برطانوی فتح باغ قلعے کے آثار:
کامران کو سندھ میں جب یہ خبر ملی کہ ہمایوں بدخشاں کی مہم پر نکلا ہے مگر بہت بیمار ہے تو شاہ حسین ارغون کی فوج لے کر چلا اور کابل پر قبضہ کرلیا۔ یہ خبر جب ہمایوں کو ملی تو وہ کابل کی طرف روانہ ہوا کیونکہ گلبدن اور اکبربھی وہیں محصور تھے۔ کامران نے ایک دن قلعے کی فصیل پر اکبر کو کھڑا کردیا اور کہا کہ قلعے پر گولہ باری بند کی جائے مگر جب کامران کو اپنی ناکامی نظر آئی تو قلعے سے چھپ کر نکل گیا۔’’اکبرنامہ‘‘ میں بھاگ جانے کی تاریخ یوں درج ہے: ’شب پنجشنبہ۔ ہفتم ربیع الثانی 954ھ‘ (بمطابق 1547ء)۔ مسلسل ناکامیوں نے کامران کو مجبور کردیا کہ وہ ہمایوں سے زیادہ معاملات خراب نہ کرے۔ پھر دونوں بھائی ملے روئے اور ایک دوسرے کو گلے لگایا۔اس ملاقات سےعسکری آزاد ہوا جو ہمایوں کی قید میں تھا۔ ہمایوں دینے پر آیا تو کولاب کا علاقہ بھی اُسے جاگیر کے طور پر دے دیا اور کامران سے وعدہ لیا کہ آئندہ جنگوں میں وہ اُس کی مدد کرے گا مگر وعدے پر قائم رہنا شاید اس کے بس میں نہیں تھا، اس لیے کہ وہ خود کو اندر سے اس قابل نہیں سمجھتا تھا، اُسے اپنی کوتاہیوں کا بخوبی یقین تھا ،اس لیے خود اعتمادی کی چھاؤں اس بدقسمت شہزادے کے نصیب میں نہیں تھی۔ 1549ء میں ہمایوں جب بلخ پر حملہ کرنے کے لیے نکلا تو کامران مرزا نے اپنے کیے ہوئے وعدے کو پانی نہیں دیا اور ہمایوں کو ناکام لوٹنا پڑا۔اسی زمانے میں مرزا صاحب حرم بیگم نامی عورت سے عشق لڑا بیٹھے ، یہ جوان بیٹوں (مرزا سلیمان اور مرزا ابراہیم) کی والدہ تھی۔ اُس عورت کو کامران کی یہ حرکت اچھی نہیں لگی تو اپنے بیٹوں سے شکایت کی اور وہ اس کے دشمن بن گئے۔ مرزا یہاں سےرستاق پہنچا جہاں ازبکوں نے اسے لُوٹ لیا۔ ایسی خستہ حالی میں اُسے پھر ہمایوں یاد آیا اور اُسے ملازمت کی عرضی دی جو ہمایوں نے قبول کی اور خود غوربند کی طرف روانہ ہوا۔ اس اثنا میں قراچہ بیگ اور دوسرے امراء نے مرزا کو بہکایا کہ ہمایوں پر حملہ کردیا جائے اور یہ صاحب حملے کے لیے تیار بھی ہوگئے اوردشت قیچاق میں ہمایوں پر اچانک حملہ کردیا۔ اس جنگ میں ہمایوں کو شکست ہوگئی،وہ زخمی بھی ہوا۔ اُس کا ساز و سامان کامران کے ہاتھ لگا۔ اس مال غنیمت میں ہمایوں کا کتب خانہ بھی کامران کے ہاتھ لگا مگر کچھ ہی عرصے بعد چار کاران (’’ہمایوں نامہ‘‘ میں یہ نام ہے جب کہ’’اکبرنامہ‘‘ میں جنگ کا مقا م اشتر گرام تحریر ہے) میں مرزا کامران کو ناکامی ہوئی اور لُوٹا ہوا مال غنیمت ہمایوں کو واپس ملا۔اس شکست کے بعد مرزا کے لیے زمین کچھ زیادہ ہی تنگ ہوگئی۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے جیسے کامران کی آنکھوں سے سمجھ اور دانائی کے سارے راستے اوجھل ہوگئے تھے۔ اُس کا وجود ریگستان میں اُس سوکھی ہوئی جھاڑی کی طرح ہوگیا کہ وقت کی ہوا جہاں لے جاتی وہ دوڑتا جاتا۔ اس شکست کے بعد یہ شہزادہ افغانوں سے جا ملا اور ایک لڑاکو جتھا بنالیا اور جب بھی موقع ملتا ہمایوں کی فوج پر چھاپے مارتا اور پھر پہاڑیوں میں روپوش ہوجاتا۔اسی طرح ایک رات شاہی لشکر پر اس نے شب خون مارا جس میں مرزا ہندال مارا گیا۔ یہ قتل کامران کے بے نام راستے کے سفر کی آخری سرحد تھی۔ہندال اور گلبدن بیگم،دلدار بیگم سے تھے مگر اُن کو پالا پوسا، ماہم بیگم نے تھا۔ اس قتل کے بعد شاہی خاندان نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اب کامران مرزا کی زندگی کی زمین کو لپیٹ دیا جائے اور اُسے قتل کرکے اُس کی وحشتوں کو قبر کی گہرائیوں میں دفن کردیا جائے۔اس خبر کے بعد کامران زمین کی خاک چھانتا سلیم شاہ (شیر شاہ کا بیٹا) تک پہنچا مگر اُس کا رویہ دیکھ کر اُسے بڑی مایوسی ہوئی۔ ’’منتخب التواریخ‘‘ کے مصنف بدایونی لکھتے ہیں کہ’’کامران کو جتنا ذلیل کرنا تھا سلیم کی دربار میں کیا گیا۔‘‘بدایونی، یادگار اور دوسرے وقائع نگار اس پر متفق ہیں کہ ’’سلیم نے مرزا کے ساتھ بے اعتنائی و بدسلوکی کا کوئی دقیقہ اُٹھا نہ رکھا۔ جب کامران کو محسوس ہونے لگا کہ سلیم اسے گرفتار کرنا چاہتا ہے تو موقع پا کرعورت کا بھیس بدلا اور وہاں سے نکل بھاگا اور چھپتا چھپاتا مان کوٹ چلاآیا۔ وہاں بھی دام تیار تھا، وہاں سے بھی بھاگ نکلا۔ کابل جاتے ہوئے راستے میں سلطان آدم گھکڑ نے اسے پکڑلیا اور یہ خوشخبری اور ملازمت کی درخواست فوراً ہمایوں کو بھیجی۔ مرزا صاحب بھی پیچھے نہیں رہے اور اپنے خاص آدمی جوگی خان کے معرفت ہمایوں کی خدمت میں یہ عرض داشت بھیجی مگر قبولیت کا شرف حاصل نہ کرسکی۔ بقول علامہ ابوالفضل: ’مشتمل بر چرب زبانی ها بود۔‘
خاندان اور اہل دربار میں مرزا کے لیے فیصلہ یہ ہوا کہ’ ’جس آدمی کی گردن پر اتنے سارے خون ہیں اُس کی گردن مار دی جائے‘‘ مگر ہمایوں نے حکم دیا کہ کامران کی آنکھوں میں سلائی پھیردی جائے۔ یہ واقعہ 1553ء میں پیش آیا۔ اس کے کچھ دنوں کے بعد ہمایوں کابل جا رہا تھا، جب دریائے سندھ کے قریب پڑاؤ ڈالا تو کامران نے وہاں ہمایوں سے حج کی اجازت مانگی۔ اُسے اجازت دے دی گئی اورچلمہ کوکہ(جو کامران کا دودھ شریک بھائی تھا) کو ساتھ جانے کی اجازت بھی دی گئی۔ہمایوں نے 1553ء میں بالآخر اپنے بھائی کامران کو کابل میں شکست دے دی ۔د ونوں بھائیوں کی یہ آخری ملاقات تھی کیونکہ ان دونوں کی چھٹی حس نے ضرور آگاہ کردیا ہوگا کہ ان لمحوں کے بعد وہ کبھی نہیں مل سکیں گے۔ نہ ایک دوسرے کی آواز سن سکیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ جب آخری پلوں میں یہ بھائی آپس میں مل کر بیٹھے ہوں گے تو گزرے ہوئے وقت کو یاد بھی کیا ہو، مگر گزرا وقت نصیب کے کشکول میں پچھتاوے کے کھوٹے سکوں کے علاوہ اور ڈال بھی کیا سکتا۔یہ دونوں بھائی الگ الگ ماؤں کی اولادیں تھے مگر ان دونوں میں بہت ساری باتوں میں یکسانیت دیکھی جاسکتی ہے۔ ان کے جنم لینے میں ایک برس کا فرق تھا جب کہ ان کی موت میں بھی ایک برس کا فرق۔ ہمایوں نے 1541ء میں حمیدہ بانو بیگم سے شادی سندھ میں پاٹ کے مقام پر کی تھی اور اتفاق دیکھئے کہ کامران نے بھی 3 برس بعد اسی مقام پر شاہ حسن ارغون کی بیٹی چوچک بیگم سے شادی کی۔ شادی کے بعد ہمایوں پاٹ میں 3 دن رہا ،البتہ کامران مرزا یہاں 3 ماہ رہا مگر جب 9 برس کے بعد اسی راستے سے وہ اپنے سسر کے پاس جا رہا تھا تو اُس نے وہ مانوس آوازیں ضرور سنی ہوں گی مگر بڑی کوشش کے بعد بھی وہ کچھ دیکھ نہیں سکا ہوگا کیونکہ نور جانے کے ساتھ اپنی کوتاہیوں، حماقتوں اور بے جا نفرتوں کی گٹھری کا بوجھ بھی اس کے سر پر تھا کیونکہ آدمی کاٹتا وہی ہے جو بوتا ہے۔ کامران نے جو بویا تھا اب وہی کاٹ رہا تھا۔مرزا شاہ حسن نے کچھ ماہ کامران کے لیے سادھ بیلو (یہ چھوٹا سا جزیرہ ہے جو بکھر سے مغرب میں دریائے سندھ میں ہے) میں رہائش کا انتظام کیا۔ اُس کے بعد جنوبی سندھ میں فتح باغ کے مشہور قلعے میں رہائش دی اور دونوں میاں بیوی کے باورچی خانہ کو چلانے کے لیے میرپوربٹھورو (یہ ایک چھوٹے سے شہر کی حیثیت سے اب بھی موجود ہے) پرگنہ ان کے حوالے کردیا گیا۔ یہ وہی قلعہ تھا جہاں 2 برس تک ہمایوں اپنے خاندان سمیت رہا تھا اور اکبر بادشاہ نے چلنے کیلئے ابتدائی قدم اسی قلعے کے دالانوں میں اُٹھائے تھے۔یقیناً یہ خبر مرزا کو ضرور ہوگی۔ کہتے ہیں کہ بینائی چلے جانے کے بعد سننے اور محسوس کرنے کے حواس تیز ہوجاتے ہیں اور اُسے اپنی بےوقوفیوں اور ہمایوں کی نرم دلی کی بہت یاد آئی ہوگی۔ اُسے اپنے اس خاندان کی چھاؤں بھی بہت یاد آئی ہوگی جو اس نے اپنے ہاتھ سے گنوادی تھی۔ 2 برس بعد جب کامران مرزا نے حج پر جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو مرزا حسین بیگ نے اپنی بیٹی چوچک بیگم کو اُس کے ساتھ حج پر جانے سے سختی سے روک دیا لیکن چوچک بیگم نے اپنے باپ کی بات نہیں مانی اور اپنے باپ کی اجازت کے بغیر قلعے سے نکل کر کشتی میں جا کر بیٹھی۔ اُسے دوسروں نے بہت سمجھایا مگر وہ نہیں مانی۔ آخرکار مرزا شاہ حسن خود کشتی پر آیا اور رو کر اُسے کامران کے ساتھ جانے سے روکا، تاہم چوچک بیگم نے بات نہیں سنی اور اپنے والد کو کہا،’’’بادشاہ جب آنکھوں والا تھا تب آپ نے میری اُس سے شادی کروادی تھی۔ اب دنیا کیا کہے گی کہ شاہ حسن کی بیٹی نے شوہر کی فرمان برداری سے انکار کیا اور اس سے ہماری عزت نہیں رہے گی۔‘‘
یہ بات شاہ حسن کو مناسب لگی اور سامان و اسباب کے ساتھ بیٹی اور مرزا کو رخصت کیا۔وہ دونوں میاں بیوی 2 برس تک مکہ میں رہے۔ میر معصوم بکھری لکھتے ہیں کہ’’مرزا کامران کی زندگی کا سورج حج کے دن عرفات میں غروب آفتاب سے پہلے ڈوب گیا۔ چوچک بیگم مرزا کے وفات کے بعد 7ویں مہینے میں انتقال کرگئیں۔ یہ 964ھ بمطابق 5 اکتوبر 1557ء کا واقعہ ہے۔‘‘ہمایوں کو اگر اس واقعے کی خبر ملتی تو وہ یقیناً بڑا دُکھی ہوتا مگر ہمایوں اس سے پہلے یہ جہان چھوڑ چکا تھا۔ پتہ نہیں کہ کامران کو ہمایوں کے گزر جانے کی خبر ملی بھی یا نہیں۔ اگر ملی ہوگی تو وہ یقیناً رویا ہوگا کہ ڈھلتی عمر اور موت کا ڈر، انسان سے بہت ساری جبلتیں چھین لیتا ہے۔یہ ایک عبرت ناک تاریخی حقیقت ہے، جس میں سے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی اتنی بڑی عمر نہیں ہوتی کہ دشمنیوں اور نفرتوں کے بیج بوتے رہیں کیونکہ آخری وقت میں جب یہ فصلیں بڑھ جاتی ہیں تو اُسے کاٹنا بھی ہمیں ہی پڑتا ہے اور اس عمر میں یہ سب بڑا دُکھ دینے والا کام ہوتا ہے۔۔۔!
(ختم شد)