اگرچہ ہر سال یہ روایت رہی ہے کہ دربارکی منتقلی کے بعد جموں میں بجلی کی غیر اعلانیہ کٹوتی بڑھ جاتی ہے اور لوگ شدید گرمیوں میں انتہائی مشکلات کاشکار ہوجاتے ہیں تاہم اس بار چونکہ سیکریٹریٹ کے بیشتر دفاتر گرمیوں میں بھی کووڈ انیس کی وجہ سے جموں میں کھلے رہے جبکہ بیشتر بیروکریٹ اور لیفٹنٹ گورنر سے لیکر اُن کے مشیر بھی جموں آتے جاتے رہتے ہیں تو یہ اُمید کی جارہی تھی کہ شاید اس بار جموں باسیوں کو بجلی کی غیر اعلانیہ کٹوتی سے نجات مل جائے گی لیکن یہ اُمیدیں بھر نہ آئیں اور فی الوقت بجلی کٹوتی اپنی انتہا پر ہے۔جموں میں بجلی کی غیر اعلانیہ کٹوتی کا یہ عالم ہے کہ اکثرو بیشتر گرمی کی وجہ سے بچے بلکنے لگتے ہیں جبکہ بزرگ بھی پریشان حال رہتے ہیں۔
حالانکہ حکومت نے بارہا اعلان کیاہے کہ جموں میں بغیرکٹوتی بجلی کی سپلائی فراہم ہوگی لیکن دور دراز علاقوں کی تودور کی بات، جموں خاص میں بھی ان دنوں بجلی کٹوتی عروج پر ہے ۔ان دنوں صوبہ کا ٹھیک وہی حال ہے جو سردیوں میں اہلیان کشمیر کاہوتاہے۔پہاڑی خطوں وادی چناب اور پیر پنچال میں بجلی کی فراہمی کا توکوئی شیڈول ہی نہیں اور محکمہ کی مرضی آئے تو بجلی سپلائی ہوتی ہے اور اگرمحکمہ نہ چاہے تو سپلائی فراہم نہیں ہوتی لیکن جموں شہر میں بھی محکمہ کا شیڈول پر عمل پیرا نہ ہونا تشویشناک بات ہے ۔
جموںوکشمیرمیں بجلی کا یہ حال ایسے وقت میں ہے جب یوٹی انتظامیہ آئندہ دو تین برسوں میں پورے جموںوکشمیر میں بغیر کٹوتی بجلی سپلائی فراہم کرنے کے وعدے کررہی ہے اور کئی نئے بجلی پروجیکٹوں پر کام جاری ہے ۔چراغ تلے اندھیرے کے مصداق جموں وکشمیر ایک ایسا علاقہ بن چکا ہے جہاں بڑے پیمانے پر بجلی تو پیدا کی جارہی ہے لیکن اس کی سپلائی سے شمالی ہند کی ریاستیں روشن ہورہی ہیں اور خود یہاں کے لوگ گھپ اندھیرے میں ہیں ۔ اگردیکھاجائے تو محکمہ بجلی کا نظام ہی روبہ زوال ہے اور کٹوتی کے علاوہ بھی اور کئی مسائل ہیں جن کو حل کرنا لازمی ہے ۔ حکام کی طرف سے چند برس قبل آر جی جی وی وائی سکیم کے تحت پورے جموںوکشمیر میں ان گائوں دیہات تک بجلی فراہم کرنے کا پروگرام شروع کیاگیاتھا جو برقی رو سے محروم تھے لیکن اس سکیم سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکے ۔اس کے بعد آر اے پی ڈی آر پی ،اُجولہ اور دین دھیال اُپادھیائے سکیمیں بھی رائج کی گئیں تاہم حالت بدلنے کا نام لے رہی ہے۔آج بھی حالت یہ ہے کہ ٹرانسفارمر کئی کئی مہینوںسے خراب پڑے ہیں اور انہیں نہ تو ٹھیک کیاجارہاہے اور نہ ہی مستقبل میں ان کی مرمت یا متبادل کاکوئی بھی منصوبہ ہے ۔ صرف ضلع راجوری میں اس سکیم کے تحت 60ایسے ٹرانسفارمر ہیں جو کئی مہینوںسے خراب ہیں تاہم انہیں ٹھیک نہیں کیاجارہا۔یہی نہیں بلکہ اگر دور دراز علاقوں میں کوئی ٹرانسفارمر خراب ہوجائے تو اسے ٹھیک کرنے میں محکمہ مہینے لگادیئے جاتے ہیں ۔
یوں صوبہ جموں میں بجلی محکمہ کا نظام لوگوں کیلئے پریشانی کا سبب بناہواہے اور جب تک اس میں واضح تبدیلیاں نہیں لائی جائیںگی، اُس وقت تک لوگوں کی مشکلات کم نہیں ہوںگی ۔ موجودہ دور میں بجلی ایک ایسی ضرورت بن چکی ہے جو شہر سے لیکردیہات تک ہر ایک شخص کو بہر صورت چاہئے ہوتی ہے لیکن اگر اس دور میں بھی غیر اعلانیہ کٹوتی اور خراب ٹرانسفارمروں کو ٹھیک نہ کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا تو پھر اس محکمہ کا خدا ہی حافظ ہے ۔
یوٹی انتظامیہ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ صارفین کو بلا خلل بجلی سپلائی کرے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ حکومت تاحال اس مشن میں ناکام نظر آرہی ہے ۔بھلے ہی محکمہ بجلی کی نجکاری کا عمل شروع کیا گیا ہو اور ایک محکمہ سے چار کارپوریشنیں وجود میں لاکر پیداوار،ترسیل اور تقسیم کاری کے شعبے الگ الگ کئے گئے ہوں لیکن الگ کارپوریشنیں تشکیل دینے سے محکمہ کی حالت نہیں سدھر نہیں سکتی ہے ۔
یہاں مسلسل طلب اور سپلائی میں وسیع خلیج موجود ہے ۔المیہ تو یہ ہے کہ ہماری گرڈ صلاحیت نہیں بڑھائی جارہی ہے اور جموںوکشمیر میں محکمہ بجلی کو طلب کے برابر بجلی وصول کرنے کی بھی صلاحیت موجود نہیں ہے کیونکہ ہمارے گرڈ سٹیشنوں کو اپ گریڈ نہیں کیاجارہا ہے۔جموں میں گرمیوں میں جب بجلی کی طلب انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو گرڈ سٹیشن بیٹھ جاتے ہیں اور نتیجہ کے طور پر محکمہ کو لوڈشیڈنگ کرنا پڑتی ہے کیونکہ گرڈ سٹیشنوں کے پاس اس سے زیادہ بجلی لینے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی ہے ۔یہی حال کشمیر کا ہے ۔وادی میں سردیوں کے دوران جب بجلی کی طلب عروج کو چھوجاتی ہے تو غیر اعلانیہ کٹوتی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور پھر خال خال ہی لوگوں کو بجلی کے درشن نصیب ہوتے ہیں کیونکہ وادی کے اندر بھی بیماری یہی ہے کہ گرڈ سٹیشن اضافی بجلی لینے کی پوزیشن میںنہیں ہوتے ہیں۔ضرورت اس مر کی ہے کہ یہاں کھپت اور سپلائی کے درمیان موجود خلیج ختم کی جائے ۔اس کیلئے لازمی ہے کہ ہماری گرڈ صلاحیت میں اضافہ کیاجائے تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ بجلی لینے کی پوزیشن میں آسکیں۔اُس وقت تک نہ ہی جموں میں گرمیوں میں بجلی کا منظر نامہ بہتر ہوگا اور نہ ہی کشمیر میں سردیوں میں صارفین کو بجلی دیکھنے کو نصیب ہوگی۔