نام کتاب: دستک سی درِ دل پر ( انشائیے)
مصنف: زاہد مختار
تبصرہ نگار: ڈاکٹر حسرت حسین
’’ دستک سی در دل پر‘‘ایک معتبر اور مستند ادیب ، شاعر، مکالمہ نگار ، صحافی اور ادارت کار زاہد مختار کی از حد معنی خیز اور ادبی جلال وجمال سے لبریز کتاب ہے۔زاہد صاحب اپنی گوناگوں تحریرات کی بدولت نہ صرف ریاست جموں کشمیر کے ایک منجھے ہوئے ادبی اساطیر Literal legend ہیں بلکہ آپ بہت پہلے سے برصغیر ہندو پاک میں اپنی قدوقامت کی بدولت از حد مشہور و معروف ہیں بقول سید محی الدین مخدوم ؎
الاہی یہ بساط ِ رقص اور بھی بسیط ہو صدائے تیشۂ کامران ہو کوہکن کی جیت ہو
زاہد مختار قریباً ایک درجن اردو اور کشمیری کتابوں کے مصنف ہیں۔ آپ جہاں ا پنی اردو شاعری اور افسانوں کے بساط ِرقص سے جانے جاتے ہیں وہیں آپ اپنی کشمیری شعری مجموعوںکے طفیل ریاست بھر کے کشمیری حلقوں میں بھی از حد مشہور و معروف ہیں۔ کشمیر اور اردو غزلیات کو ترنُم میں پڑھنے کا گُر کوئی آپ سے ہی سیکھے۔ یہ سلسلہ آپ کے پچاس سالہ ادبی سفر پر بہ حُسن و خوبی محیط ہے۔ جس زمانے میں زاہد نے قلم ہاتھ میں لیا اُس زمانے میں جو خاص ادبی محسن آپ کی داد رسی کرتے رہے اُن میں ادبی دنیا کے شہسوار شمیم احمد شمیم، خواجہ ثنا ء اللہ بٹ، محمد یوسف ٹینگ، حامدی کاشمیری صاحب، غلام نبی ناظر، رسُل پونپر،پروفیسر غلام محمد شاد ، پروفیسر شوریدہ کاشمیری جیسے ادبی مردانِ آہنگ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ زاہد کی ایک خدا داد صلاحیت یہ ہے کہ آپ جس کسی چیز کو بھی ہاتھ میں لیتے ہیں اُسے آناً فاناً سطح قرطاس کی زینت بنائے بِنا نہیں رہتے چہ جائیکہ آپ اخباری دُنیا سے وابستہ رہیں یا ادبی مجلوں کی نوک پلک سنوارنے کے درپے رہیں۔ رہی بات شعرو شاعری، افسانوی، مکالماتی فکر وفن کی تو اُس میں آپ کو ید طولیٰ حاصل ہے ہی۔ زاہد صاحب سراپا ادبی ذوق جمال میں ڈوبی شخصیت کا نام ہے۔ آپ کے روم روم میں ادبی موشگافیوں کا بھر پور عمل دخل ہے۔ میرے خیال میں اگر ایسا کہا جاے تو بے جا نہ ہوگا وہ یوں کہ زاہد صاحب کی پرچھائیاں جہاں پر پڑتی ہیں وہاں کی بنجر زمینوں سے ادب کے ایسے میٹھے زمزمے پھوٹ پڑتے ہیں جو پوری کائنات کے خشک وتر کو ایک ایسی پُر کاری اور ترو تازگی بخشتے ہیں کہ ہر طرف سرو سمن اوررنگ برنگ گلابوں کا مقدر قلم کا ہوئے بغیر نہیں رہتا۔
زاہد کی ایک ممتاز اور متعمدن خصوصیت یہ ہے کہ آپ میں جہاں زندگی کی ہر دکھتی رگ کا عکس ملتا ہے وہاں آپ کے ہاں از حد اسرار پسندی Sprituality کے جلوے موجزن ہیں۔ اور اگر اغلب نہ ہوگا تو دردست کتاب ’’ دستک سی درِ دل پر‘‘ میں اس طرح روحانی افکار جا بجا طور پر جا گزین ہیں۔ میں نے بہت کوشش کی کہ ’’ دستک سی در دل پر‘‘ کو ادبی انداز میں سمجھنے کی کوشش کروں مگر ہر ایک انشائیہ کی روحانی تب و تاب بلاآخر مجھے اپنے بہاو کی ہی نذر کرتا رہی اور خاص بات یہ ہے کہ باوجود اس کے زاہد صاحب کسی بھی ادبی زینے سے گرنے کا نام نہیں لیتے بلکہ سدا بہ شانِ جم ایک کُہن مشق ادبی مداری کی طرح تب تک نہیں بیٹھتے جب تک نہ ہر ایک انشائیہ کا ایک ٹھوس اور معنی خیز اختتام نہ ہوتا۔
زاہد ؔکے ہاں نہ واعظانہ پند و نصیحت ہے اور نا ہی مفت کی کوئی ادبی مئے نوشی بلکہ دیکھا جائے آپ ایک مخلص اور مسرور کُن طریقے سے اپنی ادبی مکالمہ نگاری کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ آپ کی سعادت اولین یہ ہے کہ آپ کو اردو زبان پر بھر پور عبور حاصل ہے۔ آپ اس بات کے از حد قائل ہیں کہ اصل میں کسی بھی خیال کی پیش بندی کے لئے الفاظ کی نا گُزیریت از حد لازم اور مقدم ہے اور ایسے میں آپ الفاظ اور خیال یا یوں کہیں زبان اور تخیل کو ایک دوسرے میں کچھ اس انداز میں پیوست کراتے ہیں کہ عقل محوحیرت میں پڑے بِنا نہیں رہتی۔
زاہدؔ صاحب کی سب سے انوکھی اور پُر کشش خصوصیت یہ ہے کہ آپ اپنی ادبی فکر کو جیسے تیسے ایک روحانی ماحول میں معطر کرنے کے درپے ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ مصنف کے اندر کہیں نہ کہیں کوئی ایسا زاہد چھپا ہے جو اپنی روحانی سر ا سیمگی Spritual mesmerize کے بل بوتے پر سدا اپنی کاوشوں میں کسی نہ کسی صورت میں اُبھر کر سامنے آتی ہے۔ اصل میں زاہد اپنے ایک انشائیے میں جُز سے کُل کی جانب سرگرداں ہونے کا بھرم لئے ہوئے ہے چہِ جائیکہ بات کو تپش رومانیت سے ہی کیوں نہ شروع کریں مگر آپ کے قلم و قلب تب تک اپنی پیاس نہیں بُجھا سکتا جب تک کہ آپ کا شعور کسی نہ کسی سری پہلو کو روشناس نہیں کراتا۔ ایسے میں ’’ دستکــــ۔۔۔‘‘ کا ہر کوئی انشائیہ میرے خیال میں ایک ادبی صحیفہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک روحانی سوزِ دروں کا ہیولا بن کے سامنے آتا ہے۔ زاہدؔ کو قدروں کے مٹ جانے کا بھی خوف ہے اور قدروں کے بن سنورنے کا اشتیاق بھی۔ آپ ایک خلاق ذہن کے مالک بھی ہیں اور خالق بھی۔ آپ کے رگ و پے میں جو چیز از حد نا گزریت کے ساتھ رچ بس چکی ہے وہ آپ کا اخلاق پرور بساط کے تئیں از حد خلوص و اطمینان ہے۔ زاہدؔ ادبی آوارگی سے کوسوں دور بھاگ کر اپنے مخلصانہ سوز و گداز کو پرونے کے درپے ہر گام نظر آتے ہیں۔
’’ دستک سی در دل پر ‘‘ کا ایک ایک انشائیہ جن کی تعداد قریباً ڈیڑھ درجن سے رقم ہے میں ہر جگہ آپ سماج کے پھپھوڑوں کو نشتر زد کرنے میں مگن نظر آتے ہیں ۔ آپ ایک ذی حس اور ذی شعور مصلح کے بطور اپنی عملی جولانیوں کے ساتھ بہ حسن و خوبی اُبھر کر سامنے آتے ہیں۔ ایسے میں آپ کو ایک سماج سُدھارک کا نام دیا جائے تو موزون ہوگا۔آپ کبھی کبھار از حد جذباتیت کے شکار بھی ہوتے ہیں مگر دیکھا جائے اس میں سدا خلوص و اخلاق کا جذبہ کار فرما رہتا ہے۔ آپ کو تب ہی یہ طُرہ امتیازحاصل ہے جب آپ کو اپنے سماج کی ہر دکھتی رگ کا نبض ہاتھ میں آتاہے۔آپ ایسے میں ایک حقیقی نباض بھی ہیں اور نسخہ دہندہ بھی۔ آپ غالباً سماج کے ہر طبقے کے لوگوں کو اپنے طنز و مزاح کا موضوع بناتے ہیں پر حق تو یہ ہے کہ یہ طنز اُن حسین و جمیل پھُلجڑیوں کی مانند ہے جس میں مہک بھی ہے اورلمساتی چُھبن بھی۔ واہ کتنا لا فانی اور انمول اندازِفکر۔ ہمارے فاضل مصنف کے ہاں پل پل میں ایک نیا انشائیہ کروٹ لے کر اُبھرتا ہے ۔ ایسے میں آپ کے ہاں بیسوں مثالیں روز روشن کی طرح عیاں و بیاں سے عبارت ہیں۔
’’ ادبی رسائل‘‘ ڈوبتی اُبھرتی سانسیں ہو کہ ’’ نظامِ ہستی‘‘ ’’ ضمیر کی چیخ‘ ہو کہ ’’برسوں کا یارانہ ‘‘ یا ’’ ادب کے لغوی معنے‘‘ یا مذید فکر انگیز انشائیے مثلاً ’’ فطرت‘‘ ’’ انا پرستی‘‘ یا ’’ عریانیت‘‘ غرض کتاب میں جتنے اور جس قدر کے بھی گوناگوں عنوانات ملتے ہیں آپ جستہ بہ جستہ یا کسی نہ کسی اعتبار سے اپنے احوالِ افکار کی دبستہ داستان سرائی کئے ہوئے ہیں۔ زاہدؔ کی ایک نادر خصوصیت یوں ہے کہ آپ اپنے موضوعات کو خالصتاً خشک اور دل برداشتہ طریقے پہ نہیں چھوڑتے بلکہ ان میں لمحہ بہ لمحہ ایک نِت نئی جان پیدا کرنے کی رمز آشنائی کے مالک ٹھہرتے ہیں۔ زاہد اسی پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ آپ کو جہاں بھی لگے کہ بات کو مذید معنی خیز بنانے کی ضرورت ہے وہاں آپ اپنے سرمائے علم و ادب سہارا لے کر کچھ ایسے تمثیلات کو شعور کی پختہ گی کے ساتھ جلوہ فگن کراتے ہیں کہ یکایک معنی و افکار کے انتھک زمزے پھوٹ پڑتے ہیں مثلاً ’’ عریانیت‘‘ انشائیہ میں آپ تمہیداً یوں ایک مشہورِ آفاق ادبی شخصیت اور مصلح کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں
مرحوم مشتاق احمد یوسفیؔکا تیکھا تیکھا سا جُملہ یوں ہے ’’ مونگ پھلی اور آوارگی میں خرابی یہ ہے کہ آدمی ایک دفعہ شروع کر دے تو سمجھ نہیں آتا کہ ختم کیسے کرلے‘‘
ایک اور جگہ فاضل مصنف کے حوالے سے یوں ’’لہجہ‘‘ کی اہمیت جتلاتے ہیں
’’ لہجہ لفظ کا ڈی این اے ہے۔جس سے نظر کافتور، نیت کی کھوٹ، اور دل کا چور پکڑا جاتا ہے‘‘
’’ دستک۔۔۔۔۔‘‘ کی غیر معمولی خصوصیت یوں ہے کہ اس کے آخیر میں مصنف کا ایک سولاں صفات پہ مشتمل از حد پُرکشش اور ذوق جمال سے لبالب انٹرویو شامل ہے۔ یہ علمی اور ادبی بساط سے لبریز انٹرویو زاہد صاحب سے ’’ جہانِ اُردو ادب ( پاکستان) کے ایڈیٹر محمد زبیر پنوار صاحب نے برقی رو کے تعاون سے لیا ہے۔ یہ گوناگوں اور گُہر افشانی سے معمور مسحور کُن انٹرویو مصنف کے از حد ادبی طمطراق کا عکس لئے ہے۔ یہ منہ بولتی تصویر کچھ اُس شان و شوکت اور وقارکے ساتھ پیش بندی کرنے کی غماز ہے کہ عقل محو حیرت ہوئے بِنا نہیں رہتی۔ یہ سارا مباحثہ پڑھ کر اس بات کا اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے کہ زاہد اپنے آپ میں چشمہ عِلم و عرفان ہے جس کا ہر ایک قطرہ آپ اپنے اندر ایک جوئے حیاتِ قُلزم سے عبارت ہے۔ یہاں زاہدؔ صاحب کی ادبی، فکری، فنی غرض ہر طرح کی بساطِ فن کی جولانیوں کا خوب سے خوب تر پیرائے میں جستہ بہ جستہ مظاہرہ ہوتا ہے بقول اقبالؒ
میری مشاطگی کی کیا ضرورت حُسنِ معنی کو
کہ فطرت خود بخودکرتی ہے لالے کی حنا بندی