بلا ل فرقانی
ڈورو(سوپور) //ماضی میں بائیکاٹ کیلئے مشہور مرحوم سید علی گیلانی کے آبائی گائوں ڈورو سوپور میں آج ماحول بالکل پر سکون تھا اور گائوں میں قائم تین پولنگ مراکز میںجستہ جستہ پولنگ ہورہی تھی۔صبح کے وقت ڈورو چوک کے عقب میں بوائز ہائی سکول ڈورو میں قائم پولنگ مرکز پر ووٹروں کی قطاریں لگی تھیں تاہم وقت گزرنے کے ساتھ وہ قطاریں ختم ہوگئیں لیکن ایک ایک کرکے ووٹنگ کا عمل جاری رہا۔دوپہر سوا ایک بجے تک اس پولنگ مرکز پر975ووٹوں میں سے 110ووٹ ڈالے گئے تھے ۔اس پولنگ مرکز سے ووٹ ڈال کر نکلے ایک نوجوان جاوید احمد نے بتایا کہ گوکہ وہ ماضی میں ووٹ نہیں ڈال رہے تھے لیکن بدلتے حالات میں انہوںنے بھی خود کو بدلا اور جمہوری عمل میں حصہ لیا۔اُنکا کہناتھا’’بے شک اس علاقہ میں پولنگ کا مکمل بائیکاٹ ہوتا تھا لیکن بائیکاٹ کرکے کچھ حاصل نہیں ہوا ‘‘۔جاوید کا کہناتھا کہ اس بار نوجوانوںنے بدلائو کیلئے جمہوری عمل میں حصہ لیا کیونکہ وہ روایتی سیاست سے تنگ آچکے ہیں۔ڈورو میں ہی یونیک انٹر نیشنل سکول کے عقب میں پنچایت گھر میں قائم پولنگ مراکز پر بھی جستہ جستہ پولنگ ہورہی تھی اور خواتین و مرد ایک ایک دو دوکرکے اپنی حق رائے دہی کااستعمال کررہے تھے ۔اس پولنگ مرکز پر دوپہر اڑھائی بجے تک کل 1058ووٹوں میں سے 215ووٹ ڈالے گئے تھے اور لوگ مسلسل پولنگ مرکز کا رخ کررہے تھے ۔اس پولنگ مرکز پر ووٹ ڈال کر نکلنے غلام حسن نامی ایک ادھیڑ عمر کے شہری نے کہا کہ انہوںنے بدلتے حالات کو دیکھتے ہوئے جمہوری عمل میں حصہ لیا ۔حسن کہتے ہیں’’ایک زمانہ تھا جب یہاں ووٹنگ جرم تصور کیاجاتا تھا لیکن اب وہ زمانہ نہیں رہا کیونکہ جب سے اب تک حالات یکسر بدل چکے ہیں ‘‘۔انہوںنے مزید کہا’’5اگست2019کے بعد جموںوکشمیر میں جو کچھ ہوا ،اُس کے بعد اب جمہوری عمل سے خود کو وابستہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا تھا اور انہوںنے جمہوری عمل کے ذریعے ہی اپنے جذبات کا اظہار کیا‘‘۔اسی پولنگ مرکز پر ووٹ ڈال کر نکلے محمد آصف نامی25سالہ نوجوان نے کہا کہ انہوںنے تبدیلی کیلئے ووٹ دیا ۔اُن کا کہناتھا’’یہاں گھٹن کا ماحول ہے ۔
بات کرنے پر پابندی ہے ۔ایسے میں انہوںنے جمہوری طریقے سےاپنے ووٹ کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کیا‘‘۔آصف مزید کہتے ہیں’’یہاں کوئی پرسان حال نہیں ہے۔لوگوںکا حال بے حال ہوچکا ہے۔بیروزگاری عروج پر ہے ۔مہنگائی نے ناک میں دم کرکے رکھاہے لیکن کوئی دادرسی کرنے کو تیار نہیں ہے۔ایسے میں ووٹ ہی ایک ایسی طاقت ہے جس کے ذریعے وہ تبدیل لاسکتے ہیں اور انہوںنے اسی تبدیلی کیلئے ووٹ ڈالا تاکہ اچھے دنوں کی امید پیدا ہوسکے‘‘۔ڈورو قصبہ کے اندرون میں مڈل سکول میں قائم ایک اور پولنگ مرکز کی حالت کچھ مختلف نہیں تھی جہاں دو بجے کے آس پاس ایک ہزار سے زائد ووٹوں میں سے300سے زائد ووٹ ڈالےجاچکے تھے۔اس پولنگ مرکز پر خواتین کی تعداد کچھ زیادہ تھی جو اپنے ووٹ کا استعمال کرنے آئی تھیں۔چند خواتین سے بات کرنے کی کوشش کی گئی تو اُنکا کہناتھا کہ انہیں ووٹ دیکر اچھا لگا۔انہوںنے کہا’’مدتوں بعد ووٹ ڈال کر خوشی ہوئی۔اب وہ پولنگ مراکز کا رخ کرنا بھول چکے تھے۔لیکن اس بار ہم نے ووٹ ڈالنے کا من بنالیا کیونکہ ہم بدلائو چاہتے ہیں اور اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں‘‘۔پروفیسر عبدالغنی بٹ کے آبائی گائوں بوٹینگو میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں تھی جہاں اچھی رفتار سے پولنگ چل رہی تھی اورلوگ پولنگ مراکز کا رخ کررہے تھے ۔ایسی ہی صورتحال علیحدگی پسند جذبات کیلئے ماضی میں مشہور پلہالن پٹن میں بھی دیکھنے کو ملی جہاں جستہ جستہ پولنگ ہورہی تھی۔پلہالن ہائرسکینڈری سکول کے باہر نوجوان جمع تھے جنہوںنے اپنی حق رائے دہی کا استعمال کیاتھا۔ان نوجوانوںنے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ وہ ماضی میں بائیکاٹ کیلئے بدنام تھے جس کی انہیں بہت زیادہ سزا بھی کھانی پڑی لیکن اب کی بار انہوںنے جمہوری عمل میں حصہ لیا تاہم کل کسی کو یہ کہنے کا موقعہ نہ ملے کہ پلہالن کے لوگ جمہوریت دشمن ہیں۔انہوںنے کہا کہ نوجوانوںنے تبدیلی کیلئے ووٹ دیا اور وہ اپنے مسائل کا نپٹارا چاہتے ہیں۔انہوںنے کہا کہ یہاں آج بھی درجنوں نوجوان جیلوںمیں بند ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے بلکہ وہ نہ صرف بند نوجوانوںکی رہائی چاہتے ہیں بلکہ مستقبل میں پکڑ دھکڑ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔انہوںنے کہا کہ علاقہ میں ترقیاتی عمل کا فقدان ہے اور روزگار بالکل نہیںہے۔انہوںنے کہا کہ اُنہیں ماضی کے گناہوںکی اجتماعی سزا دی جارہی ہے لیکن اب وہ اس سلسلہ سے تنگ آچکے ہیں اور یوٹی وملک کے دیگر علاقوںکے لوگوںکی طرح معمول کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔پلہالن کے ہی رائےپورہ سکول میں قائم پولنگ مرکز پر قدرے بھیڑ تھی جہاں لوگ چھوٹے چھوٹے گروپوں میں آکر ووٹ ڈال رہے تھے ۔انہوںنے کہا کہ وہ تبدیلی کیلئے ووٹ ڈال رہےہیں او ر ایک بہتر مستقبل کی امید کے ساتھ اس الیکشن میںحصہ لے رہے ہیں کیونکہ انہوںنے ماضی میںبہت کچھ سہا ہے ۔اولڈ ٹائون بارہمولہ میں بھی صورتحال ایسی ہی تھی جہاں آزاد گنج کے نجی سکول میں قائم پولنگ مرکز پر شام چار بجے بھی ووٹروںکی قطاریں لگی تھیں اور لوگ اپنی باری کا انتظار کررہے تھے ۔یہاں قائم گلابی پولنگ مرکز پر خواتین کی لائنیں لگی تھیں اور وہ بے صبری سے اپنی باری کا انتظارکررہی تھی۔کشمیر عظمیٰ نے جب یہاں خواتین اور مرد رائے دہندگان سے بات کی تو انہوںنے کہا کہ بائیکاٹ کرکےکچھ نہیں نکلا ،اب وہ ووٹ کے ذریعے اپنی قسمت بدلنا چاہتے ہیں۔انہوںنے کہا کہ وہ جمہوری عمل میں حصہ لیکر خوش ہیں اوربدلائو کیلئے ووٹ ڈال رہے ہیں تاکہ اُن کی زندگیاں خوشحال بن جائیں۔