ایل او سی کا آخری گائوں’ سیماری‘:اب بھی آر پار ایک ہی نام ،ایک ہی تہذیب و ثقافت کی بستی75برس پہلے تقسیم ہوئی یہاں کے پرندے آزاد، کسی کی بھی چھت پر بیٹھ سکتے ہیں،آب و ہوا ور بادل بے قید، پانی اپنی مرضی سے بہتا ہے، بندشیں صرف انسانوں پر

اشفاق سعید

سیماری(کرناہ) / / ہندوپاک تقسیم کو 75برس ہو چکے ہیں لیکن لائن آف کنٹرو ل پر واقع کچھ ایسے گائوںبھی ہیں جہاں تقسیم کے زخموں کا درد اب بھی کم نہیں ہوا ہے۔ لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب آباد لوگوں کی تہذیب و ثقافت ایک جیسی ہے۔اور تقریباً ہر کسی شخص کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار سرحد کے دوسری جانب رہتاہے۔یہاں کے لوگ ہاتھ ہلاکر ایک دوسرے کو اشارہ تو کرسکتے ہیں، لیکن گلے نہیں مل سکتے۔تمام بندشوں کے باوجود یہاں کے پرندے بے لگام ہیں۔اور وہ اپنی مرضی سے جہاں کہیں بھی چاہیں اڑ کرکسی کی بھی چھت پر براجمان ہوسکتے ہیں۔یہاں کی آب و ہوااور بادل بھی بے قید ہیں۔اور دریائے نیلم کا پانی بھی اپنی مرضی سے بہنے کیلئے آزاد ہے۔بس اگر بندشیں ا و ر پابندیاں ہیں تووہ یہاں کے انسانوں پر عائد ہیں۔

آخری گائوں

گائوںسماری جہاں سرحد کے دونوں جانب انسان قفس میں ہیں ، دریائے کشن گنگا یا دریائے نیلم سرحد کا کام کرتا ہے۔اس علاقے کے دونوں جانب چپے چپے پر بھارت اورپاکستانی فوج کا کنٹرول ہے اور لب دریا آباد گائوں سماری میں لوگوں کی نقل و حرکت بہت محدود ہوتی ہے۔بس مقامی آبادی ہی جانتی ہے کہ انکا گذر بسر کیسے ہوتا ہے۔لائن آف کنٹرول کا یہ ایک ایسا خوبصورت علاقہ ہے، جس کے سر سبز کھیت و کھلیان اور ندی نالے بھی بارودی سرنگوں سے بٹے پڑے ہیں۔اس کے پہاڑوں کی چوٹیاں، پیٹر پودے اور سبھی راستے فوجی قوت و صلاحیت کا مظاہرہ کرنے کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔لیکن مقای لوگ اس بات کو بھی شدت کیساتھ سامنے رکھتے ہیں کہ فوج ہماری ہے، ہم فوج کے سہارے ہی جی رہے ہیں۔ کشن گنگا دریاکے کنارے آباد ملک کے آخری گائوں’ سماری ‘،1947میں ملک کی تقسیم کے وقت دو حصوں میں بٹ گیا۔سماری گائوں کا ایک بڑا حصہ ہمارے یہاں یعنی ہندستان میں اور ایک پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں ہے۔ لیکن دونوں دیہات کو آر پار سماری کے نام سے ہی جانا جاتا ہے۔کشن گنگا نے رشتوں کو جدا کر دیا، گھروں کو بانٹ دیالیکن جذبات کو کم نہ کرسکا۔سماری گائوں کے بزرگ شہری آج بھی فرصت کے لمحات میںاپنے مکانوں کی کھڑکیوں پر بیٹھ کر سرحد پار اپنوں کی نقل حرکت دیکھتے ہیں۔ وہاں آذان ہوتی ہے تو یہاں لوگ نماز ادا کرتے ہیں، یہاں اذان ہوتی ہے تو وہاں یہی عومل دہرایا جاتا ہے۔یہاں کشن گنگا کی چوڑائی مشل سے 100فت ہوگی اور پانی کا شور کم ہو، تو آسانی کیساتھ دریا کے کناروں پر بیٹھ کر بات چیت کی جاسکتی ہے۔ جب کسی کا کوئی قریبی رشتہ دار فوت ہو جاتا ہے تو لوڈ سپیکر کے ذریعے اعلان کیا جاتا ہے کہ فلاں شخص کی موت واقع ہو چکی ہے ۔ گائوں کی تقسیم کیا ہوئی کہ بیٹی وہاں رہ گئی اور ماں باپ یہاں تڑپتے رہ رگئے۔ کہیں والدین سرحد کے اْس پار پھنس گئے اور ان کے بچے یہاں رہ گئے۔

بچپن کی یادیں

حکیم الدین تقسیم سے قبل اُس پار پلہ بڑھا، جہاں اسکی دو خالہ رہتی تھیں، جواب فوت ہو چکی ہیں ،تاہم اس کے چار خالہ زاد بھائی زندہ ہیں۔حکم الدین کے مطابق1947 سے قبل گائوں ایک تھا اور لوگ پیدل مظفر آباد جایا کرتے تھے، سڑکیں نہیں تھیں، دریائے کشن گنگا عبور کر کے اْس پار پہنچتے تھے اوررشتہ داروں کے ساتھ کھیلتے تھے۔ سرپنچ عبدالرشید کھوکھر نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’ میری عمر 75برس ہے لیکن اپنے والد ہدایت اللہ کھوکھر، جو کہ پیشے سے تاجر تھے ،سے سنا ہے کہ سماری میں 1947سے قبل صرف 10گھر تھے جس میں 5 دریائے کشن گنگا کے اِس پار اور پانچ5 اُس پار تھے۔انہوں نے کہا’’یہ سبھی خاندان ایک ہی باپ دادا کی اولاد تھے اورسبھی مغل چوگتا، ذات کے تھے‘‘۔سرپنچ کے مطابق سیماری کے مغل دراصل روس سے 18ویں صدی میں اُس وقت یہاں آئے تھے جب وہاں قحط سالی شروع ہوئی تھی ۔ اب اِ س پار سماری کی آبادی 4سو کے قریب ہے ۔سماری میں موٹی مرچ ، کالا زیرہ ، مکھن اور دیسی کھیرا کی فصل زیادہ اُگتی ہے۔تقسیم سے قبل بھی مکھن ، موٹی مرچ اور دیسی کھیرا کا کاروبار ہوتا تھا اورلوگ سرحد کے اُس پار بھیجتے تھے کیونکہ اس وقت یہ ٹیٹوال تجارتی مرکز کے ترین گائوں تھا ۔ٹیٹوال سے سماری کا راستہ صرف 5کلو میٹر کا ہے اور یہ آخری گائوں ٹیٹوال بلاک کا حصہ ہے ۔

تقسیم کے زخم

تقسیم کے زخم دھیرے دھیرے ختم ہوتے جا رہے ہیں لیکن جن افراد نے اپنے بزرگوں سے آر پار کی باتیں اور تقسیم کے قصے سننے ہیں وہ آج بھی اُن دنوں کو یاد کرتے ہیں ۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق گاؤں کا جغرافیائی رقبہ 88.6 ہیکٹر ہے۔اور کل آبادی 556 افراد پر مشتمل ہے جس میں مردوں کی آبادی 286 جبکہ خواتین 270 ہیں۔ سیماری گاؤں کی شرح خواندگی 29.32% ہے جس میں سے 43.71% مرد اور 14.07% خواتین ہیں۔ سماری گاؤں میں تقریباً 112 مکان ہیں۔ اُس پار سیماری کی آبادی میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے ۔