دلنہ بارہمولہ کشمیر کا ایک خوبصورت علاقہ جہاں ایک طرف اپنی خوبصورتی کی وجہ سے پوری وادی میں مشہور ہے، وہیں یہ علاقہ ادبی ذرخیزیت سے بھی کافی مشہور ہے۔یہاں بہت سارے قلمکار، نقاد اور شاعر گزرے ہیں اور آج بھی یہاں بہت سارے قلمکار، شاعر اور نقاد موجود ہیں جن میں نشاط انصاری، تنہا انصاری، شیرعلی مشغول، آفاق دلنوی، ایف آزاد دلنوی، شاہد دلنوی جیسے مشہور ومعروف قلمکاروں اور شاعروں نے نہ صرف کشمیری زبان وادب کی آبیاری کی بلکہ اردوزبان وادب کو بھی اپنے خون سے سینچا ہے ۔یہاں آئے روز نئے نئے ادب پارے مختلف زبانوں میں منظر عام پر آتےرہتےہیں اور ان ادب پاروں سے قارئین کو محظوظ کرتے رہتے ہیں ،انہی قلمکاروں میں ایف آزاد دلنوی کا نام بھی مشہور ہے۔ آپ ایک افسانہ نگار ہیں جو اپنے افسانوں کو زبان دیکر ان کو حقیقت میں تبدیل کرتے ہیں انہوں نے قلیل مدت میں ہی اپنے افسانوں سے قارئین کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے۔ آپ کا تعلق بھی دلنہ سے ہی ہے، جو ان کے نام سے ہی پتہ چلتا ہے۔ایف آزاد دلنوی کا افسانوی مجموعہ "سکوت" منظر عام پر آیا ہے.اپنے افسانوی مجموعہ کا "سکوت"یعنی خاموشی کا نام دیکر ایف آزاد دلنوی قارئین کو کیا باور کرانا چاہتے ہیں، وہ میری سمجھ سے باہر ہے۔میری نظر سے اس مجموعے کا نام "یہ زندگی، وقت کا مارا یا اور کچھ ہونا چاہئےکیونکہ اس مجموعے میں جو بھی افسانے شامل ہوئے ہیں، وہ سب اس ناقص معاشرے کےلئے غماز ہیں۔ میں وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ یہ افسانے نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی قصے کہانیاں ہیں، جن کو آزاد صاحب نے اپنی زبان دے کر ہماری آنکھیں کھولی ہیں۔حقیقت پر مبنی ان قصہ کہانیوں کو سادگی کے ساتھ ہمارے سامنے رکھ کر آپ نے ایک مبلغ کا کام انجام دیا۔ایک قلمکار کا یہی مُدعا ہوتا ہے کہ وہ قارئین کو آئینہ دکھاتا ہے کہ کون سی بُرائیاں اور ناکامیاں ہمارے معاشرے میں پنپ رہی ہیں اور کس طرح سے ان کا ازالہ کیا جائے۔سکوت میں آزاد نے ہمیں معاشرے کی برائیوں کا عکس دکھایا ہے ۔ایک افسانے "ٹائم ٹیبل" میں انہوں نے معاشرے کی سب سے بڑی برائی جو اس وقت عروج پر ہے کی طرف ہماری توجہ مرکوز کی ہے، اس افسانے میں انہوں نے ایک بیوہ کی کربناک داستان کو بیان کیا ہے جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ کس طرح سے ایک بیوہ ماں اپنی بہو کے ہتھے چڑھتی ہے اور گھر کا کام کرنے سے لیکر بچوں کو اسکول بس تک چھوڑنا اور پھر چھٹیوں کے وقت ان کو واپس لانا روز روز کا قصہ معلوم ہورہا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ شاید یہ واقعہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں یا یہ کہا جائے کہ یہ واقعہ مجھےآس پاس بھی نظر آرہا ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ اکثر بہوئیں ایسا ہی کام انجام دے رہی ہیں۔ آزاد دلنوی کے اکثر افسانے وادی کے مختلف اخبارات (جن میں کشمیر عظمیٰ بھی شامل ہے) میں شائع ہورہے ہیں اور اس کتاب میں شامل افسانےکشمیر عظمیٰ میں شائع ہوچکے ہیں۔ میں نے بہت سارے افسانہ نگاروں کے افسانے پڑھے ہیں، جنہوں نے اپنے افسانوں میں جنات، بھوت پریت اور پریوں کی کہانیوں کو موضوع بحث بنایا ہے مگر ایف آزاد نے ایسا نہیں کیا ہے۔ انہوں نے ان سبھی خیالی قصوں کو چھوڑ کر اپنے معاشرے میں پھیلی برائیوں کو موضوع بنایا ہے اور لوگوں کو برائیوں کے دلدل سے نکالنے کی کوشش کی ہے۔ ایف آزاد وادی کے دگرگوں حالات سے باخبر ہیں اور انہوں نے ان دگرگوں حالات کی عکاسی اپنے افسانوں "بدنصیب" اور "امید" میں کی ہے ۔بدنصیب میں ایک بیوہ ماں کی کہانی پیش کی ہے کہ کیسے اس کا شوہر اس کے آنکھوں کے سامنے ایک بم دھماکے میں مارا گیا اور اس کا بیٹا اس وقت اس کی گود میں تھا مگر اس نے اس بیٹے یوسف کو نازوں سے پالا ہے اور بڑا کیا مگر ایک دن وہ ٹھاٹھ باٹھ سے شہر کےلئے نکلا مگر واپس نہیں آیا، جس کی وجہ سے اس کی ماں کی صورت پاگلوں سی ہوگئی اور وہ پاگلوں کی طرح ایک دوسرے کو یوسف کے بارے میں پوچھتی رہی مگر کسی نے جواب نہیں دیا۔ ایسی دلخراش اور دل کو کریدنے والے واقعات روز ہماری نظروں سے گزر رہے ہیں ،روز یہاں لوگ غائب ہورہے ہیں مگر ان کا کئی اتہ پتہ نہیں ملتا بعد میں کئی کی بوسیدہ لاشیں ملتی ہیں یا کئی کی صرف ہڈیوں کے ڈھانچے، افسانہ نگار نے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ آخر یہ لوگ اگر جارہے ہیں تو کہاں جارہے ہیں؟ کسی کی آنکھوں کا لال گم تو کسی کا شوہر غائب ، کسی کا بھائی لاپتہ ایسی ہی خبریں ہمیں روز ملتی ہیں اور ہر کسی کے منہ پر سوالیہ نشان ہے کہ آخر کون ہےجو ان کو غائب کررہا ہے؟اور کیوں غائب کررہا ہے؟
دوسرے ایک اور افسانے "امید" میں بھی انہوں نے ایسے ہی ایک اور واقعے کو موضوع بحث بنایا ہے، جس میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے لوگ کراس فائرنگ کی زد میں آکر جاں بحق ہوجاتے ہیں بعد میں نہ ان کا کوئی پرسان ہوتا ہے نہ کوئی جواب دینے والا…..
انہوں نے ایسے ہی بہترین افسانوں سے اس کتاب کو آراستہ کیا ہے "امی بول دو" میں بھی انہوں نے ہمارے بیمار معاشرے کی عکاسی کی ہے کہ کس طرح ہم اپنے بال بچوں کے رشتے ڈھونڈتے ڈھونڈتے ان کو بوڑھا کرتے ہیں اور ہر رشتے میں کوئی نہ کوئی عیب ضرور نکالتے ہیں جب کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا اور لوگوں کو یہ سوچنا چاہیے تھا کہ آخر دوسروں کی بیٹی بھی ہماری ہی بیٹی کی طرح لاڈلی ہے مگر ایسا کوئی نہیں سوچ رہا ہے بلکہ ہم اس چیز کو بڑھاوا ہی دیتے ہیں اور معاشرے کو اندھیرے میں دھکیلتے ہیں ، بعد میں جب اپنی بیٹیوں کی شادی کی باری آتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ معاشرہ بیمار ہے جبکہ ہم یہ نہیں سوچتے ہیں کہ ہم نے اس کو اپنے ہاتھوں سے بیمار بنایا ہے۔ ایف آزاد ایک باحس قلمکار ہیں جنہوں نے اپنی فنی صلاحیت سے اپنے افسانوں کو وقت کی پیچیدگیوں سے آراستہ کیا ہے ۔انہوں نے اپنے افسانوں کوفضول میں لمبا کرنے سے اکثر گریز کیا ہے اور بات کو سیدھے طریقے سے پیش کیا ہے ،جس سے ان کے افسانے خوبصورت بنتے ہیں ۔ایک اور بات یہ ہے کہ ان کے افسانے تکنیکی اعتبار سے بھی اعلیٰ اور عمدہ ہوتے ہیں ۔امید ہے کہ ایف آزاد کا سفر ایسے ہی رواں دواں رہے اور ہمیں اپنے افسانوں سے محظوظ کرتے رہیںگے۔
(رابطہ۔7006259067)