عارف شفیع وانی
جموں و کشمیر کو دلکش مرغزاروں سے نوازا گیا ہے۔ یہ سرسبز چراگاہیں آنکھوں اور دماغ کیلئے ٹھنڈک ہیں۔ تاہم ضابطے کی عدم موجودگی میں خاص طور پر کشمیر میں سیاحتی مقامات کے ان مرغزاروں کو گاڑیوں کے چلانے اورآف روڈسرگرمیوں کی وجہ سے تباہی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
نیشنل گرین ٹریبونل (این جی ٹی) نے گزشتہ سال کشمیر کے مختلف سیاحتی مقامات گلمرگ، ناگن ویلی، توسہ میدن، دودھ پتھری اور درنگ میں بھاری موٹر گاڑیوں کے استعمال سے گھاس کے میدانوں کو پہنچنے والے نقصان کا سخت نوٹس لیا تھا۔این جی ٹی نے ایک آف روڈ گروپ کے خلاف ایک عرضی پر کارروائی کی تھی کیونکہ وہ علاقے کے نباتات، جمادات کو پریشان کرنے اور شورو فضائی آلودگی کا سبب بھی بناتھا۔این جی ٹی نے جموں و کشمیرپولیو شن کنٹرول بورڈ، محکمہ جنگلات اور محکمہ سیاحت جموں و کشمیر کو اس معاملے میں مناسب کارروائی کرنے کی ہدایت دی تھی۔ این جی ٹی نے پچھلے سال پرنسپل چیف کنزرویٹر آف فاریسٹ جموں و کشمیر، پولیو شن کنٹرول بورڈ، سکریٹری سیاحت کشمیراور متعلقہ اضلاع کے ضلع مجسٹریٹ کی مشترکہ کمیٹی سے رپورٹ طلب کی تھی۔ لیکن کمیٹی نے کہا تھا کہ ان کے سائٹ کے دورے کے دوران سبز چراگاہوں میں گاڑیوں کی کوئی نقل و حرکت نہیں تھی لیکن کچھ علاقوں میں سطح کی معمولی خرابی کے شواہد ملے ہیں۔ کمیٹی نے سفارش کی تھی کہ گلمرگ، درنگ، دودھ پتھری، ناگن ویلی اور توسہ میدن کی سبز چراگاہوں میں گاڑیوں کی نقل و حرکت کی اجازت نہ دی جائے اور اس کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کیے جائیں جس کیلئے کسی بھی ضابطے کے طریقہ کار کو نافذ کرنے کیلئے اضافی افرادی قوت کی ضرورت پڑسکتی ہے۔
حال ہی میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بہت سی ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں جن میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح بے حس لوگ گھاس کے میدانوں اور جنگلات میں گاڑیاں چلا رہے ہیں جس سے مختلف سیاحتی مقامات خاص طور پر دودھ پتھری، گریز اور بنگس کے ماحولیاتی نظام کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
حال ہی میں محکمہ جنگلات نے دودھ پتھری میں گھاس کے میدانوں پر گاڑی چلانے پر نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ سرسبز میدانوں اور جنگلات پر آف روڈ ڈرائیونگ سختی سے ممنوع ہے۔ ان سیاحتی مقامات کے قریب جنگلاتی علاقے جنگلی جانوروں کی آماجگاہ ہیں۔ گاڑیوں کی تیز آواز ان جنگلی جانوروں کے رہائش گاہ کو پریشان کرتی ہے۔ کشمیر کے جنگلات میں خرابی ریچھوں اور چیتے کی انسانی بستیوں میں نقل و حرکت کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس کی وجہ سے انسانوں اور جانوروں کے مزبین شورش میں اضافہ ہوا ہے۔
ماحولیاتی کارکن ڈاکٹر راجہ مظفر نے کہا کہ گھاس کے میدانوں پر گاڑیوں کا چلنا نازک ماحولیاتی نظام کو تباہ کر دے گا۔ وہ کہتے ہیں”آف روڈنگ ٹھیک ہے اگر یہ کچی سڑک کی سطح پر کیا جائے لیکن جس طرح سے سرسبز میدانوں اورچراگاہوںکو جیپوں اور ایس یو وی کے ذریعہ یوسہ مرگ، دودھ پتھری، گریز اور دیگر مقامات پر لوٹا جا رہا ہے، اگر اسے ابھی روکا نہیں گیا تو یہ تباہی کا باعث بنے گا۔”
وہ مزید کہتے ہیں”میں نے پیر پنجال کے پہاڑوں کی اونچائی والے علاقوں میں جیپوں کو اوپری یوسہ مرگ کے علاقے میں دیکھا ہے جہاں شاید ہی کوئی کار یا جیپ چلانے کا تصور کرے گا۔ اس علاقے میں ہائیڈرو پاور پراجیکٹ بنانے کے لئے استعمال ہونے والی جے سی بی کرینیں سڑک کی کھردری سطح بناتی ہیں جسے اب بنایا جا رہا ہے۔ دودھ پتھری اور یوسہ مرگ کے علاقے کوبھی آف روڈنگ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہیجان، منڈی کھل، آیود میں آس پاس کے گھاس کے میدانوں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے اور محکمہ جنگلات بالکل بھی کارروائی نہیں کر رہا ہے۔ یہ انڈین فاریسٹ ایکٹ 1927 اور وائلڈ لائف کنزرویشن ایکٹ کی بھی خلاف ورزی ہے”۔
ہماری قدرتی پناہ گاہوں اور مسکنوں میں خلل کو روکنے کی ضرورت ہے۔ سیاحوں کے بھاری رش کے پیش نظر جموں و کشمیر میں غیر معروف سیاحتی مقامات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ ہمارے ماحول کی قیمت پر نہیں ہونا چاہئے۔
شمالی کشمیر میں مشہور سکی ریزورٹ گلمرگ غیر منصوبہ بند ترقی کی بہترین مثال ہے۔ گلمرگ میں سیاحوں کا بہت زیادہ رش اس کی گنجائش سے کہیں زیادہ ہے۔ اس سے جنگلی حیات پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جن میں ریچھ اور برفانی چیتے کے علاوہ سکی ریزورٹ میں پودوں کی سینکڑوں اقسام اورنباتات شامل ہیں۔
اس صحت افزاء مقام میں پچھلے کئی برسوں سے مسلسل برفانی تودے انسانوں کی بنائی ہوئی تبدیلی کے اشارے ہیں۔ ماہرین برفانی کور کو متاثر کرنے کیلئے گنجائش سے زیادہ سیاحوں کی آمد کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، جس سے درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں برفانی تودے گرتے ہیں۔ ماہرین ماحولیات نے خبردار کیا ہے کہ اگر ماحول کے نازک علاقوں کی لے جانے کی صلاحیت کو خراب کیا گیا تو نقصان ناقابل تلافی ہوگا۔ اس کے نتیجے میں سیلاب، پانی کی قلت اور بڑے پیمانے پر فضلہ پیدا کرنے جیسی آفات کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ایکو ٹورازم کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جو بین الاقوامی سیاحت کی صنعت کے اہم ترین شعبوں میں سے ایک کے طور پر ابھر رہا ہے۔
منفرد زمین کی تزئین، ثقافتی تنوع اور وراثت کی قدر کے ساتھ جموںوکشمیرماحولیاتی سیاحت کے رہنماؤں میں سے ایک بن سکتا ہے۔ اس میں قدرتی مقامات، سرسبز و شاداب جنگلات، چشمے، دریا، جھیلیں، آبی پناہ گاہیں، خوشگوار موسم اور ثقافت کا تنوع ہے۔ ٹورازم ڈیولپمنٹ اتھارٹیوں کا فرض ہے کہ وہ سرسبز میدانوں اور جنگلات کو گاڑیوں کی توڑ پھوڑ سے بچانے کے لئے اقدامات کریں۔ سرسبز میدانوںاور چراگاہوں میں گاڑیوں کے داخلے کو روکنے کیلئے ماحول دوست رکاوٹیں ضرور لگائی جائیں۔ اس کے علاوہ مجرموں پر جرمانے عائد کیے جائیں۔
جموں و کشمیر حکومت اور دیگر شراکت داروںکو ماحولیاتی سیاحت کی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ جموں و کشمیر ایک انتہائی نازک ماحولیاتی خطہ ہے جہاں قدرتی آفات کاخطرہ ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔
(مضمون نگار انگریزی روزنامہ’’ گریٹر کشمیر‘‘ کے ایگزیکٹو ایڈیٹرہیں)
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)