سرینگر// پولیس نے اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ ایڈوکیٹ بابر قادری کیس میں اس وقت ایک اہم پیش رفت ہوئی جب سنٹرل جیل سرینگر میں نظر بند 2قیدیوں کے نام سامنے آنے کے بعد انہیں حراست میں لیا گیا۔پولیس سٹیشن لال بازار میں درج وکیل بابر قادری قتل کیس زیر نمبر ,62/2020 اور 16/18 UAPA) کے سلسلے میںتحقیقات کے دوران پولیس کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے شاہد شفیع میر ساکن خانیار،زاہد فاروق خان ساکن نوہٹہ اور آصف بٹ رحمانیہ کالونی سرینگر کو گرفتار کیا اور ان سے تفتیش شروع کی جس کے دوران سرینگر سینٹرل جیل میں مقید دو افراد منیر عزیز وارعرف قاری ولد عبد العزیز وار ساکن ہٹ مولہ کپوارہ اور توصیف احمد شاہ ولد غلام محمد شاہ ساکن پارمپورہ سرینگر کے نام سامنے آئے اور دونوںکو حراست میں لیا۔پولیس نے بتایا ہے کہ تینوں کی شناخت قادری کے اہل خانہ اور ان افراد کی مدد سے کی گئی ہے اور انہیں 26 دسمبر تک سنٹرل جیل میں جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا گیا ہے۔پولیس نے کہا ہے کہ ابتدائی طور گرفتار تینوںافراد نے پوچھ تاچھ کے دوران بتایاکہ انہیں بابر قادری کے قتل کے لئے 2افراد سے ہدایت ملی جو سنٹرل جیل سری نگر میں بند ہیں۔ پولیس نے توصیف اور منیر کو عدالت کے احکامات کے بعد تحویل میںلیا تاکہ اس بات کا پتہ لگایاجائے کہ ان تینوں، جنہوں نے الزامات عائد کیے وہ سچ ہیں یا غلط۔انہوں نے مزید کہا کہ دونوں کی پوچھ تاچھ کی جا رہی ہے ۔پولیس نے بتایا کہ زاہد فاروق خان ایک بد نام زمانہ سنگ باز ہے ۔ اور اسے اگست ، 2019 میں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لیا گیا جس کو حال ہی میں رہا کیا گیا تھا۔ توصیف شاہ عسکریت پسندی سے متعلق کیس اور منیر عزیز قتل کے ایک مقدمے میں جیل میں ہیں۔ خیال رہے ایڈوکیٹ بابر قادری 24کو حول سرینگر میں ستمبر2020کو اپنی رہائش گاہ کے اندردونقاب پوش افراد نے گولی مار کر ہلاک کیا تھا۔جو ان کی رہائش گاہ میں داخل ہوئے تھے جن کے ہاتھ میں فائلیں تھیں۔