے۔ لہٰذا اس سے نجات پانے کیلئے ملک کے تمام شہریوں کو مل کر ایمانداری سے اپنا کام انجام دینے کے لئے وعدہ بند ہونا چاہئے۔
پتہ۔ہاری پاری گام ترال
رابطہ۔ 9858109109
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاًاپنی ہیں اور انہیںکسی بھی طورکشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)